مرزا غلام قادیانی اپنی سیرت و کردار کے آئینے میں

( 26مئی آنجہانی مرزا غلام قادیانی اپنی منہ مانگی موت کے نتیجے میں دنیا سے گیا۔اسکی زندگی ایک نظر میں پڑھنے کیلئے توجہ فرمائیں۔ چند اقساط میں )
انبیائے کرام کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انبیائے کرام اپنی سیرت و کردار اور اخلاق کے لحاظ سے دیگر لوگوں سے ممتاز اور بہترین نمونہ ہوتے ہیں
* دوسرے لوگوں کے لیے روشنی کا مینار ہوتے ہیں
* انبیاء کرام حسن کے لحاظ سے اپنی قوم میں ممتاز
* جسمانی قوت و صحت کے لحاظ سے ممتاز
* عقل و دانش اور فہم و فراست کے لحاظ سے ممتاز
* عفت و پاکدامنی، جرأت و ہمت، سخاوت اور فیاضی میں ممتاز ہوتے ہیں
جبکہ اگر مرزا غلام قادیانی جو بزعم خود نبی ہونے کا دعویدار تھا اس کی سیرت و کردار کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کسی اعلیٰ منصب کے اہل ہونا تو کجا عام سنجیدہ اورشریف آدمی کہلانے کا بھی مستحق نہ تھا
نہایت اختصار کے ساتھ مرزا کا تعارف اسی کی کتابوں سے باحوالہ بیان کرکے فیصلہ قارئین پر چھوڑتا ہوں۔

میرے دل کو دیکھ کر میری وفا کو دیکھ کر
بندہ پرور منصفی کرنا خدا کو دیکھ کر

مرزا قادیانی کا نام و نسب:

مرزا قادیانی خود اپنا تعارف کرواتے ہوئے لکھتا ہے۔
اب میرے سوانح اس طرح پر ہیں
نام غلام احمد،
میرے والد کا نام غلام مرتضیٰ ،
دادا کا نام عطا محمد تھا۔ (خزائن ج ۲۲ ص ۱۳۷)
اپنی قوم کے بارے میں لکھتا ہے کہ ہماری قوم مغل برلاس ہے۔
مرزا صاحب نے ایک اور پینترا بدلا اور خود کو چینی النسل ثابت کرنے لگے۔ اپنی کتاب’’ تحفہ گولڑویہ‘‘ میں لکھا:
میرے بزرگ چینی حدود سے پنجاب میں پہنچے ہیں۔‘‘
مرزا غلام احمد قادیانی، تحفہ گولڑویہ:41؛ مندرجہ روحانی خزائن، 17: 127
بعض احادیثِ مبارکہ میں حضور ﷺ نے فارس کا تذکرہ فرمایا اور محدثین کے نزدیک اس سے مراد حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ان کے حق کی تلاش میں ایک طویل سفر اور طویل جستجو کی تعریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعریفی کلمات ارشاد فرمائے تھے
صحیح بخاری (4: 1858، رقم: 4615)‘ میں بروایتِ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس طرح آئی ہے:

وضع رسول اللہ ﷺ یدہ علی سلمان، ثم قال: لو کان الإیمان عند الثریا لنالہ رجال أو رجل من ھؤلاء۔صحیح مسلم (4: 1972، رقم: 2546)

میں درج ذیل الفاظ مذکور ہیں:

لو کان الدین عند الثریا لذھب بہ رجل من فارس أو قال من أبناء فارس حتی یتناولہ۔

احادیثِ نبوی ﷺ کی ان نصوص کو پڑھتے ہی مرزا کو جانے کیا سوجھی کہ انہوں نے خود کو ان کا مصداق سمجھنا شروع کر دیا اور کچھ عبارتیں اپنے پاس سے گھڑ کر انہیں اپنے بارے میں الہام بنا کر اپنے آباء و اجداد کو فارسی الاصل قرار دینے کی کوشش کی۔ چنانچہ مذکورہ کتاب کے حاشیے میں لکھتے ہیں:

دوسرا الہام میری نسبت یہ ہے:

لَوْ کَانَ الايْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَيَّا لَیَنَالُهُ رَجُلٌ مِنْ فَارَس۔

