موجودہ ذرائع ابلاغ اور اس کی تباہ کاریاں

قال اللہ تعالیٰ:

“اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ”۔ (النور: 19)

بے شک جو لوگ پسند کرتے ہیں کہ ان لوگوں میں بے حیائی پھیلے جو ایمان لائے ہیں، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
کوئی زمانہ تھا جب ذرائع ابلاغ اس قدر تیز نہیں تھے جتنے آج کے دور میں تیز ہیں،ایک جگہ کی خبر دوسری جگہ مسافروں یا تاجروں کے ذریعے منتقل ہوتی تھی، ان ذرائع کے ذریعے معلومات کی ترسیل میں اکثر مہینوں لگ جاتے تھے۔ البتہ کسی بستی،قصبے یا شہر کی خبر بستی یا شہر تک محدود رہتی تھی اور لوگوں کے درمیان موضوع بحث بن جاتی تھی۔ وہ خبر صحیح ہو یا جھوٹ، بہرحال لوگ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے۔ ہر دور میں کچھ ایسے لوگ ضرور ہوئے جو معاشرے میں ایسی من گھڑت افواہیں پھیلاتے ہیں جن سے ہیجان پیدا ہوتا ہے۔ یہ بد خصلت لوگ شرفاء کو بدنام کرنے کی ناپاک کوشش کرتے ہیں۔
قرآن حکیم کی سورۃ نور میں واقعہ اِفک کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے۔ اِفک کا معنیٰ جھوٹ اور افتراء کے ہیں۔ واقعہ کی تفصیل کتبِ تفسیر میں ملتی ہےکہ جب سیدہ طاہرہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا غزوہ بنی مصطلق سے واپسی پر قافلے سے پیچھے رہ گئیں، حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہچان لیا اور اپنی اونٹنی پر انہیں لے آئے، اس پر رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر تہمت لگائی اور کچھ نادان لوگ اس کے ہم نوا بن گئے، جس سے نبی اکرمﷺ سخت پریشان ہوئے۔ کئی دنوں کی پریشانی کے بعد اللہ تعالیٰ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی برأت نازل فرمائی اور سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاک دامنی کا اعلان فرما دیا۔ ان آیات میں یہ آیت بھی شامل ہے کہ “وہ لوگ ایسی بیہودہ باتیں ایمان والوں میں پھیلاتے ہیں جن کا تعلق بے حیائی سے ہے، ایسے لوگوں کے لیے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے”۔ اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔یہ اس دور کی بات ہے جب ذرائع ابلاغ تیز ترین نہیں تھے اور یہ افواہ اور تہمت وغیرہ مدینہ منورہ تک محدود رہی تھی۔
