سوال (163)
علماء کرام! مشکوۃ المصابیح میں بار بار حوالہ ذکر کیا جاتا ہے “رواہ رزین” اس کے بارے میں وضاحت فرما دیں ؟
جواب:
اس کتاب کا مؤلف ابو الحسن رزین بن معاویہ بن عمار عبدری ہیں ۔ اَحادیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مقام پر یکجا کرنے کی غرض سے ایک اہم کاوش امام رزین کی ہے۔ ابوالحسن رزین بن معاویہ عبدری نے کتبِ ستہ صحیح بخاری ، صحیح مسلم ، سنن ابی داود ، جامع ترمذی ، سنن نسائی اور موطا امام مالک کو جمع کیا اور اختصار کی غرض سے مکرر احادیث کو حذف کردیا، اُنہیں صحیح بخاری کی طرز پر فقہی ابواب میں ترتیب دیا اور احادیث نبویہ ؐ مع اسناد ذکر کی ہیں ۔
کتاب ِرزین میں خامیاں:
امام رزین نے اپنی اس کتاب کو جدید اورمفید ترتیب پر مرتب کیا اور متونِ حدیث کے اہم مآخذ کو ایک کتاب کی شکل میں ترتیب دیا جس میں شائقین علوم حدیث کے لیے ایک کتاب میں جمع شدہ احادیث سےاستفادہ کرنا نہایت آسان تھا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ کتاب رزین میں کئی نقائص تھے جن کا اِزالہ بڑا ضروری تھا ۔
1. احادیث کے اختصار کے باوجود مکرر احادیث کافی تھیں، دوسرے لفظوں میں امام رزین کتب ِستہ سے کلی تکرار ختم نہ کرپائے۔
2. کتبِ ستہ سے کئی اصل متون چھوٹ گئے تھے۔
3. احادیث کو فقہی ترتیب پر جمع کیا گیا تھا، لیکن بعض احادیث کو ان کے متعلقہ تراجم کے بجائے غیر متعلقہ تراجم میں داخل کیا گیا تھا جن کا ترجمۃ الباب سے کوئی تعلق نہ تھا۔
4. احادیث کی تبویب صحیح بخاری کے ابواب کے مطابق تھی لیکن بعض ابواب حذف کردیئے گئے تھے۔
ان نقائص اور خامیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے حافظ ابن اثیر رحمہ اللہ نے اس کتاب کی تذہیب وتسہیل اور تہذیب کا ارادہ کیا اور کتابِ رزین کی تہذیب کو جامع الأصول سے موسوم کیا تھا۔
ناقل : فضیلۃ العالم عبد العزیز آزاد حفظہ اللہ
اس سوال کے جواب ہمارے شیخ حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ کا ایک مضمون ذکر کیا جاتا ہے ۔
” حافظ رزین بن معاویہ رحمہ اللہ اور ان کی کتاب”
حافظ رزین بن معاویہ بن عمار الاندلسی العبدری السرقسطی رحمہ اللہ کا تعلق اندلس کے علاقے سرقسطہ سے تھا ، آپ حدیث و فقہ مالکی کے امام تھے ، مکہ میں ایک عرصہ قیام پذیر رہے اور حدیث کی تدریس کرتے رہے اور مکہ میں ہی آپ کی وفات ٥٣٥ ہجری میں ہوئی.
حافظ ذہبی رحمہ اللہ ( ٧٤٨ھ) فرماتے ہیں :
رَزِينُ بنُ مُعَاوِيَةَ بنِ عَمَّارٍ أَبُو الحَسَنِ العَبْدَرِيُّ الإِمَامُ، المُحَدِّثُ الشَّهِيرُ، أَبُو الحَسَن العَبْدَرِيُّ، الأَنْدَلُسِيُّ السَّرَقُسْطِيُّ، صَاحِبُ كِتَابِ تَحْرِيدِ الصَّحَاحِ.
