اگر قرون اولی کی ثقافتی تاریخ کو جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مساجد صرف نماز کی ادائیگی کا مرکز نہیں بلکہ تمام تر معاشرتی، تعلیمی، تدریسی، حکومتی سرگرمیوں کا محور و مرکز ہوا کرتی تھی۔
لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ جب خلیفہ وقت نے نماز کی امامت سے اپنے آپ کو الگ گیا تو اس کے کچھ نقصانات بہت بڑے تھے
اول: اسلام کے سیاسی نظام کے سب سے مرکزی عہدے کی مسجد سے تعلق میں ضعف اور کمزوری
دوم: نماز کی امامت ایک باقاعدہ نوکری کے تصور میں آ گئی
سوم: مسجد کی مرکزیت اور محوریت متاثر ہونا شروع ہو گئی
لیکن اس سے قبل سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مساجد تعلیم و تربیت کا مرکز ہوا کرتی تھیں، تمام تر عدالتی فیصلے مساجد میں ہی ہوا کرتے تھے۔ مختلف معاشرتی کھیل و تفریح بھی مساجد میں منعقد کی جاتی تھیں، بعد کے ادوار میں تدریجی کیفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے مساجد کے ساتھ کچھ تعمیرات کی گئی جہاں تعلیمی و تدریسی و دعوتی اور عدالتی مصروفیات کا انتظام و انصرام کیا گیا لیکن بہرحال اس کا ایک مضبوط تعلق مسجد کے ساتھ ضرور رہا۔ ان سب کا ثبوت مختلف احادیث میں ملتا ہے جس کا ذکر ایک تفصیل کا متقاضی ہے۔
ایک طرف ہم شکوہ کرتے ہیں کہ ہمارا مساجد کے ساتھ تعلق کمزور ہو گیا ہے دوسری طرف ہم مساجد کو ایک کمیونٹی سینٹر کا مقام دینے کو تیار نہیں ہیں۔
کیا ہی خوب ہو کہ ہفتہ وار کوئی ایسی سرگرمیوں کو شروع کیا جائے جس میں محلے کے بچوں کو مسجد کے ساتھ جوڑا جا سکے مثال کے طور پر مسجد کی ہفتہ وار صفائی بچوں کے ساتھ مل کر کی جائے یا جو جائز کھیل اور سیر وتفریح مساجد کے ساتھ ممکن ہیں ان کا انعقاد کیا جائے۔ جون جولائی کی چھٹیوں میں سمر کیمپ کا انعقاد مساجد میں کیا جائے جس میں ان کی دینی و معاشرتی تربیت کو ممکن بنایا جا سکے۔
مساجد کے صحن اگر ہیں تو تمام جائز کھیل کروائے جائیں اور ساتھ میں نماز و دینی تربیت بھی بہت آسان ہو جائے گی کیونکہ عمومی طور بچے مساجد کی طرف کم آتے ہیں اوپر سے جو بچے آتے ہیں نماز کے دوران ان سب کو پیچھے بھیج دیتے ہیں اپنے ساتھ کھڑا نہیں کرتے، اس رویہ سے انہیں یہ پیغام ملتا ہے کہ نماز پڑھنا صرف بڑوں کا کام ہے۔ ہم تو بس ایسے ہی ساتھ آگئے ہیں۔
01) آئمہ مساجد کا یہ فرض ہے کہ باقاعدہ خطبات جمعہ میں اس تصور کو واضح کریں کہ مساجد کو کس طرح کمیونٹی سینٹر بنایا جا سکتا ہے
02) بچوں کی دل چسپی کے معاملات کو جس طرح جائز حدود میں رہتے ہوئے مساجد کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے۔
03) ہم اپنی معاشرتی سرگرمیوں کو کس طرح مساجد میں کر سکتے ہیں
04) نکاح کی تقریب مساجد میں منعقد کروائی جا سکتی ہے
05) امام مسجد کو مسجد کمیٹی اور نمازی حضرات اپنا ملازم نہ سمجھیں
06) بنیادی دینی تعلیم کے لیے مقامی مساجد سکول بنائے جائیں جہاں صرف بنیادی دین تعلیم دی جائے (عقیدہ، نماز، دعائیں اور آداب زندگی وغیرہ)
07) مساجد میں چھوٹے پیمانے پر مکتبات بنائے جائیں اور مطالعہ مراکز بنائے جائیں ، کسی زمانے میں اخبارات اس قابل ہوتے تھے کہ انہیں مساجد مکتبات میں رکھا جا سکتا تھا اب تو انہیں مساجد کے قریب بھی نہیں رکھنا چاہیے۔
08) بچوں اور نوجوانوں میں مطالعہ کا ذوق پیدا کرنے کے لیے غور وفکر کیا جائے کہ کن مجالات میں ان کے لیے کتب جمع کی جا سکتی ہیں یعنی دینی ادب کے ساتھ جاسوسی ناول وغیرہ
09) والدین کے باہمی تعاون سے بچوں میں تخلیقی صلاحیتوں کو پیدا کرنے کے لیے مساجد کے ساتھ تعلیمی مراکز میں مختلف تکنیکی ورکشاپس کروائی جا سکتی ہیں۔
10) معاشرے کے اہم ترین جزو خواتین کی تربیت و اصلاح کے لیے مساجد کو کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے اس پر بھی غور وفکر کیا جائے بالخصوص ازدواجی زندگی کے حوالے سے بچیوں میں شعور پیدا کرنے کے حوالے سے تربیتی نشستیں منعقد کی جا سکتی ہیں
تلک عشرہ کاملۃ
اگر آپ کے پاس اور تجاویز ہیں تو کمنٹس میں ضرور لکھیں تاکہ انہیں باقاعدہ ایک مہم کی صورت میں نشر کیا جا سکے۔

ڈاکٹر شاہ فیض الابرار صدیقی