اچھا بہت سے “ماڈرن مسلمانوں” کو اعتراض ہے کہ اپنے آپ کو اہلسنت نہیں کہنا چاہیے۔ اور پھر اہلسنت کے کسی مسلک سے تو بالکل بھی وابستہ نہیں ہونا چاہیے۔ انکے خیال میں یہ سارے فقہی مسائل بعد میں “گھڑے گئے” اور پھر ان مسائل میں اختلافات کی بنیاد پر فرقے بن گئے۔ یہاں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان کو فرقے اور مسلک کا فرق بھی نہیں پتہ۔
حالانکہ فقہی مسائل تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے ہی شروع ہو گئے تھے۔ صحابہ سے بڑا عالم کون ہو سکتا ہے؟ یہ وہ مبارک ہستیاں ہیں جنہوں نے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دین سیکھا۔ لیکن بہت سی مثالیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ کسی مسئلے میں خود سے درست حل تک نہ پہنچ سکے اور بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تصحیح فرمانا پڑی۔۔۔

سب سے بڑی مثال تو غزوہ احد کی ہے۔ جب ایک فقہی اختلاف کی بنیاد پر اسلامی فوج کو شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ لیکن اس نازک موقع پر بھی اصل حکم تک پہنچنے میں دو گروہوں کے اختلاف کو تسلیم کیا گیا کیونکہ دونوں کی نیت اللہ اور رسول کی اطاعت کی ہی تھی۔ اور بعد میں کسی فریق کو غلط قرار دے کر سزا نہیں دی گئی۔ اس سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ فقہی اختلافات کی بنیاد پر مختلف مسالک کا وجود میں آنا قطعاً کوئی معیوب یا غیر اسلامی بات نہیں۔۔۔۔ بلکہ عین فطری امر ہے اور اسلام تو ہے ہی دین فطرت۔ اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی تو نہیں فرمایا تھا کہ کسی دینی مسئلے کو حل کرنے کیلئے جب ایک مجتہد اجتہاد کرتا ہے تو اگر وہ اللہ کے ہاں درست ہو تو اسکے لیے دو اجر ہیں اور اگر غلط بھی ہو تو بھی ایک اجر تو پکا ہے۔۔۔

یہ تو ہو گیا مسلکی اور فقہی اختلاف۔ اسکی بنیاد دین کی معلوم نصوص یعنی قرآن، سنت/حدیث اور فہم صحابہ کی بنیاد پر مسائل کا حل نکالنے پر ہے۔
(کچھ لوگوں کو صحابہ کے فہم کو دین کا مصدر ماننے پر بھی اعتراض ہے، حالانکہ اسے نکال دیں تو تمام گمراہ فرقے قرآن و سنت سے ہی استنباط کا دعویٰ کرتے ہیں اور فہم صحابہ کے بغیر حق تک پہنچنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اور شاید یہی ہمارے دشمن چاہتے ہیں کہ فہم صحابہ کو نکال کر یہ ثابت کیا جائے کہ اصل اسلام تک پہنچنا ممکن ہی نہیں رہا۔۔۔)

اب فرقہ وہ ہے جو دین میں کوئی ایسی نئی بات داخل کر دے جس کا پہلے کوئی وجود ہی نہ ہو۔ نہ قرآن میں، نہ سنت میں نہ صحابہ کے عمل میں۔ اور بالخصوص جس، جس گروہ نے صحابہ کے طرز عمل سے انحراف کیا وہ بدعتی فرقہ قرار پایا اور ہمارے اسلاف نے (حدیث کے مطابق) تہتر کے تہتر فرقوں کو باقاعدہ ناموں کے ساتھ ذکر کر دیا ہے۔ اور انہی میں سے ایک فرقہ جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرقہ ناجیہ یعنی حق پرست فرقہ قرار دیا ہے وہ ہے “اہل السنة والجماعة”… یہ نام محض باقی 72 گمراہ فرقوں سے الگ تشخص کی خاطر رکھا گیا ہے اور اس فرقے کے 5 مسالک ہیں اور پانچوں ہی حق پر ہیں کیونکہ ان کے اختلافات فروعی ہیں، نہ کہ بنیادی (جیسا کہ شروع میں ذکر کیا)۔ یہ 5 مسالک یا مذاہب مالکی، حنفی، شافعی، حنبلی اور اہل حدیث ہیں۔۔۔ یہ گویا “اصولی فریم ورکس” ہیں جن کے اندر رہ کر، طے شدہ اصولوں کے مطابق ہر مسئلے کا حل نکالا جاتا ہے نہ کہ پہیہ دوبارہ ایجاد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔۔۔

اب خود ہی سوچیں کہ اس فریم ورک سے باہر نکل کر اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ دینی مسائل کا حل نکال سکتا ہے تو گویا اس نے سب “روایتی” اصولوں کو چھوڑ کر ایک نیا اصول وضع کرنے کا ارادہ کیا ہے۔۔۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ یوں فرقوں اور مسالک سے بیزاری کے باوجود آپ نے ایک نیا فرقہ نہیں تو کم از کم ایک نیا مسلک تو ضرور ایجاد کر لیا ہے۔۔۔😊

(ڈاکٹر رضوان اسد خان از استفادۂ علمائے اہل السنة والجماعة)