“امام ، مشہور محدث ، ابو الحسن رزین بن معاویہ العبدری السرقسطی ، آپ تجرید الصحاح کے مصنف ہیں”. [سیر أعلام النبلاء : ٢٠/ ٢٤٩-٢٥٠]
اسی طرح ایک جگہ امام کبیر اور محدث کہا ہے. [سیر أعلام النبلاء : ٨٦/٢٠]
حافظ ابن بشکوال رحمہ اللہ (۵۷۸ھ) فرماتے ہیں :
كَانَ رَجُلًا فَاضِلًا عَالِمًا بِالْحَدِيثِ وَغَيْرِهِ، وَلَهُ فِيهِ تَوَالِيفُ حَسَانٌ.
“آپ فاضل شخصیت اور حدیث کے عالم تھے ، اور اس باب میں ان کی عمدہ تصانیف ہیں.”
حافظ ابو طاہر السلفی رحمہ اللہ (۵۷۶ھ) فرماتے ہیں :
شَيخ عَالِمٌ. [الوجيز في ذكر المجاز والمجيز : ١/ ١١٤]
حافظ ابن نقطہ رحمہ اللہ (۷۲۹ھ) فرماتے ہیں:
وَكَانَ إِمَامَ الْمَالِكِيَّة بِمَكَّة.
[کتاب الصلۂ : ١٥٨]
آپ مکہ میں مالکیہ کے امام تھے ۔ ” [إكمال الإكمال : ٢٣٥/٤]
حافظ ابو موسی محمد بن عمر الاصبہانی المدینی رحمہ اللہ (۵۸۱ھ) فرماتے ہیں :
كَانَ لَهُ معرفَةٌ بِالْحَدِيثِ وَالرِّجَال وَالْفِقْه
آپ حدیث و فقہ اور علم رجال کے عالم تھے.”
[معجم شيوخه ، نقل عنه ابن نقطه في إكمال الإكمال : ٢٣٥/٤]
علامہ عبد الکریم السمعانی رحمہ اللہ ( ۵۶۲ھ) فرماتے ہیں:
فَقِيَّةٌ فَاضِلٌ مِنْ أَصْحَابِ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ مِنْ أَهْلِ سَرْقُسْطَةٌ.
سرقسطہ کے فقہاء مالکیہ میں سے فاضل فقیہ تھے. ”
[التعمير في المعجم الكبير : ٢٨٦/١]
آپ رحمہ اللہ کی کئی ایک مصنفات میں سے تجرید الصحاح الستہ اور اخبار مکہ یا اخبار مکہ و المد ینہ وغیرہ معروف ہیں، اگر مطلقا “رواہ رزین ” کہا جائے تو اس سے تجرید الصحاح مراد ہوتی ہے، اس کتاب میں انہوں نے صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داود، سنن الترمذی، سنن النسائی اور موطا مالک کی احادیث کو جمع کیا ہے اور ان پر زوائد بھی لکھے ہیں، کئی ایک متاخرین علماء جیسے کہ حافظ خطيب التبریزی رحمہ اللہ ، مشكاة المصابیح اور حافظ منذری رحمہ اللہ ، الترغیب و الترھیب میں ان کے حوالے سے روایات نقل کرتے ہیں.
حافظ ابو طاہر السلفی رحمہ اللہ (۵۷۶ھ) فرماتے ہیں:
لَهُ تَوَالِيفُ مِنْهَا كِتَابٌ جَمَعَ فِيهِ مَا فِي الصَّحَاحِ الْخَمْسَةِ وَالْمُوَطَّ وَمِنْهَا كِتَابٌ فِي أَخْبَارِ مَكَّةَ.
ان کی کئی مصنفات ہیں، ان میں سے ایک وہ کتاب ہے جس میں انہوں نے صحاح خمسہ اور
موطا مالک کو جمع کیا ہے ، اسی طرح ان کی تصنیفات میں سے اخبار مکہ بھی ہے.”
