سببِ تالیف
شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ نے احناف اور اہل حدیث کے مابین مشہور اختلافی مسائل رفع الیدین ، فاتحہ ، آمین وغیرہ کے مسائل کے ساتھ ساتھ تقلیدِ شخصی کا خوب رد کیا اور اسے بدعت قرار دیا اور اس رسالے کا نام تنویر العینین فی اثبات رفع الیدین رکھا۔
اس کے جواب میں احناف کی طرف سے تنویر الحق نامی کتاب لکھی گئی۔ جب یہ کتاب میان نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ کی نظر سے گزری تو میاں صاحب نے اس کے جواب میں معیار الحق کے نام سے کتاب لکھی جس کا بلکل مختصر سا تعارف پیش کیا جارہا ہے۔
یہاں میں مختصر بات کرنا چاہوں گا جس سے معیار الحق کتاب کی اہمیت معلوم ہو پائے گی کہ یہ کتاب صرف تنویر الحق کا جواب ہی نہیں اس کا پوری طرح احاطہ ہے کہ جس نے تنویر کے دلائل اور پھر شاہ شہید رحمہ اللہ پر جو اعتراضات کیے گئے ان کا مکمل جواب دیا گیا ہے۔
اس کا اسلوب نہایت صاف اور ذہن جلاء ہے جس میں غیر متعلقہ مباحث کے بجائے ٹھوس دلائل سے گفتگو کی گئی ہے۔
اس کتاب کی علماء نے بہت تعریف کی ہے کیونکہ اس میں میاں صاحب نے اختلافی مسائل کا رد کرتے ہوئے قرآن وحدیث کے ساتھ ایسا فقہی جواب دیا کہ ہر قاری حیران ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سب سے بڑے ادیب مولانا ابو الکلام آزاد بھی اس کے دلائل اور اسلوب سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کا جواب آج تک مخالفین نہ دے سکے اور نہ ہی دے سکیں گے۔ ویسے تو معیار الحق کے جواب میں دیگر کتابیں لکھی گئی ہیں مگر انصاف پسند علماء نے احناف کے اس جواب کو اہمیت کی نظر سے نہیں دیکھا۔
معیار الحق کے جواب میں مولوی ارشاد حسین رام پور (م 1311ھ) نے انتصار الحق تالیف کی جب یہ دونوں کتابیں ( معیار الحق اور انتصار الحق) امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کے مطالعہ میں آئیں تو انہوں نے فرمایا: ” مجھ پر معیار الحق کی سنجیدہ اور وزنی بحث کا بہت اثر پڑا اور صاحب ارشاد الحق ( انتصار الحق) کا علمی ضعف صاف صاف نظر آگیا”
( آزاد کی کہانی خد آزاد کی زبانی بروایت قلعے آبادی ص 366)
یہاں یہ بھی بتانا مناسب سمجھوں گا کہ مولوی ارشاد حسین رام پوری نے دعوی کیا تھا کہ میری اس کتاب کا کوئی غیر مقلد عالم جواب نہیں دے سکے گا لیکن یہ ان کی غلط فہمی تھی حضرت شیخ الکل محدث دہلوی کے چار تلامذہ نے انتصار الحق کے جواب لکھے اور آج تک کسی تقلیدی عالم کو جرات نہیں ہوئی کہ ان چاروں جوابات میں سے کسی ایک کا جواب الجواب لکھ سکے اور ان شاءاللہ تقلیدی عالم کو قیامت تک جرات نہ ہوگی کہ وہ جواب الجواب لکھ سکے ۔
میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ نے معیار الحق میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے متعلق بہترین کلمات ادا کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ امام صاحب کی فضیلت میں کچھ ایسی باتیں اور احادیث خد سے گھڑ لی گئی ہیں جن کا دور دور سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ شیخ صاحب سب سے پہلے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے تابعی ہونے کا انکار کرتے ہوئے محدثین کے اقوال سے جواب دیتے ہیں۔
پھر ان صحابہ کرام جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے انہیں دیکھا اور ان سے حدیث لی کی تاریخ وفات ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر آئمہ کرام کے اقوال سے بھی ان کا رد کرتے ہیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی ملاقات اور ان سے تین روایات کا انکار کرتے ہوئے میاں صاحب فرماتے ہیں کہ یہ روایات ہی من گھڑت ہیں۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی فضیلت میں دیگر عمل جو امام صاحب کی طرف منسوب کیے جاتے ہیں مثلاً چالیس سال ایک ہی وضوء سے عشاء اور فجر ادا کرنا، ہر روز ایک ہزار رکعات پڑھنا، اپنی زندگی میں ستر ہزار مرتبہ قرآن ختم کرنا وغیرہ۔۔۔ کا خوبصورت انداز میں قرآن وحدیث سے رد کیا گیا ہے۔
تقلید پر بھرپور علمی بحث کی گئی ہے اور وہ آیات واحادیث ذکر کی گئی جن سے غلط استدلال کی مدد سے تقلید کو جائز قرار دیا جاتا ہے اور ان کا جواب دیا گیا ہے۔
اگر تقلید کی جائے تو کس کی؟ تقلید کی جائے گی کسی ایک امام کی یا چاروں کی؟
کیا ” فاسئلوا اھل الذکر” سے مراد صرف ائمہ اربعہ ہی ہیں؟
ایسے کئیں اعتراض کرنے کے بعد مؤلف نے تقلید کا رد کیا ہے۔
تقلید کی چار اقسام بیان کی اور ان اقسام کے تحت خوب بحث کی۔
مؤلف نے ائمہ اربعہ کے اقوال ذکر کیے اور بیان کیا کہ آئمہ کرام خد لوگوں کو تقلید سے منع کرتے اور قرآن وحدیث کو اپنانے کی تعلیم دیتے تھے۔
مختصر یہ کہ تقلید پر خوب بحث کرنے کے بعد مؤلف نے اجماع کی اقسام بیان کرنے کے ساتھ اجماع بسیط اور اجماع مرکب پر خوب صورت دلائل سے مسئلہ واضح کیا۔
مخالفین کے اعتراضات کا خوب جواب دیا گیا ہے
جن حدیثوں کے متعلق کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ حدیثیں آپس میں متعارض ہیں ان کا فقہی جواب اور تعارف کا حل پیش کیا گیا ہے۔
احناف کے مشہور اختلافی مسائل پر بحث کی گئی ہے۔
فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازوں کے اوقات پر مکمل بحث کی گئی ہے اور احناف جو حدیث سے استدلال لیتے ہیں ان کا فقہی جواب دیا گیا ہے۔
مسئلہ جمع بین الصلوتین پر بحث کرتے ہوئے جمع تقدیم اور جمع تاخیر پر احادیث پیش کی گئی ہیں۔
ازقلم: دانش فاروق نورپوری