اشعار سمجھ آنا کوئی اچھّی بات نہیں ہے۔ اگر کوئی شعر سمجھ آنے کے بعد دل و دماغ پہ طاری ہو جائے تو جان لیوا نہ سہی، سکون لیوا ضرور ہوا کرتا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مدینہ طیّبہ میں احمد فراز کو پڑھتے ہوئے جب اس شعر پر پہنچا:

تو نے دیکھی ہی نہیں دشتِ وفا کی تصویر
نوکِ ہر خار پہ قطرۂ خوں ہے، یوں ہے

تو کئی روز بے چینی و بیقراری دامنگیر رہی۔ رہ رہ کر یہ شعر دماغ پر ہتھوڑے کی طرح برستا رہا اور خود کو سنبھالنے میں کئی دن لگ گئے. ایسے ہی ایک بار دورانِ مطالعہ حفیظ کا درج ذیل شعر تیرِ نِیم کش کی طرح جگر میں اٹک گیا اور کئی روز مزاج محبوب کی زلفِ برہم بنا رہا:

جو بات دل میں رہ گئی نِشتر بنی حفیظ
جو لب پہ آ گئی رسن و دار ہو گئی

کل صبح آٹھ بجے سے کچھ پہلے بھی یہی ہوا۔ نامور ادیبوں کے دلچسپ اور معلوماتی خاکوں پر مبنی” خط و خال ” نامی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے یہ شعر نظر سے گزرا اور طبیعت پہ یک لخت افسردگی طاری ہوگئی :

میں آج مر کے بھی بزمِ وفا میں زندہ ہوں
تلاش کر میری محفل مرا مزار نہ پوچھ

آہ فآہ ثم آہ…خوانندگانِ محترم اب آپ کو کیا بتاؤں کل صبح سے دلِ زار درد و الم اور حسرت و غم کی کن کن وادیوں میں سرگرداں اُن پیاری ہستیوں کی یاد میں آہ و زاری کر رہا ہے اور ان کے فراق میں کلیجہ شق ہوئے جاتا ہے جن کے دم  قدم دل کی دنیا آباد رہا کرتی تھی…کبھی سیدی و مرشدی شیخ الحدیث صوفی گلزار احمد صاحب رحمہ اللہ کا بارعب چہرہ نگاہوں کے سامنے آ جاتا ہے تو کہیں استاد محترم حافظ عبد الرحمٰن صاحب رحمہ اللہ (چھوٹی اناسی والے) ان کی دلآویز مسکان یاد آتی رہی۔ یکایک تصورات کی دنیا بدلتی ہے تو شیخ الحدیث مولانا محمد یونس بٹ صاحب رحمہ اللہ اور قاری نوید الحسن لکھوی صاحب رحمہ اللہ کے جملوں کی بازگشت دلِ وحشی پر چرکے لگا رہی ہے۔ کبھی ماموں جان ریاض بٹ صاحب رحمہ اللہ دکھائی دیتے ہیں تو کہیں ان کے پہلو بہ پہلو ماموں افضل بٹ صاحب کی یاد اداس کر رہی ہے…آہ…رضوان رفیق رحمہ اللہ کے ساتھ ویزے کے حصول کے لیے کھائے گئے دھکے اور
” وحدۃ ثالثہ” کے پرے کھیلی گئی کرکٹ کی یادیں بھی سوہان روح سے کم تو نہیں ہیں۔ ابھی تو عبد اللہ شہزاد حفظہ اللہ کا غم بھی ماتم کناں ہے۔ کتنے ہی بچپن کے یار بیلی ہیں جو سلامت نہ رہے ان کے لیے دعائے مغفرت کرکے دل کو سکون دینے کی ناکام کوشش کی۔ کبھی سوچتا ہوں الفاظ و حروف کا سہارا لے کر مذکورہ و غیر مذکورہ شخصیات پر” قلم کمان ” چلاؤں مگر سچ تو یہ ہے:

ہم آج بیٹھے ہیں ترتیب دینے دفتر کو
ورق جب اس کا اڑا لے گئی ہوا ایک ایک

 حافظ عبد العزيز آزاد