حافظ ابو السعادات ابن الأثیر رحمہ اللہ (۶۰۶ھ) فرماتے ہیں :
[الوجيز في ذكر المجاز والمجيز : ١/ ١١٤]
أَبُو الحَسَنِ رَزِيَّنُ بنُ مُعَاوِيَةَ العَبْدَرِيُّ السَّرَقُسْطِيُّ ، فَجَمَعَ بَيْنَ كُتُبِ الْبُخَارِيِّ وَ مُسْلِمٍ وَ الْمُوَطَّ لِمَالِكِ وَ جَامِعِ أَبِي عِيسَى التَّرْمِذِي وَ سُنَنِ أَبِي دَاوُدَ وَ سُنَنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ رَتَّبَ كِتَابَهُ عَلَى الْأَبْوَابِ دُوْنَ الْمَسَانِيْدَ.
” ابو الحسن رزین بن معاویہ العبدری السر قسطی ، انہوں نے صحیح البخاری، صحیح مسلم، موطا مالک، جامع ابی عیسی الترمذی، سنن ابی داود سجستانی، سنن ابی عبد الرحمن نسائی کو جمع کیا اور انہیں مسانید کی بجائے ابواب پر ترتیب دیا. [جامع الأصول : ١/ ٤٨]
اسی طرح فرماتے ہیں :
رَأَيْتُ فِي كِتَابَهِ أَحَادِيْثَ كَثِيرَةٍ لَمَّ أَجِدْهَا فِي الْأُصُولِ الَّتِي قَرَأْتُهَا وَ سَمِعْتُهَا وَ نَقَلْتُ مِنْهَا، وَذَلِكَ لِإِخْتِلَافِ النُّسَخ وَ الطُّرْقِ، وَرَأَيْتُهُ قَدْ اعْتَمَدَ فِي تَرْتِيْبِ كِتَابَهِ عَلَى أَبْوَابِ الْبُخَارِيِّ،
فَذَكَرَ بَعْضَهَا، وَحَذَفَ بَعْضَهَا .
“میں ان کی کتاب میں بہت سی ایسی حدیثیں بھی دیکھیں جو مجھے ان کتب اصول جنہیں میں نے پڑھا، سنا، لکھا ہے، ان میں نہیں مل سکیں، ایسا نسخوں اور طرق کے اختلاف کی وجہ سے ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ انہوں نے اپنی اس کتاب کو صحیح بخاری کے ابواب کے مطابق ترتیب دیا ہے کچھ کو حذف کیا، کچھ کو ذکر کیا.” [جامع الأصول : ۱/ ٥٠]
حافظ ابن اثیر رحمہ اللہ کی کتاب جامع الأصول در اصل حافظ رزین رحمہ اللہ کی کتاب کی تہذیب و اختصار و اضافہ ہے . [مقدمة جامع الأصول]
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ ( ٧٥١ھ) فرماتے ہیں:
رَزِينُ بْنُ مُعَاوِيَةَ صَاحِبُ تَحْرِيدِ الصَّحَاحِ، وَهُوَ مِنْ أَعْلَمِ أَهْلِ زَمَانِهِ بِالسُّنَنِ وَالْآثَارِ، وَهُوَ مِنَ الْمَالِكِيَّةِ، اخْتَصَرَ تَفْسِيرَ ابْنِ جَرِيرٍ الطَّبَرِيِّ، وَعَلَى كِتَابِهِ ” التَّجْرِيدُ ” اعْتَمَدَ صَاحِبُ كِتَابِ جامع الْأُصُولِ وَهَذَّبَهُ.
