سوال

آج کل کچھ اہلحدیث اپنے کسی عزیز کی وفات کے تقریبا ایک سال بعد دینی پروگرام اور محفل کا انعقاد اور کھانے وغیرہ کا اہتمام کرتے ہیں، اور کچھ آئندہ رمضان میں دینی پروگرام اور جلسہ کرواتے ہیں، کیا میت کی طرف سے ایسے پروگرامز کروانا اور ایصال ثواب کا یہ طریقہ کار شرعا درست ہے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

میت کے ایصال ثواب کے لیے اکٹھا ہونا، کھانوں کا اہتمام اور اس طرح کے پروگرام ترتیب دینا چاہے اگلے دن، تیسرے دن، ساتویں دن، چالیسویں دن یا سال بعد ہو۔ يہ عمل قرآن و سنت سے ثابت نہیں ہے اور خير و بھلائى قرآن وسنت كى اتباع و پيروى میں ہی ہے۔
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

“مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ”. [صحيح مسلم: 1718]

’جس نے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی ایسی نئی بات شروع کی جو اس میں نہیں تو وہ مردود ہے‘۔
ایک اور حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
“من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد”. [ صحيح مسلم: 4493]
” جس نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں ہے تو وہ عمل مردود ہے‘‘۔
نہ تو یہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ تھا اور نہ ہى آپ كے خلفائے راشدين كا طريقہ تھا كہ فوت شدگان كے ليےاکٹھ کیا جائے، کھانے کا اہتمام ،محفلیں اور ان كى برسياں منائى جائيں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

“عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ”. [سنن ابوداؤد: 4607]

’’تم میری سُنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو اپنائے رکھنا، اور اسکو خوب مضبوطی سے تھامنا، بلکہ ڈاڑھوں سے پکڑے رکھنا، اور نئی نئی بدعات و اختراعات سے اپنے آپ کو بچائے رکھنا، بلاشبہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے‘‘ـ
اسی طرح رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح طور پر ثابت ہے كہ آپ خطبہ جمعہ ميں فرمايا كرتے تھے:

“إِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ ، وَخَيْرُ الْهُدَى هُدَى مُحَمَّدٍ ، وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا ، وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ “. [ صحيح مسلم:2005]

’يقينا سب سے بہتر بات اللہ تعالى كى كتاب ہے، اور سب سے بہتر طريقہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كا ہے، اور سب سے برا كام ایجاد کردہ بدعات ہیں ، اور ہر بدعت گمراہى ہے‘۔
سیدنا جریر بن عبد اللہ البجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

“كُنَّا نَعُدُّ الِاجْتِمَاعَ إِلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ وَصَنِيعَةَ الطَّعَامِ بَعْدَ دَفْنِهِ مِنَ النِّيَاحَةِ”. (مسند احمد :6905)

’ہم میت کو دفن کر دینے کے بعد اہل میت کے ہاں جمع ہونے اور( ان جمع شدہ لوگوں کے لیے) کھانا پکانے کو نوحہ میں سے شمار کرتے تھے‘۔
یہ نوحہ کی ایک قسم ہے، اس لیے میت کے حوالے سے اس طرح کے پروگرام اور جلسوں کا انعقاد شرعا درست نہیں ہے۔
اس کے علاوہ ویسے دینی پروگرام کا انعقاد کروایا جائے اور پھر اس میں اپنے فوت شدگان کے لیے دعا کروا لیں تو یہ عمل شرعا جائز اور ثابت ہے۔
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے صحيح احاديث ميں مسلمان كو فوت ہونے كے بعد فائدہ دينے والى اشياء بيان كرتے ہوئے فرمايا:

“إِذَا مَاتَ ابنُ آدم انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثٍ: صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أو عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ”. [صحيح مسلم: 4223]

”جب انسان فوت ہو جاتا ہے، تو اس كے سارے عمل منقطع ہو جاتے ہيں، سوائے تين چیزوں کے: صدقہ جاريہ، يا نفع مند علم، يا نيک اور صالح اولاد جو اس كے ليے دعا كرتى رہے”۔
ابواسید مالک بن ربیعہ ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی دوران بنو سلمہ کا ایک شخص آپ کے پاس آیا اور عرض کیا:

“يا رسول الله، هل بقي من بر أبوي شيء أبرُّهما به بعد موتهما؟”.

اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ کی وفات کے بعد ان کے ساتھ حسن سلوک کی کوئی صورت ہے؟
آپ نے فرمایا:

“نعم، الصلاة عليهما، والاستغفار لهما، وإنفاذ عهدهما من بعدهما، وصلة الرحم التي لا توصل إلا بهما، وإكرام صديقهما”.

’ہاں ہے، ان کے لیے دعا اور استغفار کرنا، ان کے بعد ان کی وصیت کو نافذ کرنا، جو رشتے ان کی وجہ سے معرض وجود میں آئے، انہیں برقرار رکھنا، ان کے دوستوں کی خاطر مدارات کرنا‘۔ [سنن أبي داود:5142، سنن ابن ماجة:3664]
ایصالِ ثواب کا مسنون طریقہ یہی ہے۔ اس کے علاوہ جتنے طریقے ہمارے ہاں رائج ہو گئے ہیں، قرآن وسنت میں، یا عہدِ نبوی اور عہدِ صحابہ میں ایسی کسی سرگرمی کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں کئی ایک صحابہ کرام اور صحابیات دنیا سے رخصت ہوئیں، آپ نے ان کے لیے کفن ، دفن، نمازِ جنازہ اور دعا کا اہتمام کیا، جس کی تفصیلات کتبِ احادیث میں موجود ہیں۔ وہاں کہیں بھی قبرستان یا میت کے گھر یا اس سے ہٹ کر کسی جگہ ایسی کوئی محفل و مجلس منعقد کرنے کا ذکر نہیں، جس قسم کی سرگرمیاں آج ہمارے ہاں ایصالِ ثواب وغیرہ کے نام پر منعقد کی جاتی ہیں۔
بلکہ اس قسم کی رسوم و رواج ہندو مذہب سے دیکھا دیکھی مسلمانوں میں سرایت کر گئی ہیں، جیسا کہ ہندو سے مسلمان ہونے والے بزرگ مولانا عبید اللہ مالیرکوٹلوی نے اپنی کتاب ( تحفۃ الہند، ص:188 ) میں لکھا ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