مولوی مخالف طبقہ

کچھ لوگوں کو مولوی کے نام سے بڑی چڑ ہوتی ہے۔ جونہی کسی مجلس میں کسی عالم کا نام لیا جائے تو وہ فورا اسے ملا یا مولوی کہہ کر تمسخر اڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے مولوی کا نام سنتے ہی ان کے منہ کا ذائقہ خراب ہو گیا ہو۔ کبھی آپ نے سوچا کہ آخر انہیں مولوی سے تکلیف کیا ہے؟ اس مولوی بے چارے نے ان کا بگاڑا کیا ہے؟
آئیے! ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ یہ لوگ مولوی سے خار کیوں کھاتے ہیں. مولوی کا نام سن کر بری بری شکلیں بنانے والے یا مولوی پر بات کرتے ہوئے منہ سے جھاگ اڑانے والے لوگ عموما دو طبقات سے تعلق رکھتے ہیں:
1. وہ طبقہ جو مسلمانوں کے گھر میں پیدا تو ہو گیا لیکن اپنے مسلمان ہونے پر شرمندہ ہے۔ اب وہ چونکہ نئے سرے سے کسی غیر مسلم کے گھر پیدا تو ہو نہیں سکتے اس لیے وہ مسلمان کے گھر میں پیدا ہونے کا سارا غصہ اس شخصیت پر نکالنا چاہتے ہیں جو اس معاشرے میں اسلام کی نمائندہ شخصیت ہے۔ وہ کسی نہ کسی بہانے مولوی پر اپنے شرمندہ شرمندہ سے مسلمان ہونے کا غصہ نکالتے ہوئے نظر آئیں گے۔ کیونکہ یہ مولوی ہی ہے جو معاشرے کو اسلام سے مکمل طور پر کٹنے نہیں دیتا۔ ایسے لوگ کبھی تو آپ کو یہ کہتے ہوئے نظر آئیں گے کہ پوری دنیا میں بگاڑ کا سبب صرف مولوی ہے۔ کوئی یہ کہتا ہوا نظر آئے گا کہ دین کو صرف مولویوں نے بگاڑا ہوا ہے۔ کوئی یہ کہتا ہوا نظر آئے گا کہ ہم تو چاند پر جا رہے تھے بس مولوی نے ہماری ٹانگ پکڑ لی ورنہ ہم تو اب تک چاند پر پہنچے ہوتے۔ اسی طرح کے مختلف حیلوں بہانوں سے یہ لوگ پورے معاشرے حتی کہ حکومت کی تمام تر ناکامیوں کا ملبہ مولوی پر ڈالتے ہوئے نظر آئیں گے۔ حتی کہ وہ لوگ بھی جو تمام تر حکومتی وسائل استعمال کرنے کے باوجود معاشرے کو کوئی فائدہ نہیں دے رہے اور ان کا سوائے مولوی پر تنقید کے معاشرے میں کوئی کردار نہیں وہ بھی گز گز لمبی زبانیں نکال کر مولویوں پر تبصرے کرتے نظر آئیں گے اور مجال ہے جو کبھی آپ کو اپنے فیلڈ میں اپنی کارکردگی پر کوئی بات کرنے دیں۔ آپ کو بھی بات کریں گے وہ گھما کر مولوی کو مطعون کرنے کی کوشش کریں گے۔
2. دوسرا طبقہ ان لوگوں کا ہے جو اسلام کی خود ساختہ تشریح کرنا چاہتے ہیں، احادیث کا انکار کرنا چاہتے ہیں، جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ تمام احادیث، صحابہ کرام کے فرامین، تابعین اور ائمہ کے اقوال سب کچھ اٹھا کر کہیں دور پھینک دیا جائے اور ان کی ہفوات کو فرمودات عالیہ سمجھ کر قران کی تفسیر اور دین کا درجہ دیا جائے۔ ایسے لوگ آپ کو یہ کہتے ہوئے نظر آئیں گے کہ مولوی نام کا کوئی عہدہ (Designation) دین میں نہیں ہے۔ کوئی کہے گا مولوی دین کا ٹھیکیدار تھوڑی ہے؟ آپ مولویوں کی باتوں میں نہ آئیں اب خود سے دین پر عمل کریں۔ اور خود سے دین پر عمل کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دین کے نام پر جو چاہے کریں۔ ان لوگوں کا ایک بڑا واضح اور متفقہ نقطہ نظر یہ ہے کہ دین میں مولویت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے حالانکہ یہ بات سوائے دھوکے کے کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ بات سو فیصد درست ہے کہ دین اسلام میں کسی بھی عالم کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ دین میں کوئی تبدیلی کر سکے لیکن خود اللہ رب العزت کی مرضی یہ ہے کہ معاشرے کے کچھ لوگ دین کے لیے خالص ہو کر دین کو وقت دیں، سیکھیں اور دوسرے لوگوں کو سکھائیں۔ اللہ تعالی سورۃ توبہ میں فرماتے ہیں:

وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ،

کہ مومن سارے تو ایک ہی وقت میں (دین سیکھنے کے لیے) نکل نہیں سکتے تو ان کے ہر گروہ میں سے کچھ لوگ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے لیے کیوں نہ نکلے تا کہ جب وہ اپنی قوم کی طرف لوٹ کر جائیں تو اپنی قوم کو سمجھائیں تاکہ وہ بچ جائیں۔ اس آیت میں اللہ تعالی واضح طور پہ یہ فرما رہے ہیں کہ کچھ لوگ ایسے ہونے چاہییں جو صرف دین کا علم حاصل کریں اور دوسرے لوگوں کو ڈرائیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ دین کی خود ساختہ تشریحات کرنے والوں کے راستے میں رکاوٹ صرف مولوی ہے۔ مولوی ہی انہیں قرآن مجید کی من مانی تفسیر نہیں کرنے دیتا۔ مولوی انہیں احادیث کا مذاق نہیں اڑانے دیتا۔ جب یہ کسی حدیث کا انکار کرتے ہیں اور کسی کو لے لیتے ہیں تو مولوی انہیں آڑے ہاتھوں لیتا ہے۔ جب یہ دین کی من مانی اور نئی سی صورت بنا کر لے آتے ہیں تو بھی انہیں مولوی کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے انہیں مولوی سے تکلیف تھی، ہے اور ان شاءاللہ رہے گی۔

مقصود احمد
خریج جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ
لیکچرار شعبہ علوم اسلامیہ، اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور، بہاول نگر کیمپس۔

یہ بھی پڑھیں: صرف پانچ دن ماں کی خدمت اور محبت کو ملے