“رزین بن معاویہ ، تجرید الصحاح کے مصنف، آپ اپنے دور میں سنن و آثار کے بڑے علماء میں سے تھے، مالکی تھے، انہوں نے تفسیر ابن جریر طبری کا اختصار کیا، جامع الاصول کے مصنف (ابن الاثیر) نے ان کی کتاب التجرید پر اعتماد کیا اور اس کی تہذیب کی ہے۔”
[مختصر الصواعق المرسله: ٤٤٧]
ذہبی عصر علامہ عبد الرحمن المعلمی رحمہ اللہ (۱۳۸۶ھ) فرماتے ہیں :
رَزِينٌ مَعْرُوفٌ وَ كِتَابَهُ مَشْهُورٌ ، وَ لَمْ أَقِفْ عَلَيْهِ وَ لَا عَلَى طَرِيقَتِهِ وَشَرْطِهِ فِيهِ غَيْرَ أَنَّهُ سَمَّاهُ فِيْمَا ذَكَرَ صَاحِبُ كَشْفِ الظُّنُونِ : تَحرِيْدِ الصَّحَاحِ السِّتَّةِ هِيَ : الْمُوَطَّأَ وَ الصَّحِيْحَانِ، وَسُنَنِ أَبِي دَاوُدَ، وَالنَّسَائِيُّ، وَالتِّرْمِذِيُّ.
“رزین معروف ہیں، ان کی کتاب مشہور ہے، میں ان کی کتاب اس میں ان کے اسلوب اور شرط سے واقف نہیں ہوں، سوائے اس کے کہ صاحب کشف الظنون کے مطابق انہوں نے اس کا نام تجرید صحاح الستہ رکھا تھا، یہاں صحاح سنہ سے مراد موطا و صحیحین اور سنن ابی داود، نسائی و ترمذی ہیں . ” [التعليق على فوائد المجموعة للشوكاني: ٥٠]
لیکن چونکہ یہ کتاب ہمارے پاس موجود نہیں اس لیے ان کی متفرد روایات قابل اعتبار نہیں، بلکہ
کئی ایک علماء نے ان کی کتاب میں موجود زوائد کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے.
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (۷۲۸ھ) اس کتاب کی ایک منکر روایت پر رد کرتے ہوئے فرماتے
ہیں:
رَزِينٌ قَدْ ذَكَرَ فِي كِتَابِهِ أَشْيَاءَ لَيْسَتْ فِي الصَّحَاح.
“رزین نے اپنی کتاب میں کئی ایسی روایات بھی ذکر کی ہیں جو کتب صحاح میں نہیں ہیں”.
[منهاج السنه : ٧ / ١٥٧]
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
أَدْخَلَ كِتَابَهُ زِيَادَاتٍ وَاهِيَةً، لَوْ تَنَزَّهِ عَنْهَا لأَجَادَ.
“انہوں نے اپنی کتاب میں بہت سے کمزور و واہی زیادات داخل کیے ہیں، اگر ان سے اپنی کتاب پاک رکھتے تو اچھا ہوتا.” [سیر أعلام النبلاء : ٢٠/ ٢٠٥]
اسی طرح فرماتے ہیں :
لَهُ مُصَنَّفٌ مَشْهُورٌ جَمَعَ فِيهِ الْكُتُبَ السِّتَّةَ وَلَهُ فِي الْكِتَابِ زِيَادَاتٌ وَاهِيَةٌ.
” ان کی مشہور کتاب ہے جس میں انہوں نے کتب ستہ کو جمع کیا ہے اور ان کے اس کتاب میں سخت کمزور زوائد بھی ہیں . ” [تاریخ الإسلام : ١١/ ٦٣٠]
حافظ ابن صلاح رحمہ اللہ (٦٤٣ھ) صلاۃ الرغائب کے متعلق ایک روایت کے متعلق فرماتے ہیں:
وَلَا تُسْتَفَادُ لَهُ صِحَةٌ مِنْ ذِكْرِ رَزَيْنِ بْنِ مُعَاوِيَةَ أَيَّاهُ فِي كِتَابه فِي تَحْرِيد الصِّحَاحَ وَلَا مِنْ ذِكْرِ الْأَحْيَاءِ لَهُ فِيهِ وَاعْتِمَادُهُ عَلَيْهِ لِكَثْرَةِ مَا فِيهِمَا مِنَ الْحَدِيثِ الصَّعِيفِ وَإِبْرَادُ رَزِيْنِ لَهُ
صاحب فِي مِثْلِ كِتَابِهِ مِنَ الْعَجَبِ.
