میاں نزیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے نواب صدیق خان محدث بھوپالوی رحمہ اللہ کے ساتھ تعلقات

از محمد ابراہیم بن بشیر الحسینوی

اپنے دور کے عظیم قائدین ملت سلفیہ، دونوں کی تاریخ روشن، دونوں کے کارنامے حیران کن، دونوں کا تذکرہ خیراطراف عالم میں زبانوں پر جاری اور ساری ہے۔ ناچیز کو ان دونوں شخصیتوں سے ان کی بے مثال خدمت حدیث کی وجہ سے محبت ہے۔الحمدللہ۔ اسی محبت کا نتیجہ ہے کہ یہ سطور لکھنا اپنی سعادت سمجھ رہا ہوں۔

اس مختصر مضمون میں دونوں کے آپس میں کیاتعلقات تھے؟ اس بحث سے کئی ایک امور سمجھ میں آئیں گے ان شاء اللہ
دونوں تاریخ کے دو باب تھے، ایک تصنیف و تحقیق اور نشرو اشاعت میں تو دوسرا تدریس حدیث کے ذریعے محدثین، محققین، مدرسین اور مناظرین کو تیار کرنے میں۔

میاں صاحب کے ہاں نواب صاحب کا مقام و مرتبہ:
میاں صاحب لکھتے ہیں:’’بخدمت عالی جناب نواب صاحب مجمع فضائل و منبع فواضل جامع الحسنات والکمالات جناب نواب مولوی صدیق حسن خان صاحب سلمہ اللہ ذوالمنن عن الفتن والمحن‘‘(مکاتیب نزیریہ ص۵۸)
ایک مقام پر لکھتے ہیں:’’بخدمت فیض درجہ محب العلماء المجاہدین مخلص الطلباء المساکین حامی دین متین خاتم النبیین السخی و صاحب الخیرات مولانا و اولانا جناب سید محمد صدیق حسن خان صاحب جزاکم اللہ فی الدنیا والآخرۃ‘‘(مکاتیب نزیریہ ص۵۸)
ایک خط میں اس طرح مخاطب کرتے ہیںؒ’’مجمع الحسنات والکمالات مرجع افتادگان و دلداد گان ‘‘(مکاتیب نزیریہ ص۶۲)

