سوال (2823)

میڈیکل کمپنیاں اپنے پروڈکٹ کی سیل بڑھانے کے لیے ایکٹیویٹی کے نام پر مختلف چیزیں دیتے ہیں، بالفاظ دیگر کہ میڈیکل ریپ کبھی کیک، کبھی چاکلیٹ، کبھی نمکو، کبھی ایک لاکھ کے آرڈر پر دس پندرہ ہزار کا چیک دیتا ہے، مگر ساری ایکٹیویٹی مالی طور پر کمپنی کی طرف سے ہوتی ہے لیکن! دینے والا میڈیکل ریپ ہوتا ہے (جو کمپنی میں جاب کرتا ہے) تو کیا میڈیکل ریپ کی یہ جاب رشوت سے پاک ہے؟ یا سراسر رشوت ہے؟ اور اس کی تنخوہ کا کیا حکم ہے؟ یا اس نوکری کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب

میڈیکل ریپ کا اصل کام کمپنی کی ادویات کی تشہیر کرنا ہوتا ہے۔ اس حد تک تو یہ کام جائز ہے، لیکن اصل حقیقت میں اس سے زائد بھی بہت کچھ ہوتا ہے جیسے:
1 : نمونہ جات ڈاکٹر حضرات کو جان بوجھ کر زیادہ مقدار میں دینا
2 : تحفے تحائف دینا تا کہ ڈاکٹر مریض کو انہی کی دوائی تجویز کریں۔
3 : ڈاکٹر حضرات کے ساتھ دوستی تعلقات یا زیادہ دیر بیٹھ کر اپنے سامنے دوائی لکھوانا۔
4 : دوسری کمپنی کی دوائیوں کی برائی کر کے اس کو کمتر ثابت کرنا۔
5 : بڑے ہوٹلز میں ڈاکٹر صاحبان کو پریزنٹیشن کے نام پر ان کو کھانا کھلانا۔
6 : تفریح مقامات پر لے جانا۔
7 : اپنی دوائی کے بارے میں بلند و بانگ دعوے کرنا چاہے وہ دوائی حقیقت میں اتنی کارآمد ہو یا نا ہو۔
8 : ڈاکٹر کے نسخہ micro nutrients کے نام پر معمول سے ہٹ کر اپنی دوائی لکھوانا۔
9 : دوائی کی مزید سے مزید سیل کے لیے ڈاکٹر حضرات کی مختلف جائز وناجائز خواہشات کو پورا کرنا۔
ان تمام معاملات کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کام ناجائز ہے۔ مریض کو علاج کا حق حاصل ہے اور اسے یہ بھی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے کسی مخصوص پسندیدہ ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے جائے۔ اسی طرح مریض کو یہ بھی حق حاصل ہے کہ وہ ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوائی کہیں سے بھی خرید لے۔ مریض کو مجبور کرنا کہ یہ دوائی ہمارے کلینک سے فلان مخصوص کمپنی ہی کی لے مریض کے ساتھ سراسر ظلم وزیادتی ہے اور اس زمن میں کمپنوں سے لیا جانے والا منافع رشوت کی ایک قبیح صورت یے۔
لہذا اللہ تعالیٰ کے حکم

“وَ تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الإثْمِ وَالعُدْوَان”

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان

“لا طاعة في معصية، إنما الطاعة في المعروف”

کے تحت یہ کام اور اس پے ملنے والا منافع حرام و ناجائز ہے، ایسی نوکری نہیں کرنی چاہیے، جدید دور ہے کاروبار اور نوکریوں کے وسیع مواقع موجود ہیں، کسی اور جگہ نوکری کی تلاش کر لیں۔
والله تعالى أعلم والرد إليه أسلم.

فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