یعنی اگر ایمان ثریا سے معلّق ہوتا تو یہ مرد جو فارسی الاصل ہے وہیں جاکر اس کو لے لیتا۔
اور پھر تیسرا الہام میری نسبت یہ ہے: إن الذین کفروا رد علیھم رجل من فارس شکر اللہ سعیہ۔ یعنی جو لوگ کافر ہوئے اس مرد نے جو فارسی الاصل ہے ان کے مذاہب کو رد کر دیا۔ خدا اس کی کوشش کا شکر گزار ہے۔ یہ تمام الہامات ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارے آباء اوّلین فارسی تھے۔‘‘
اس کے بعد مغلیہ خاندان کے فتوحات اور شان و شوکت کا سن کر اپنے اس خلافِ حقیقت بیان کی خود ہی ایک جگہ نفی کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’یاد رہے کہ اس خاکسار کا خاندان بظاہر مغلیہ خاندان ہے کوئی تذکرہ ہمارے خاندان کی تاریخ میں یہ نہیں دیکھا گیا کہ وہ بنی فارس کا خاندان تھا،
* ہاں بعض کاغذات میں یہ دیکھا گیا کہ:
“ہماری بعض دادیاں شریف اور مشہور سادات میں سے تھیں،”
اب خدا کے کلام سے معلوم ہوا کہ در اصل ہمارا خاندان فارسی خاندان ہے، سو اس پر ہم پورے یقین سے ایمان لاتے ہیں کیونکہ خاندانوں کی حقیقت جیسا کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کسی دوسرے کو ہر گز معلوم نہیں، اسی کا علم صحیح اور یقینی اور دوسرے کا شکی اور ظنی۔‘‘
غلام احمد قادیانی، اربعین،حاشیہ: 23؛ مندرجہ روحانی خزائن، 17: 365
مختلف نسلیں تبدیل کرنے کے بعد وہ ایسی لفظی قلابازی کھاتے ہیں کہ عقل حیران اور ناطقہ سربہ گر یبان ہونے لگتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
میں کبھی آدم، کبھی موسیٰ، کبھی یعقوب ہوں
نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار”
اپنی تاریخ پیدائش کے بارے میں لکھتا ہے کہ میری پیدائش ۱۸۳۹ یا ۱۸٤۰ میں سکھوں کے آخری وقت میں ہوئی اور میں ۱۸۵۷ میں سولہ یا سترہ برس کا تھا
(خزائن ج ۱۳ ص ۱۷۷)

پیدائش کی کیفیت:

مرزا قادیانی نے اپنی پیدائش کی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے جہاں اپنی غیرت کی دھجیاں بکھیری ہیں وہاں اپنی ماں کی عصمت کی چادر کو بھی تار تار کیا ہے ملاحظہ فرمائیں:
“میں اور میری بہن رحمت جڑواں پیدا ہوئے پہلے لڑکی پیٹ سے نکلی اور اسکے بعد میں نکلا تھا اور میرا سر اُس کے پاؤں میں پھنسا ہوا تھا”۔ (خزائن ج ۱۵ ص )