دونوں کی آپس میں ملاقات:
دہلی میں ایک بار نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ پھاٹک حبش خان میں اپنے کسی محل میں وارد ہوئے۔میاں سید نزیر حسین محدث اعظم شیخ الکل فی الکل رحمہ اللہ کو خبر ہوئی کہ نواب صاحب یہاں بھوپال سے آکر وارد ہوئے ہیں۔ حضرت میاں صاحب نواب صاحب سے ملنے کے لیے ان کے محل پر تشریف لے گئے۔
محل کے دروازے پر ایک دربان بیٹھا ہوا تھا جو اوپر جانے سے میاں صاحب کو روک رہا تھا ،جیسا کہ نوابوں کی ڈیورھیوں او رمحل سرایوں کا قاعدہ ہوتا ہے کہ ان کے دروازوں پر دربان بیٹھتے ہیں اور کسی کو اندر بلا اجازت جانے نہیں دیتے۔ میاں صاحب نے دربان سے کہا: بھائی میں نزیر حسین ہوں اور نواب صاحب سے ملنے کے لیے حاضر ہوا ہوں ،اندر جا کر اجازت لے آؤ۔
میاں صاحب کی یہ آواز کوٹھے پر چلی گئی ،اس وقت نواب صاحب نائی کو بلا حجامت بنوا رہے تھے۔ جب یہ آواز سنی تونائی کو روک دیا اورجلدی جلدی سر پر پگڑی باندھ لی۔ فورا نیچے اتر آئے اور اپنی مسندِ خاص پر عزت سے بٹھایا اور کہا: مولانا آپ نے کیوں زحمت فرمائی، میں خود ہی حاضر ہونے والا تھا۔(دینی تعلیم و تربیت کے اصول و آداب از مولانا عبدالرؤف خان رحمانی جھنڈا نگری ط:دار ابی الطیب گوجرانوالا، ص۷۱)
میاں صاحب کی نواب صاحب کو قیمتی نصیحتیں:
جب بھوپال میں نواب صاحب کی حکومت خطرے میں تھی انہوں نے میاںصاحب کو خظ لکھ کر ساری صورت حال سے آگاہ کیا تو اس کے جواب میں میاں صاحب نے نواب صاحب درج ذیل نصیحتیں فرمائیں: ’’از عاجز محمدنزیر حسین۔ بخدمت گرامی نواب صاحب مددگار مساکین اللہ تعالی سلامت رکھے بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کے واضح ہو خط آپ کا ملا مضمون سے خط کے آگاہ ہوا اللہ تعالی آپ کے معاملات میں فضل فرمائے، توبہ و استغفار و رجوع باری سے غفلت نہ فرمائیں۔ روزانہ ایک منزل قرآن مجید و پارہ صحیح بخاری کا ضرور پڑھ لیا کریں ان شاء اللہ دشمن برباد ہوگا اور دشمنوں کی کثرت سے ہرگز خوف زدہ نہ ہونا چاہیے ان شاء اللہ تعالی جلد کامیاب ہونگے ،کیونکہ الفرج بعد الشدۃ سے آپ بخوبی آگاہ ہیں فقیر کو ہمیشہ اپنا بہی خواہ تصور فرمائیں مجھ کو خبر ملی ہے کہ تنزلی مراتب و مدارج کا آپ کے ہونے والا ہے اور اس بدلے میں ان شاء اللہ تعالی ترقی مراتب اخروی آپ کی قسمت میں ہو گی ،کیونکہ کتب اسلام کی اشاعت آپ کی ذات بابرکات سے وابستہ ہے والسلام خیر الختام‘‘(مکاتیب نزیریہ ص۸۸،۸۹)
مستحق افراد سے تعاون کی سفارش:
میاں صاحب درد دل رکھنے والے بالکل غریب انسان تھے، اللہ تعالی نے انہیں غریب شاگردوں اور غریب علماء کرام کا بڑا احساس دیا تھا، جب ان کو کسی کی غربت کی خبر ملتی تو فورا نواب صاحب ان کے ساتھ تعاون کرنے کا خط لکھتے۔ سبحان اللہ
مکاتیب نزیریہ میں اس انداز کے بہت سے خط موجود ہیں بطور نمونہ چند ایک پیش خدمت ہیں۔
بخدمت عالی جناب نواب صاحب مجمع فضائل و منبع فواضل جامع الحسنات والکمالات جناب نواب مولوی صدیق حسن خان صاحب سلمہ اللہ ذوالمنن عن الفتن والمحن بعد السلام علیکم واضح رائے خدام والا ہو کہ سابق ۱۳۰۱ ہجری میں گزارش کی تھی کہ حسبۃ للہ و شفقۃ علی خلق اللہ تعالی سرکار سے وظیفہ اہل خانہ جناب مولوی قاضی محمدبشیر الدین صاحب کا مقرر فرمایا جائے ،چنانچہ آپنے بمزید عنایت و مہر بانی مجھ کو تحریر فرمایا تھا (کہ مجھ کو پس ماندگان قاضی صاحب مرحوم کا خود بہت خیال ہے ہر امر وقت پر موقوف ہے آئندہ خیال رکھوں گا )پس گزارش یہ ہے کہ آپ نے جس قدر پسماندگان قاضی صاحب مرحوم کی پرورش فرمائی اس کے وہ لوگ شکر گزار ہیں اور یہ لوگ آپ کے خیرخواہ اور دعا گو ہیں جو کہ سرکار والا سے اکثر دعا گو یہ تنخواہ مناسب بلا اخذ خدمت و بلااستحقاق فیضیاب ہیں اسی طرح وظیفہ بقدر تیس روپے ماہواری زوجہ قاضی صاحب مرحو م و مغفور مقرر فرمایا جائے تو البتہ حیات مستعار بوجہ احسن بسر ہو گی اور آپ کے لیے اور سرکار کے حق میں دعا دیں گے مناسب کہ مقتضائے کریمانہ غور اور کوشش و سفارش دوبارہ تقرر وظیفہ سرکار سے فرمائیں آپ کو موجب و باعث اجر عظیم عنداللہ الکریم ہو گا قطع نظر اس کے وہ مستحق بھی معلوم ہوتی ہے کیونکہ اکثر ملازموں کے ساتھ رعایت بھی ہو جاتی ہے جیسا کہ اہلیہ مولوی عبدالباری مرحوم کے پندرہ روپے ماہوار مقرر ہوئے ہیں پس گزارش میری یہ ہے اور امید ہے کہ آپ ضرور خیال فرماکے بندو بست وظیفہ مناسب اہلیہ جناب مولوی صاحب مرحوم کا سرکار عالیہ سے یا اپنی ڈیوڑھی خاص سے فرمادیں گے اس کی پزیرائی میں رعایت خاص میرے حال پر ہو گی اور آپ کو اجر عظیم ہوگا اور مولوی شمس الدین سلمہ قرضداری آٹھ نو سو روپے کی وجہ سے نہایت زیر بار ہیں اس وجہ سے وہ تنخواہ مقرر اخراجات روز مرہ ان کے کافی نہیں ہوتے ہیں ۔فقط والسلام خیر الختام۔(مکاتیب نزیریہ ص۵۸)

