ماڈل اور اداکارہ حمیرا اصغر کی موت

ماڈل اور اداکارہ حمیرا اصغر کی موت افسوسناک بھی ہے اور کسی بھی انسان یا اپنے متعلق ایسے انجام کا سوچتے ہوئے یہ خوفناک بھی ہے، لیکن شائد یہی قیمت ہے، اس آزادی کی جو اپنوں کی قربت اور تعلق پر پاؤں رکھ کر حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ میٹرک میں پڑھتے ہوئے،ایک انگلش کہاوت یاد کی تھی، بلڈ از تھکر دین واٹر، جس کا اردو ترجمہ تب کتاب میں لکھا تھا، اپنا اپنا، غیر غیر، یہ بات زندگی ہمیشہ ثابت کرتی رہتی ہے۔ یہ بات میرے ذہن میں حمیرا کے والد کے رد عمل کے بعد آ رہی ہیں، میڈیا کے مطابق جس نے بیٹی کی لاش لینے اور کراچی جانے سے انکار کر دیا ہے۔ سات سال قبل حمیرا شائد اپنوں کو خفا کرکے گئی تھی، وجہ جو بھی تھی، لگتا ہے، یہ تعلقات پھر متحرک اور بحال نہیں رہے تھے، لگتا ہے، حمیرا نہ صرف جن کے سہارے تھی، انھوں نے اسے چھوڑ دیا تھا، بلکہ حالات بھی اس کے حق میں نہیں رہے تھے، جیسا کہ خبروں میں بتایا جا رہا ہے، گزشتہ کئی ماہ سے اس نے گھر کا کرایہ بھی نہیں دیا تھا، اور مالک مکان نے اس کے خلاف کیس کر رکھا تھا، اسی سلسلے میں جب پولیس پہنچی اور دروازہ توڑ کے اندر گئی تو اداکارہ کی تین ہفتے پرانی لاش ان سب کے سامنے تھی۔ خون پسینہ بہا کے بیٹی کو جوان کرنے والے باپ ایسے بے درد تو نہیں ہوتے کہ پردیس میں کسما پرسی کی حالت میں مر گئی بیٹی کی لاش تک وصول کرنے سے انکار کر دیں۔ لگتا ہے، اختلافات کافی زیادہ رہے ہیں، جس کا انجام اداکارہ، اس کی فیملی اور ہم سب دیکھ رہے ہیں۔ اس دعا کے ساتھ کہ اللہ سب پر آسانی فرمائے اور یہاں رہتے اور یہاں سے جاتے ہم سب کی عزتیں محفوظ رکھے۔

🖋 یوسف سراج حفظہ اللہ