قسط نمبر: 2…. مرزا قادیانی کے فرشتے

ابوالبشر سیدنا حضرت آدم علیہ السلام سے سیدالبشر سیدنا حضرت محمد مصطفی ﷺ تک سبھی انبیاء کرام علیھم السلام پر وحی لانے کا فریضہ انجام دینے والے ’’فرشتے‘‘ ہیں اسی لئے نبوت کے جتنے جھوٹے دعویدار ہوئے ہیں ان سب نے بھی یہی دعوی کیا ہے کہ ہماری طرف بھی فرشتے ہی وحی لاتے ہیں۔ مرزا قادیانی نے بھی یہی دعویٰ کیا کہ مجھ پر فرشتوں کے ذریعے وحی آتی ہے لیکن مرزا قادیانی پر وحی لانے والے فرشتے سب سے جدا ہیں ان میں سے چند کی فہرست مندرجہ ذیل ہے پڑھئے اور سر دھنئے۔
* ٹیچی ٹیچی فرشتہ:
۵ مارچ ۱۹۰۵ کو خواب میں ایک فرشتہ دیکھا جس نے اپنا نام ٹیچی ٹیچی بتایا (خزائن جلد 22 ص 346)
* درشنی فرشتہ:
ایک فرشتہ میں نے بیس برس کے نوجوان کی شکل میں دیکھا صورت اس کی مثل انگریزوں کی تھی اورمیز کرسی لگائے ہوئے بیٹھا تھا میں نے اس سے کہا آپ بہت ہی خوب صورت ہیں اس نے کہا ہاں میں درشنی ہوں۔ (ملفوظات ج 4ص 69 )
* خیراتی فرشتہ:
تین فرشتے آسمان سے آئے ایک کا نام خیراتی تھا
(تذکرہ ص 23 طبع چہارم)
* مٹھن لال فرشتہ:
ایک شخص خواب میں مٹھن لال نامی دیکھا گیا ہے مٹھن لال سے مراد ایک فرشتہ ہے۔
(تذکرہ ص 474 طبع چہارم)
* اب مختلف اوقات میں جو الہام ہوئے وہ بھی دیکھنے سننے کے لائق ہیں:
پنجابی میں: الہام ہوا۔ پٹی پُٹی گئی
(تذکرہ ص ٤٨١ طبع چہارم)
واﷲ واﷲ! سیدھا ہویا اولَّا۔
(تذکرہ ص 631 طبع چہارم)
فارسی میں: الہام ہوا سلامت بر تو اے مرد سلامت (تذکرہ ص ۶۳۸ طبع چہارم)
ہندی میں: الہام ہوا ہے کرشن جی رودزگوپال (اخبار البدر۲۹اکتوبر ۱۹۰۳)
انگریزی میں: الہام ہوا I Love you, I am with you
(تذکرہ ص ۹۲ طبع چہارم)
* انگریز کا وفادار خاندان:
مرزا قادیانی نے اپنا اور اپنے خاندان کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ “میں ایسے خاندان سے ہوں جو اس گورنمنٹ کا پکا خیر خواہ ہے۔ میرا والد مرزا غلام مرتضیٰ گورنمنٹ کی نظر میں ایک وفادار اور خیرخواہ آدمی تھاجن کو دربار گورنری میں کرسی ملتی تھی اور جن کا ذکر مسٹر گریفن صاحب کی تاریخ رئیسان پنجاب میں ہے اور ۱۸۵۷ء میں انھوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر سرکار انگریزی کو مدد دی تھی۔ یعنی پچاس سوار اور گھوڑے بہم پہنچا کر عین زمانہ غدر (جنگ آزادی) کے وقت سرکار انگریزی کی امداد (مسلمانوں کی مخالفت) میں دیئے تھے
(کتاب البریہ ص ٤ تا ۸، مندرجہ روحانی خزائن، ج ۱۳)
* مرزا کے مختلف اوقات میں کئے گئے دعوے:

خدائی دعویٰ

”رایتنی فی المنام عین اللہ و تیقنت اننی ھو” (آئینہ کمالات اسلام، ص ٥٦٤/ از مرزا)
“میں نے نیند میں خود کو ہو بہو اللہ دیکھا اور مجھے یقین ہوگیا کہ میں وہی اللہ ہوں”

خدا کا بیٹا ہونے کا دعویٰ

مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ اس سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”انت بمنزلۃ ولدی” (حقیقۃ الوحی، ص ٨٦)
” تم میرے بیٹے کی جگہ ہو”

عیسیٰ ابن مریم ہونے کا دعویٰ

“جعلنٰک المسیح ابن مریم” ہم نے تجھے مسیح ابن مریم بنایا۔ (تذکرہ ص185،روحانی خزائن ص442جلد3)

محمد ہونے کا دعویٰ

خدا نے مجھ پر اس رسول کا فیض اتارا اور اس کو پورا کیا اور مکمل کیا اور میری طرف اس رسول کا لطف اور جود بھرا، یہاں تک کہ میرا وجود اس کا وجود ہوگیا (خطبہ الہامات، ص ١٧١)

احمد ہونے کا دعویٰ

آیت کریمہ ” و مبشرا برسول یأتی من بعدی اسمہ احمد ” میں لفظ ”احمد” سے متعلق دعویٰ کیا کہ وہ احمد میں ہی ہوں (ایضاً ص ٦٧٣)