منشی احمد حسن مقروض ہے اس کی مدد کریں:
میاں صاحب نواب صاحب کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ ’’‘‘باعث تصدیعہ دہی یہ ہے کہ حامل رقعہ ھذا منشی احمد حسن برادر زادہ مولوی محمد انصاری مہاجر مکہ معظمہ مرد صالح و دیندار و صحاب العیال و امانت دار ہیں بوجہ بیکاری و کثرت عیال داری مبلغ چارسو روپے کے مقروض ہیں اور کوئی صورت ادائے قرضہ و سبکدوشی بسبب نہ ہونے کسی قسم کی آمدنی کے معلوم نہیں ہوتی ہے سخت پریشان و حیران ہیں اور کسی سے سوال بھی نہیں کرتے ہیں شب و روز بباعث قرضہ بخوف الہی وہ نالاں و گریاں رہتے ہیں کیونکہقرض کا بہت بڑا وبال ہے اور سخت وعید ہے اس لیے میں سفارش کرتا ہوں کہ منشی احمد حسین مذکورہ مذکورہ کو زر قرضہ سے نجات و خلاصی دلا کے مجھ کو ممنون و مشکور فرمائے گا اور عنداللہ ماجور ہوجیے گا واحسنوا ان اللہ یحب المحسنین۔۔۔‘‘(مکاتیب نزیریہ ص۵۸)
نواب صاحب اپنی مطبوعہ کتب میاں صاحب کو پہنچاتے تھے:
نواب صاحب کی میاں صاحب کی طرف بھیجی ہوئی کتب جب موصول ہوئیں تو میاں صاحب ان الفاظ کے ساتھ جواب دیتے ہیں: ’’واضح رہے حالی ماہوار دو کتابیں دو ورقہ و چار ورقہ آئیں شائقین کو دی گئیں۔ اللہ تعالی اجر کامل آپ کو عطامرحمت فرمائے کہ اس ذریعہ سے اشاعت دین حق کی ہوتی ہے ‘‘(مکاتیب نزیریہ ص ۶۳)
نواب صاحب نے اتحاف النبلاء اورشرح الدرر البھیہ میاں صاحب کو بھیجیں:
میاں صاحب لکھتے ہیں: ’’خط آپ کا مع دس کتب مولفہ جناب معرفت حکیم صاحب کے وصول ہوا رسالوں کے مطالع سے و اتحاف النبلاء و شرح ددر بہیہ کے پڑھنے سے محظوظ بہت ہوا آپ کی باقیات صالحات سے عام و خاص لوگ فیض یاب ہو رہے ہیں اللہ تعالی دونوں جہانوں میں بہترین بدلہ عطاکرے۔ ‘‘(مکاتیب نزیریہ ص۲۶)

