پچھلے دنوں ایک منفرد اور اچھوتی تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ لاریب کہ آئیڈیاز بھی خدا کی عظیم و عجیب عطا ہیں اور یہ تقریب ایسے ہی ایک ثمر بار خیال کی کیا دلکش تشکیل و تکمیل تھی۔ انجینئر عبدالقدوس اور محترمہ ام عبدالرب ،یہ دو نام ہمارے ایک عسکری تناظر کے پڑھے لکھے لوگوں کیلئے اجنبی نہیں۔ انھی کے صاحبزادے عبدالرب بھٹہ کے زرخیز ذہن سے اس خیال کی کونپل پھوٹی کہ کیوں نہ ایک ایسی تقریب منعقد کی جائے جس میں کوئی عام شخص شریک نہ ہو،بلکہ صرف وہ لوگ شریک ہوں جو کسی ادارے، کسی تنطیم ،کسی شعبے یا کسی ڈیپارٹمنٹ وغیرہ کے سربراہ ہوں۔ اپنا کوئی آئیڈیا یا وژن و مشن رکھتے ہوں۔

اس میں البتہ کوئی تخصیص نہیں کہ ادارہ کیسا اور کس شعبے سے متعلق ہو، بس کوئی شخص اپنے تئیں کہیں بھی کسی ویژن کے تحت کارزار حیات میں مصروف عمل ہونا چاہئے، وہ شخص یہاں شریک ہونے کا اہل قرار پا جاتا ہے، مقصد ان کا یہ کہ اس طرح کچھ موثر لوگوں کا باہم تعارف اور ربط و تعلق پیدا ہو جائے، جو آئندہ دونوں کے اور معاشرے کے م کام آئے۔ یہاں مختلف شعبوں کے وژنری لوگ ایک دوسرے کو جانیں اور خیر و خدمت خلق میں ایک دوسرے کے معاون ہو جائیں۔ حیرت کی بات یہ کہ اب تک کوئی ساٹھ سے زیادہ اداروں کو #menwithvision کی چھتری تلے جمع کیا جا چکا ہیں۔

لوگ یہاں جمع ہوتے ہیں اور بس ایک دوسرے سے متعارف ہوتے ہیں، نمبرز کا تبادلہ کرتے اور اپنے کام کا تعارف کرواتے ہیں۔ کھانا کھاتے ہیں اور دو تین گھنٹوں کے بعد رخصت ہو جاتے ہیں۔ کوئی پابندی نہیں ہوتی کہ کوئی کتنی دیر ٹھہرتا ہے، کب آتا یا کب جاتا ہے۔ یعنی دیا جل رہا ہے،جو جتنی چاہے روشنی دامن دل میں سمیٹ لے جائے۔ ان کا اپنا کوئی ایجنڈا نہیں۔ کوئی تقریر ،کوئی ترتیب کوئی پمفلٹ کوئی لٹریچر یہاں نہیں ہوتا۔ایک اعلان البتہ گاہ مائیک پر کر دیا جاتا ہے کہ کوشش کریں، جن سے واقفیت و تعارف نہیں، ان کے ساتھ بیٹھیں۔ کھانے کے علاوہ لوگ بیٹھتے ویسے میں نے کم ہی دیکھے۔ کھڑے کھڑے وہ کبھی اس سے اور کبھی اس سے بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔پھر آگے کسی اور کام کے اجنبی کو تعارف کی ریشمی ڈور سے باندھ کر رفیق و حبیب بنانے لگ جاتے ہیں۔
یہ اس سلسلے کا چھٹا پروگرام تھا، اس بار اس میں ندرت یہ پیدا کی گئی تھی کہ فیملیز کو بھی ساتھ آنے کی دعوت دی گئی تھی۔ چنانچہ بہت سے مین ود ویژن کندھوں سے اپنے ننھے منے پھول لٹکائے پھرتے تھے، جو پھول ذرا کھل چکے تھے ،وہ ساتھ لیے پھرتے تھے۔ یوں ایک اعتبار سے تو گویا گھر جیسا ہی ماحول تھا، مقام اس بار رائے ونڈ روڈ پر واقع سیور فوڈز کا ریستوران تھا۔پتہ چلا شروع میں سارے اخراجات میزبان خود ہی برداشت کرتے تھے،پھر لیکن خود شرکا نے اصرار کرکے مشہور ٹرم امیرکن سسٹم کے تحت اپنے اپنے مصارف ادا کرنے شروع کر دئیے۔ تاریخ و مقام کے اعلان کے ساتھ ہی مینیو کے حساب سے واٹس ایپ گروپ میں ایک اماونٹ اناؤنس کر دی جاتی ہے۔ جو ایک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کرکے شرکا شریک بزم ہو جاتے ہیں۔ پہلی دفعہ آنے والے کو مہمان تصور کرکے اسے چھوٹ دے دی جاتی ہے۔

پبلشر ،پروفیسر، میڈیا پرسنز ، مدارس کے مہتمم، علما تنظیمیوں سے وابستہ ۔۔ یہاں ہر طرح کی شخصیات موجود ہوتی ہیں۔ یہاں آپ کو وہ لوگ بھی مل جاتے ہیں،ویسے شائد آپ سے جن کی ملاقات ممکن نہیں ہوتی۔ خیر اس بار برادرم عاصم حفیظ صاحب کی ترغیب پر اور برادرم فخرالاسلام کی گاڑی کے ذریعے شرکت کرنے کا موقع ملا، چنانچہ منتظمین کے حسن انتظام اور خیال خوش اندام کی داد دی۔ اس موقعے پر بہت سے دیکھے اور ان دیکھے احباب سے خوب ملاقات رہی۔
زیر نظر تصویر اسی تقریب میں شرکت کے بعد بلوچ صاحب کی طرف سے پر اصرار کھلائی گئی آئسکریم کے موقع پر لی گئی۔

یوسف سراج