“حافظ رزین بن معاویہ رحمہ اللہ کے اسے تجرید الصحاح میں ذکر کرنے اور صاحب الاحیاء ( یعنی علامہ غزالی رحمہ اللہ ) کے اسے ذکر کر کے اس پر اعتماد کرنے سے اس روایت کی صحت ثابت نہیں ہوتی، اور اس کی وجہ ان دونوں کتب میں بکثرت ضعیف احادیث کی موجودگی ہے، باقی حافظ رزین کا اس روایت کو اپنی کتاب میں ذکر کرنا بڑا متعجب ہے “۔
[الباعث على إنكار البدع والحوادث لأبی الشامه، ص: ٤٥]
علامہ شوکانی رحمہ اللہ ( ١٢٥٠ھ) فرماتے ہیں :
لَقَدْ أَدْخَلَ فِي كِتَابِهِ الَّذِي جَمَعَ فِيهِ بَيْنَ دَوَاوِينِ الإِسْلامِ بَلايا وَمَوْضُوعَاتٍ لا تُعْرَفُ، وَلا يُدْرَى مِنْ أَيْنَ جَاءَ بِهَا، وَذَلِكَ خِيَانَةٌ لِلْمُسْلِمِينَ.
انہوں نے اپنی جس کتاب میں دواوین اسلام کو جمع کیا ہے اس میں غیر معروف من گھڑت و موضوع روایات بھی داخل کر دی ہیں، نہ جانے وہ یہ روایات کہاں سے لے آئے ہیں، حالانکہ ایسا کرنا مسلمانوں سے خیانت کے مترادف ہے.”
علامہ عبد الرحمن المعلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لَا يُسْتَفَادُ مِنْ كِتَابِهِ فِي الْحَدِيثِ.
” حدیث میں ان کی کتاب سے استفادہ نہیں کرنا چاہیے “.
(التعليق على فوائد المجموعة للشوكاني: ٥٠)
شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (١٤٢٠ھ) فرماتے ہیں :
“فاعلم أن كتاب رزين هذا جمع فيه بين الأصول الستة: الصحيحين و موطأ مالك و سنن أبي داود و النسائي والترمذي، على نمط كتاب ابن الأثير المسمى “جامع الأصول من أحاديث الرسول ” إلا أن في كتاب ” التجريد ” أحاديث كثيرة لا أصل لها في شيء من هذه الأصول كما يعلم مما ينقله العلماء عنه ، مثل المنذري في “الترغيب والترهيب”.
یاد رکھیں ! رزین نے اصول ستہ : صحیحین، موطا مالک، سنن ابی داود، سنن نسائی و ترمذی کو ابن اثیر کی “جامع الاصول من احادیث الرسول ” نامی کتاب کی طرز پر جمع کیا ہے، البتہ انہوں نے لتجرید میں بہت سی ایسی احادیث کو بھی ذکر کردیا ہے، جن کی اصول ستہ میں کوئی اصل ہی نہیں، جیسا کہ ان کی کتاب سے علماء کی نقولات مثلا مندری رحمہ اللہ کی الترغیب و الترهيب
سے معلوم ہوتا ہے. [سلسلة الأحاديث الضعيفه: ۱/ ۳۷۳]
تنبیہ : شیخ البانی رحمہ اللہ کی عبارت سے یہ مراد نہیں کہ ابن اثیر رحمہ اللہ کی جامع الاصول پہلے تھی اور بعد میں اس کی طرز پر التجرید مرتب ہوئی، بلکہ معاملہ برعکس ہے، جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے کہ ابن اثیر رحمہ اللہ ، حافظ رزین رحمہ اللہ سے متأخر ہیں اور انہوں نے جامع الأصول میں التجرید” پر بنیاد رکھی اور اس سے استفادہ کیا۔
فضیلۃ العالم حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