نواب صاحب سے اپنی کتاب نظر ثانی کروالیں:
میاں صاحب کی نظر میں نواب صاحب علمی ثقاہت کے درجے پر فائز تھے اس لیے ان کی کتب بھی شاگردوں میں تقسیم کرواتے اور اپنے شاگردوں سے بھی کہتے کہ اپنی کتب کی نظر ثانی نواب صاحب سے کرواؤ۔میاں صاحب اپنے شاگرد محمد سعید بنارسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ’’اگر آپ کو لکھنا ہی منظور ہے تو قبل طبع کے مجھ کو اور نواب صاحب سلمہ کو دکھا لیںاور میرے دیکھنے کے بعد طبع کرائیں تو مضائقہ نہ ہوگا ‘‘(مکاتیب نزیریہ ص ۷۶س)

احمدمکی کا قصور معاف کیجیے:
میاں صاحب نواب صاحب کو سفارش کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’احمد مکی سے جو خط سرزد ہوئی ہے وہ اللہ تعالی کے حسب فرمان:’’ والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس،واللہ یحب المحسنین‘‘کے بموجب معاف فرمائیں۔(مکاتیب نزیریہ ص ۱۵۴)
میاں صاحب ملاقات کی غرض سے نواب صاحب کے پاس بھوپال جانا چاہتے تھے:
میاں صاحب نے لکھا: ’’حج کے سفر فیض اثر سے واپس ہو کر امن و امان کے ساتھ بمبئی پہنچا۔خیال تھا کہ آنجناب مصدر خیرات و برکات کی ملاقات مسرت آیات سے مشرف ہو کر غریب خانہ جاؤں گا اتنے میں مولوی مولوی محمد بشیر صاحب کی دعوت بذریعہ تار موصول ہوئی میں نے فورا بھوپال پہنچنے کا تار دے دیا لیکن اچانک۔۔۔‘‘(مکاتیب نزیریہ ص۱۵۵)

میاں صاحب کے مدرسے کا وظیفہ ایک سو مقرر:
میاں صاحب نواب صاحب کی اہلیہ محترمہ شکریے کا خط لکھتے ہیں: ’’عاجز میاں صاحب بجنابہ فیض مابہ عالیہ متعالیہ نوابہ شاہ جہان شاہ جہاں بیگم صاحبہ فرمانروائے بھوپال دام اقبالھا و افضالھا ۔بعد ہدیہ مسنون سلام کے عرض پرداز ہے کہ اس عاجز کمترین خلائق کے لیے جنابہ عالیہ نے ایک سو روپے اپنی سرکار عالیجاہ سے مقرر فرمائے اور میری سفارش مدرسہ کے لیے قبول ہوئی شکریہ جناب کی اس عنایت عظمی کا مجھ سے ادا نہیں ہو سکتا اگرسو زبان سے بلکہ ہزار زبان سے بھی کروں ‘‘(مکاتیب نزیریہ ص۱۵۸)نواب صاحب کے وفات پا جانے کے بعد یہ وظیفہ میاں صاحب کے مدرسہ کے لیے مقرر ہوا۔
نیز دیکھیں (مکاتیب نزیریہ ص:۶۲۔۶۴،۶۵۔۶۶)

ہم انہیں معروضات پر اکتفا کرتے ہیں ورنہ لکھنے کو بہت کچھ باقی ہے۔ اس مختصر مضمون سے ثابت ہوا کہ ان دونوں بزرگوں کا کس طرح آپس میں گہرا تعلق تھا اور دونوں بیٹھے الگ الگ ہیں لیکن ہر ہر بات میں مشاورت ہورہی ہے ۔ایسی مثال اب دور دور تک نہیں ملتی بس اللہ تعالی ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ آمین

یہ بھی پڑھیں:علم کے مختلف مراتب و درجات!