مساجد کو کھیل کے میدان بنانا کیسا ہے؟
مسجد کی آباد کاری بہت ثواب کا کام ہے اور اصلاح احوال کا بہترین ذریعہ ہے. فی زمانہ نسل نو خصوصاً چھوٹے بچوں کو مسجد سے جوڑنا بہت اہم ہے. بچوں سے کیے جانے والے سلوک کے بارے میں ہمارے ہاں دو رویے ہیں. ایک تو بہت زیادہ سختی پر مبنی ہے کہ معمولی سی بات پر بچے کو مار کر مسجد سے نکال دینا. دوسرا رویہ پہلے رویے کے توڑ کے لیے لایا گیا کہ بچوں کا مسجد میں دل لگانا. لیکن اس ضمن میں بھی کچھ زیادہ ہی ہو گیا.
ہم میں سے بھی بہت سے دوست ایسی ویڈیوز شئیر کرتے ہیں، جن میں سے زیادہ کا تعلق ترکی سے بتایا جاتا ہے. مثلاً کل ہی ایک ویڈیو نظر سے گزری کسی دوست نے اسی حوالے سے اسے شئیر کیا تھا کہ بچے مسجد میں فٹبال سے کھیل رہے ہیں اور اس کھیل کو مسجد میں لانے کا بہترین ذریعہ قرار دیا گیا. اسی طرح ایک پروگرام سنا جس میں بتایا جا رہا تھا کہ ہم نے مسجد میں “ٹک ٹاک کارنر” بھی بنا دیا ہے کہ بچے وہاں بیٹھ کر کوئی اچھی ٹک ٹاک ویڈیو ہی بنائیں گے تو یہ بھی بگاڑ پیدا کرنے والا تکلف ہے.
دیکھیں بچہ اگر مسجد میں آتا ہے اور by nature کوئی شرارت کرتا یا کھیلتا ہے تو وہ الگ بات ہے. لیکن کھیل کود اور شرارت کے لیے اسے مسجد میں ماحول بنا کر دینے کا مطلب کیا ہے؟ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی بچے یوں مسجد میں آیا کرتے تھے اور رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم انکا فطرتی اچھلنا کودنا برداشت کیا کرتے تھے لیکن الگ سے ماحول کبھی نہیں بنا کر دیا گیا. وہ ہمارے ہاں ہی شروع ہوا ہے. اگر ایک بچہ نارمل کوشش سے وقت دیتا ہے مسجد میں آتا ہے تو پھر مسجد کے ہال کو سپورٹس ویلی بنانا ضروری ہے؟
اگر ان بچوں کو اتنا زیادہ کھلا ماحول مہیا کیا جائے گا تو مستقبل میں ان بچوں میں “دینی معاملات میں” تساہل پیدا ہو گا اور وہ دینی معاملات کو ہلکا لینا شروع کر دیں گے. اگر اس طرح کی کوشش کرنی ہے تو مسجد کا ہال ضروری ہے؟ کوئی الگ سے جگہ لیکر کہ جسکا مقصد صرف اس طرح کی سرگرمیاں ہوں اسے وقف کیا جائے. پھر مسجد میں اس طرح اچھل کود کروا کر دوسروں کو طعنے دینا کہ انکو جدید تقاضوں اور جدید ذہنوں کا ہی نہیں پتہ، یہ ایک اور نیا محاذ ہے. اگر ان بچوں کو ایک سِمپل کوشش کے ذریعے مسجد میں لایا جا سکتا ہے تو خدارا یہ نئے نئے راستے کھولنے اور بہانے بنانے سے گریز کریں. مسجد کو اتنا ہلکا مت لیں اسکا تقدس قائم رہنے دیں، سپورٹس کے لیے کچھ اور حساب کتاب لگا لیں۔
عبدالرحمن انور
نوٹ: اس حوالے سے کچھ دیر پہلے لجنۃ العلماء للإفتاء کی طرف جاری کردہ فتوی میں بھی یہی موقف پیش کیا گیا ہے کہ مسجد کو کھیل کود کا میدان بنانا درست نہیں، کیونکہ یہ مسجد کے تقدس کے خلاف ہے۔
مساجد میں کون کون سی سرگرمیاں سرانجام دی جاسکتی ہیں؟ اس حوالے سے ایک تحریر یہاں ملاحظہ فرمائیں۔