مجدد ہونے کا دعویٰ

اس عاجز کو دعوائے مجدد ہونے پر اب بفضلہ تعالیٰ گیارہواں برس جاتا ہے (نشان آسمانی، ص ٣٤)

محدث ہونے کا دعویٰ

میں محدث ہوں (حمامۃ البشریٰ ص ٧٩)

مہدی ہونے کا دعویٰ

میں مہدی ہوں (معیار الاجتہاد، ص ١١)

میں خاتم الاولیاء ہوں:

بقول مرزا قادیانی اسے الہام ہوا ’’وانا خاتم الاولیا‘ ‘میں خاتم الاولیاء ہوں۔ (روحانی خزائن ج ۱۶ ص ۷۰)

میں مجدد، مہدی، مسیح ہوں:

میں وہ مجدد ہوں کہ جو خدا تعالیٰ کے حکم سے آیا ہے اور بندہ مدد یافتہ ہوں وہ مہدی ہوں جس کاآنا مقرر ہو چکا اور وہ مسیح ہوں جس کے آنے کا وعدہ تھا۔
(روحانی خزائن ج ١٤ ص ۵١)

* قارئین کرام ! یہ ہے مرزا غلام قادیانی کے چند دعوؤں کی سرسری فہرست کیا کوئی انسان بقائمی ہوش و حواس اور بشرطِ عقل وخرد مرزا قادیانی کو مجدد ، مسیح ،ولی، یا نبی تو درکنار اسے صحیح الدماغ انسان متصور کرسکتا ہے؟ اور اسکی پیروی کو باعث نجات تصور کرسکتا ہے؟؟؟
(جاری ہے)

(گزشتہ سے پیوستہ ۔۔۔ قسط نمبر:3)

قارئین کرام کے لئے یہ بات یقینا حیران کن ہوگی کہ کوئی عقلِ سلیم کا حامل، صحت مند شخص اس طرح کی باتیں کیسے کر سکتا ہے۔
* کبھی خدا بن بیٹھے کبھی خدا کا بیٹا۔
* کبھی خدا کی بیوی کبھی مریم کبھی عیسیٰ۔
* کبھی آدم کبھی محمد کبھی احمد۔
* کبھی مجدد کبھی محدث کبھی مہدی۔
* کبھی مرد کبھی عورت۔
* کبھی ٹیچی ٹیچی فرشتہ I Love you کہتا ہے۔
* کبھی کوئی درشنی فرشتہ انگریز افسر کی شکل میں آتا ہے۔
* کبھی مٹھن لال فرشتہ الہام لے کر آتا ہے۔
* کبھی الہام ہوتا ہے “پَٹی پُٹّی گئی”

*دراصل یہ سب مرزا قادیانی کو لاحق بڑی بیماریوں مراق اور ہسٹیریاکی وجہ سے تھا۔
⁦*⁩اگر مرض مراق کی طبی تشریح کا مطالعہ کریں تو خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ یہ ایک دماغی مرض ہے جو خلط سودا میں احتراق یا تعفّن کی وجہ سے تغیر پیدا ہو جاتا ہے جو مالیخولیا اور جنون کا سبب بنتا ہے ایسے مریض کو اپنے آپ پر قابو نہیں رہتا
وہ مختلف قسم کے دعوے کرتا ہے کبھی اپنے آپ کو بہت اعلی مخلوق سمجھنے لگتا ہے کبھی بالکل گھٹیا۔

قادیانی اخبار “ریویو آف ریلیجنز” میں راوی لکھتا ہے:

