سوال

تقریبا چھ ماہ کا حمل ہے اور الٹراساؤنڈ کرنے کے بعد ڈاکٹرز حضرات کہتے ہیں کہ  اس بچے کے بازو اور ٹانگیں نہیں ہیں،  ذہنی توازن بھی درست نہیں لگ رہا۔  کیا اس وجہ سے بچے کو ضائع کرنا جائز ہے یا یہ بچوں کو قتل کرنے کے زمرے میں آئے گا؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

اس دنیا  میں کتنے بچے ہیں ، جن کے بازو، ٹانگیں نہیں ہیں، کتنے ہیں، جن کا ذہنی توازن خراب ہے، بے شمار اپاہج ، لاغر اور معذور  بچے اس دنیا  میں موجود ہیں، کیا ان کے والدین  ان کے علاج کے لیے ہر ممکنہ کوشش کرتے ہیں یا پھر انہیں قتل  کروا دیتے ہیں؟  بڑی سے بڑی بیماری بھی ہو، کبھی بھی  کسی نے اس کے سبب اپنے بچے کو موت کے گھاٹ نہیں اتارا!
صورتِ مسؤلہ میں بھی بچہ ماں کے پیٹ میں زندہ ہے، اس میں روح پھونک دی گئی ہے، کیونکہ اس کو پیٹ میں چھ ماہ  ہوچکے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

“إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا ثُمَّ يَكُونُ فِي ذَلِكَ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ يَكُونُ فِي ذَلِكَ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ يُرْسَلُ الْمَلَكُ فَيَنْفُخُ فِيهِ الرُّوحَ”. [صحيح مسلم:2643 ]

’تم میں سے ہر  شخص کا مادہ تخلیق چالیس دن تک اس کی ماں کے پیٹ میں اکٹھا کیا جاتا ہے، پھر وہ اتنی مدت کے لیے  منجمد خون کی شکل اختیار کرلیتا ہے، پھر اتنی ہی مدت کے لیے گوشت کے ایک لوتھڑے کی شکل میں رہتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ فرشتے کو بھیجتا ہے جو (پانچویں مہینے دماغ کی تخلیق ہو نے کے بعد) اس میں روح پھونک دیتاہے‘۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ 120 دن بعد یعنی پانچویں مہینے میں بچے میں روح پھونک دی جاتی ہے،  اور ایسے حمل کا اسقاط  ایک جان کے ضائع کرنے کی طرح ہے۔
عہدِ نبوت میں رسول اللہ سلم کے پاس ایک حاملہ عورت آئی جس پر حد جاری ہونا تھی، لیکن اس کے پیٹ میں موجود حمل کی خاطر اسے مؤخر کردیا گیا ہے،  جب بچہ پیدا ہو کر روٹی کھانا پینا شروع ہوگیا تو آپ  علیہ السلام نے وہ بچہ کسی کے حوالے کرکے اس  عورت پر حد جاری فرمائی۔ [صحيح مسلم:1695]
حالانکہ اگر حمل ضائع کرنے کی گنجائش ہوتی، تو اس عورت کی بدکاری کے سبب پیدا ہونے والے حمل کو ضائع کیا جاتا، بالخصوص اس لیے بھی کہ وہ ان کی بےعزتی اور ان کے لیے ایک بری نشانی ہو گی ! لیکن چونکہ یہ حرام کام ہے، اس لیے اس کی کوئی گنجائش نہیں، بلکہ یہ قتل کی خطرناک ترین صورت ’قتلِ عمد‘  ہے۔ قتل کے متعلق  ارشادِ باری تعالی ہے:

“مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا”.[المائدہ :32]

’جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وه کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کردیا‘۔
لہذا  الٹراساونڈ پر اعتماد کرنے کی بجائے اللہ کی رضا پر راضی رہتے ہوئے ،اس بچے کو دنیا میں آنے دیا جائے،  بسا اوقات ڈاکٹروں کی پیشن گوئی غلط بھی ثابت ہو جاتی ہے۔    اللہ  رب العالمین سے  دعا  کرتے رہیں کہ وہ   اپنی خاص مہربانی فرما بچے کو  بالکل صحیح سلامت کردے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