اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالی نے ہمیں ظاہری اسباب اور وسائل و ذرائع کے ساتھ جوڑا ہے، لہذا ہمیں فوائد کے حصول اور نقصانات سے بچنے کے لیے ظاہری اسباب کو ہی اختیار کرنا ہوتا ہے۔

لیکن یاد رکھیں اسباب و وسائل کو صرف ایک وسیلہ و ذریعہ ہی سمجھیں، اعتماد اور امید کا تعلق صرف مسبب الاسباب یعنی اللہ رب العزت کی ذات کے ساتھ ہی رکھیں۔ جو شخص امید بھی ظاہری اسباب اور حالات و واقعات سے وابستہ کرلیتا ہے، اس کے لیے سوائے مایوسی اور غم و حزن کے کچھ نہیں رہتا۔

مطلب آپ حالیہ مہنگائی، معاشی بحران اور اس میں بھی بالخصوص بجلی کے بلز کو لے لیں، تو اس میں ظاہری حالات کے تناظر میں آپ جس قدر سوچتے جائیں گے، مشکلات میں گِرتے جائیں گے، اس مصیبت اور مشکل سے چھٹکارے کا بظاہر کوئی حل نظر نہیں آتا… یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ خود کشی جیسے احمقانہ اقدام کو مسائل کا حل سمجھنے لگتے ہیں…!!

لیکن اگر اللہ کی ذات پر امید رکھیں، اور اس کی طرف رجوع اور انابت کریں، تو اللہ وہ ذات ہے، جو ناممکن کو ممکن اور مشکل کو آسان بناسکتی ہے۔
ہم ظاہری چيزوں کو دیکھیں تو ہم سے ایک میٹر ریڈر بھی سنبھالنا مشکل ہے، لیکن اللہ کی ذات سے امید وابستہ کرکے، اس کے سامنے روئیں، گڑگڑائیں، تو اس کے لیے دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت کو بھی راہ راست پر لانا بھی مشکل نہیں ہے۔

لہذا اس وقت اشد ضرورت ہے کہ ہم مہنگائی اور دیگر مشکلات سے نبرد آزما ہونے کے لیے ظاہری اسباب اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ تعلق باللہ پر توجہ دیں۔ اپنا محاسبہ کریں، اپنی کمیوں کوتاہیوں کی اللہ کے حضور معافی مانگیں، خود لوگوں کے ساتھ ظلم و زیادتی سے توبہ کریں، دوسروں کو ان کے حقوق دینے کا مزاج بنائیں، ایک دوسرے کو عزت و احترام دیں، اور اپنے ان نیک اعمال کو اللہ کے حضور وسیلہ کے طور پر پیش کرکے، آسانی کی اپیل کریں، تو یقینا اللہ تعالی اپنے بندے کا سب سے زیادہ قدر دان، اس پر رحیم و شفیق ہے۔

معاشرتی بحران کی ایک بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ محنت کرنے والے کم ہوجاتے ہیں اور ویلے بیٹھ کر کھانے والوں کی تعداد زیادہ ہوجاتی ہے۔ اپنی کوتاہیوں اور نا اہلیوں کو صحیح کرنے والے کم ہوتے ہیں، جبکہ اپنی اصلاح کی بجائے دوسروں کو الزام دینے والے اور اپنی ناکامیوں کا دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانے والے زیادہ ہوجاتے ہیں… یہ رویہ بہر صورت ہم میں سے ہر ایک میں کسی نہ کسی درجے میں موجود ہوتا ہے.. ہمیں کوشش کرکے، اس کی بھی اصلاح کرنی ہے۔ وہ قوم کبھی ترقی نہیں کرسکتی، جس میں ہر کوئی دوسرے کی اصلاح کرنا چاہتا ہو اور خود ٹس سے مس ہونے کو تیار نہ ہو..!

ہم سب حکمرانوں کو صحیح کرنا چاہتے ہیں، لیکن خود ہم نے کب صحیح ہونا ہے؟ بجلی کے بل کا ظلم تو حکومت کرتی ہے، لیکن ہمسائے کی تار میں کنڈی کون لگاتا ہے؟ کمپنی بروقت تنخواہ نہیں دیتی، یہ تو اس کا ظلم ہے، لیکن ملازم اگر توجہ سے کام نہیں کرتا تو اس کی اصلاح کس نے کرنی ہے؟ اپنے اوپر کے افسر کی زیادتی تو آپ محسوس کرتے ہیں، لیکن آپ کے ماتحتوں کے حقوق غصب کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟
احتجاج وغیرہ مسائل کا وقتی اور ایمرجنسی حل تو ہوسکتے ہیں، لیکن پائیدار حل اس سے مختلف ہے، جس پر بحثیت قوم ہم سب کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اللہ سے دعا کریں، اپنی شخصیت کو سنواریں، مسبب الاسباب سے تعلق مضبوط کرکے اسباب کے اختیار پر توجہ دیں، بجلی مہنگی ہے، تو اللہ تعالی اس بات پر قادر ہے کہ وہ آپ کو سولر عطا کردے، پیسے کی قیمت نہیں، تو اللہ تعالی آپ کو ڈالر دے دینے پر بھی قادر ہے۔ ان شاءاللہ۔

خلاصہ یہ ہے کہ واپڈا، عدلیہ، پولیس، فوج، حکمران، صدر، وزیر اعظم یہ سب چیزیں ایسی نہیں کہ ان سے حالات کے درستی کی امیدیں وابستہ کرلی جائیں اور پھر خود پر مایوسی کو سوار کرلیا جائے، بلکہ یہ سب ظاہری اسباب و وسائل ہیں، ان سب کے خالق و مالک مسبب الاسباب اللہ رب العالمین سے امیدوں کو وابستہ کریں، اس کو منانے کی کوشش کریں، اس کی نظروں میں مقام بنائیں، اس کے حضور شکوے کریں، منت و سماجت کریں، لجاجت بھری التجائیں کریں، وہ ان سب کو درست کرسکتا ہے، نہیں تو کم از کم آپ کو ان سب سے بے نیاز کرسکتا ہے۔!

اللہ تعالی ہم سب کے جمیع معاملات و مسائل کو حل فرمائے، ہماری آخرت و دنیا سب کو بہتر بنائے، ہمیں اپنے ساتھ تعلق و قربت کی لذت عطا فرمائے کہ جس کے سامنے تمام دنیاوی لذتین ہیچ ہیں۔ آمین یا رب العالمین۔

#خیال_خاطر