کہ حضرت اقدس (مرزا) نے فرمایا کہ مجھے مراق کی بیماری ہے (ریویو اپریل1925 صفحہ 45)
سیرت المہدی کا مصنف لکھتا ہے ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے کئی دفعہ حضرت مسیح موعود سے سنا ہے کہ مجھے ہسٹیریا ہے بعض اوقات مراق بھی فرمایا کرتے تھے۔
( سیرت المہدی جلد دوم صفحہ 55از مرزا بشیر احمد ایم اے)
اب ہم طبی ماہرین سے پوچھتے ہیں کے ہسٹریا اور مراق کیا ہوتا ہے اور مریض پر اس کے کس قسم کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
مراق کے بارے میں اطباء کی بہت سی آراء ہیں لیکن یہاں پر قادیانیوں کی راۓ کا پہلے ذکر کر دینا زیادہ مناسب ہے کہ خود ان کا مراق کے بارے میں نظریہ کیا ہے؟
مرزا کا پہلا “خلیفہ”حکیم نور الدین اپنی مشہور طبی تصنیف بیاض نور الدین میں لکھتا ہے :
مالیخولیا ( مراق ) کا مریض خیال کرتا ہے میں بادشاہ ہوں یا پیغمبر” (بیاض نور الدین صفحہ ۲۱۲)
حک‍ی‍م نفيس بن عوض بن نفيس کرمانى (812-890ھ) کی مشہور زمانہ کتاب شرح اسباب و علامات جو کہ طبیہ کالجز کے نصاب میں شامل ہے اس میں لکھا ہے :
“کبھی فساد اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ مریض گمان کرتا ہے کہ وہ فرشتہ هے اور یہ بھی گمان کرتا ہے وہ خدا ہے”
( شرح اسباب و علامات٬ جلد ۱ صفحہ ۷۰ ٬ از حکیم نفیس بن عوض)
ناظمِ جہاں حکیم محمد اعظم خان(١٨١٣ء—١٩٠٢ء)
لکھتے ہیں:
“اگر مریض دانشمند ہو تو پیغمبری اور معجزات و کرامات کا دعویٰ کرتا ہے۔ خدائی باتیں کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تبلیغ کرتا ہے۔‘‘
(حکیم محمد اعظم خان، اکسیر اعظم: 190، مطبع لکھنو، طبع چہارم )
ڈاکٹر فضل کریم، کتاب تشخیص امراض جلد 2:
صفحہ 21 پر مراق کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
خیالات خام ہوجاتے ہیں، کوئی اپنے آپ کو بادشاہ، جرنیل قرار دیتا ہے۔ بعض پیغمبری کا دعویٰ کرتے اور اپنے اتفاقیہ صحیح واقعات کو معجزات قرار دیتے ہیں”
گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے

ڈاکٹر شاہنواز قادیانی کی رائے:

ایک مدعی الہام کے متعلق اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس کو ہسٹریا، مالیخولیا، مرگی کا مرض تھا تو اس کے دعوے کی تردید کے لیے پھر کسی اور ضرب کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ یہ ایسی چوٹ ہے جو اس کی صداقت کی عمارت کو بیخ و بن سے اکھاڑ دیتی ہے۔‘‘
مضمون ڈاکٹر شاہ نواز قادیانی، مندرجہ رسالہ ’’ریویو آف ریلیجز‘‘ قادیان: 6، 7، بابت ماہ اگست 1926ء
قارئین کرام ان حوالہ جات کے بعد ان لوگوں کی ذہنی حالت پر ترس آتا ہے جو ایسے مخبوط الحواس اور فاتر العقل دائمی مریض شخص کے بلند بانگ دعووں کو سچا سمجھ کر اس کی پیروی کرنے کو باعث نجات سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)

مرزا غلام قادیانی۔۔۔اپنی سیرت و کردار کے آئینے میں
(گزشتہ سے پیوستہ ۔۔۔ قسط نمبر 4)

⁩قارئین کرام: مرزا قادیانی چونکہ مدعئ نبوت تھا اس لیے اس نے اسی زعم میں مبتلا ہو کر مخالفین کو مباہلے کے چیلنج کرنا شروع کر دیے۔ اور26مئی 1908ء کو انہی مباھلوں کے نتیجے میں منہ مانگی موت کا شکار ہو کر خائب وخاسر ہوکر کر دنیا سے کوچ کر گیا۔
قرآن پاک میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نجران کے عیسائیوں کے مباہلے کا ذکر موجود ہے

فَمَنْ حَآجَّكَ فِيْهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَاَبْنَآءَكُمْ وَنِسَآءَنَا وَنِسَآءَكُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَكُمْۖ ثُـمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّـٰهِ عَلَى الْكَاذِبِيْنَ۔(سورۃ آل عمران61)

پھر جو کوئی تجھ سے اس واقعہ میں جھگڑے بعد اس کے کہ تیرے پاس صحیح علم آچکا ہے تو کہہ دے کہ آؤ ہم اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں بلائیں، پھر سب التجا کریں اور اللہ کی لعنت ڈالیں ان پر جو جھوٹے ہوں۔
مگر وہ عیسائی سمجھدار نکلے اور انہوں نے مباہلہ کرنے سے اعراض کیا۔اور ایک نے دوسرے سے کہا: “اگر یہ نبی ہوا اورہم نے مباھلہ کیا تو پھر نہ ہماری خیر ہوگی نہ ہماری اولاد کی”پھر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا :”جو جزیہ آپ مانگتے ہیں ۔ وہ ہم دیں گے.
یہ پڑھ سن کر مرزا کو بھی مباہلہ کی سوجھی۔
پہلا بالمشافہ مباہلہ (بلکہ مرزا کا یوں آمنے سامنے مباھلہ صرف ایک ہی ہوا ہے) اہلحدیث عالم مولانا عبدالحق غزنوی رحمہ اللّٰہ کے ساتھ ہوا جس کا موضوع:
1: مرزا کی آسمانی منکوحہ محمدی بیگم (جو مرزا کو مل نہ سکی اور ساری پیش گوئیاں جھوٹی ثابت ہوئیں) کے خاوند کی وفات۔۔۔
2: اور دوسرا عیسائی مناظر ڈپٹی آتھم کی وفات تھا۔
اس مباھلہ کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:
“مولانا صوفی عبدالحق صاحب غزنوی رحمہ اللہ: علامہ موصوف ایک بلند پایہ اھلحدیث عالم دین تھے۔ امرتسر کے مشہو ر خاندان غزنوی کے چشم وچراغ تھے آپ نے تحفظ ختم نبوت میں بڑا نمایاں کردار اداکیا ، امرتسر میں ١٨٩٣ھ میں آپ نے قادیانیوں پر مباھلہ کا چیلنج قبول فرمایا اور آپ رحمہ اللہ کے الفاظ کچھ یوں تھے:
“مقام عید گاہ امرتسر میں مباھلہ اس طریق پر بدیں الفاظ میں ہوگا ۔ میں یعنی عبدالحق تین بار بآواز بلند کہوں گا یا اللہ میں مرزا کو ضال ، مضل ،ملحد، دجال کذاب ، مفتری،محرف کلام اللہ واحادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سمجھتا ہوں ۔اگر میں اس بات میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر لعنت کر جو کسی کافر پر تونے آج تک نہ کی ہو”
”مرزا تین بار بآواز بلند کہے یااللہ میں ضال، مضل، ملحد، دجال ، ومفتری ومحرف کتاب اللہ واحادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں تو مجھ پر وہ لعنت کر جو کسی کافر پر آج تک تو نے نہ کی ہو۔
حاضرین میں سب نے آمین کہی اور دعا بھی کی گئی۔
اس اشتہار کے مطابق جون 1893ء عید گاہ امرتسر میں مباھلہ ہوا اور دونوں فریق امن وامان کے ساتھ واپس آگئے ۔

مباھلہ کا نتیجہ:

اس مباھلہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے ایک سال دوماہ بعد مرزا کی منکوحہ محمدی بیگم کے شوہر کے انتقال کی آخری تاریخ مرزا کی پیشن گوئی کے مطابق آگئی لیکن وہ نہ مرا اور نہ ہی ڈپٹی عبداللّٰہ آتھم مرا کیوں کہ اس کی بھی پیشن گوئی کی تاریخ آگئی اس طرح دونوں معاملے میں مرزا کو زبردست رسوائی او ذلت کا سامنا ہوا۔۔۔۔۔
آخر نتیجہ یہ ہوا کہ مرزا اپنے مباھل صوفی عبدالحق غزنوی کی موجودگی میں (1908ء) انتقال کرگئے………. اور اس کے برعکس عبدالحق صاحب مرزا کے مرنے کے بعد پورے نو برس تک زندہ رہے ۔
(دیکھئے:قادیانیت اپنے آئینے میں ص255)
نوٹ:(مولانا عبدالحق غزنوی رح نے مرزا کے ٹھیک 9سال بعد 25 مئی 1917ء کو وفات پائی۔۔۔)

 تحریر: عبدالرحمٰن سعیدی

یہ بھی پڑھیں: بزرگوں سے ملاقات کچھ باتیں،کچھ یادیں