لیکن آج کل صورتحال یکسر مختلف ہے۔ ذرائع ابلاغ اس قدر تیز ہیں کہ ایک خبر لمحوں میں دنیا کے کونے کونے میں پہنچ جاتی ہے۔ بالخصوص اگر وہ خبر بے حیائی پر مبنی ہو۔ مختلف T.V چینلز پر چلنے والی خبریں بھی افسوسناک ہیں۔ لیکن سوشل میڈیا جیسے فیس بک، ایکس ٹویٹر وغیرہ تو ہر عام و خاص کے ہاتھ میں ہیں۔ ان میں پڑھے لکھے اور بالکل جاہل بھی شامل ہیں۔ یہ سب تحقیق کیے بغیر ایک خبر کو لائک بھی کرتے ہیں اور اسے شیئر بھی کر دیتے ہیں۔ ایک ایک بندے کے ساتھ سینکڑوں لوگ جڑے ہوئے ہیں۔اس طرح لمحوں میں یہ جھوٹی اور من گھڑت خبر لاکھوں لوگوں تک پہنچ جاتی ہے۔حقیقت میں یہ کسی کو بدنام کرنے کا نہایت گھٹیا طریقہ ہے۔ بعد میں حقیقت سامنے آنے پر اس کی کوئی تردید بھی نہیں کرتا، اگر کرتا ہے تو ان لاکھوں تک یہ تردید کرنے والا پیغام نہیں پہنچتا۔
ہمیں اس بات پر بے حد صدمہ اور افسوس ہے کہ پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیے نوجوانوں کا استعمال کیا، انہیں باقاعدہ تربیت دی،جسے “ففتھ جنریشن وار” کا نام دیا گیا۔ اور انہیں سرکاری خزانوں سے تنخواہیں دی گئیں، اس کے صلے میں ان سے جھوٹ، من گھڑت خبریںاور افواہیں پھیلانے کا مکروہ دھندہ کروایا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک طوفانِ بدتمیزی برپا ہے۔ نہایت غلیظ گالیاں،توہین آمیز کلمات اور نازیبا جملے استعمال کیے جاتے ہیں۔آج یہ جنّ بوتل سے باہر آ چکا ہے۔ کوئی شریف آدمی ان کی خباثتوں سے بچ نہیں سکا، لیکن مقامِ افسوس ہے کہ ان کی جلائی آگ میں کچھ شُرفاء بھی حصہ ڈالتے ہیں۔ حالانکہ ان کے بارے میں یہ تاثر موجود ہے کہ وہ پڑھے لکھے ہیں۔ لیکن عقل کے اندھے ہیں۔ محض ایک ضد اور ہٹ دھرمی میں غلط کو بھی سچ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں بلا شبہ یہ سب لوگ قابلِ رحم ہیں جنہیں کوئی اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل میں استعمال کر رہا ہے اور یہ سب بلا سوچے سمجھے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ اپنا اعمال نامہ سیاہ کر رہے ہیں۔ انہیں شاید اس بات کا احساس نہیں کہ آخر کار انہیں ہر قول وفعل کا جواب دینا ہوگا۔ اس دن کوئی مددگار نہ ہوگا اور نہ ہی کوئی منصب کام آئے گا۔
وحی بند ہو گئی لہٰذا کسی منافق کی باقاعدہ نشاندہی نہیں ہو سکتی۔ لیکن آپﷺنے منافق کی کچھ علامتیں بیان کی ہیں، فرمایا:

“أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا إِذَا، اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ”۔ (صحیح البخاری: 34)

چار عادتیں جس کسی میں ہوں تو وہ خالص منافق ہے اور جس کسی میں ان چاروں میں سے ایک عادت ہو تو وہ (بھی) نفاق ہی ہے، جب تک اسے نہ چھوڑ دے۔ (وہ یہ ہیں) جب اسے امین بنایا جائے تو (امانت میں) خیانت کرے اور بات کرتے وقت جھوٹ بولے اور جب (کسی سے) عہد کرے تو اسے پورا نہ کرے اور جب (کسی سے) لڑے تو گالیوں پر اتر آئے۔
ذرا غور کریں وہ لوگ جو سوشل میڈیا پر افواہیں پھیلاتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، ان کا شمار کن لوگوں میں ہوتا ہے؟
یہ اِسے معمولی سمجھتے ہیں جبکہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

“إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ”۔ (النساء: 145)

عالمِ اسلام کے ممتاز داعی ڈاکٹر ذاکر نائیک حفظہ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ دنوں اپنے خطاب میں ایک اہم بات ذکر کی کہ “موجودہ عہد کا سب سے خطرناک ہتھیار میڈیا ہے، یہ سفید کو کالا اور کالے کو سفید ثابت کر سکتا ہے۔” لہٰذا اس کے مضمرات سے بچنے کی تدبیر کرنے کی ضرورت ہے اور ہمیں ایسے افراد تیار کرنے چاہیے جو حقائق کو سامنے لائیں۔
ابھی چند دن قبل لاہور پنجاب کالج میں رونما ہونے والا واقعہ بھی اسی نوعیت کا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے باقاعدہ ایک مہم چلائی گئی اور طلبہ و طالبات کو مشتعل کرنے کی کوشش ہوئی۔ جو ایک حد تک کامیاب رہی اور پنجاب کالج کا کافی نقصان کیا گیا۔ دوسری طرف حکومت مسلسل اس واقعے کی تردید کر رہی ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ یہ واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں، محض جھوٹی خبر ہے۔ اور اس پر ہنگامہ برپا کیا گیا کیونکہ مقصد طلباء کو سڑکوں پر لانا تھا تا کہ سیاسی فائدہ اٹھایا جا سکے۔ مگر حکومتِ پنجاب کی بروقت کاروائی سے “سیاسی بونو” کے مکروہ عزائم خاک میں مل گئے۔
اس حادثے کے بعد حکومت کو خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہیے بلکہ سوشل میڈیا پر مہم چلانے والوں کا محاسبہ از حد ضروری ہے۔ ان کو گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دیں اور جو نوجوان گراؤ جلاؤ میں ملوث ہیں انہیں بھی کٹہرے میں لایا جائے اور قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ یہ کاروائی فوری عمل میں لائی جائے تاخیر کا فائدہ مجرموں کو ہوگا اور اس سارے حادثے کے پیچھے سیاسی سازش کو بھی بے نقاب کیا جائے اور اس میں ملوث تمام ملزمان کو بھی گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دی جائے۔ اگر اب مواخذہ نہ ہوا تو معاملات زیادہ بگڑ سکتے ہیں۔ برطانیہ نے گزشتہ ماہ جو اقدام اٹھائے وہ سارے سامنے ہیں۔ جھوٹی خبریں دینے پر عدالت نے قید کی سزائیں دی ہیں۔
ایسی جعلی خبروں کے انتہائی سنگین نقصانات ہوتے ہیں، مثلاً:
لوگ حقیقت سے دور رہ جاتے ہیں اور سچائی مٹی میں دب جاتی ہے۔ عوامی رائے متاثر ہوتی ہے۔ معاشرتی انتشار پھیلتا ہے، خاص کر جب یہ جعلی خبریں لسانی،مذہبی یا سیاسی ہوں تو پھر ہنگامے اور گراؤ جلاؤ شروع ہو جاتا ہے۔ لوگوں کا میڈیا سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ جعلی خبروں کی وجہ سے کوئی سچی خبر پر بھی یقین نہیں کرتا۔ فرد اور اداروں کا نقصان ہوتا ہے جس کی تلافی ممکن نہیں ہے۔ پالیسی ساز ادارے صحیح منصوبہ بندی نہیں کر پاتے کیونکہ حقیقت کی جگہ جعلی خبریں ہیں۔ سیکیورٹی کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ان خبروں سے لوگوں میں خوف و ہراس پیدا ہوتا ہے۔ جعلی خبروں کی وجہ سے اقتصادی نقصان ہوتا ہے، کیونکہ مارکیٹیں اور کاروبار رک جاتا ہے۔
اسلام نے ایسے مسائل پر سخت ترین بات کی ہے۔ رسول کریمﷺکا ارشاد گرامی ہے:

“إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ”۔ (صحیح البخاری: 6066)

بدگمانی سے بچو بے شک بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔

دوسری روایت:

“كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا، أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ”۔ (صحیح المسلم: 5)

آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات بیان کر دے۔
اُصولی طور پر ایک مسلمان کا کردار یہ ہونا چاہیے کہ جب اس تک کوئی خبر پہنچے تو سب سے پہلے اس کی تصدیق کرے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ ہدایت ارشاد فرمائی:

“يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ”۔ (الحجرات: 6)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر تمھارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اچھی طرح تحقیق کرلو، ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو لاعلمی کی وجہ سے نقصان پہنچا دو، پھر جو تم نے کیا اس پر پشیمان ہوجاؤ۔
پاکستان میں اس وقت سوشل میڈیا بے لگام ہے اور پاکستانی بغیر سوچے سمجھے ہر ہر خبر دے رہے ہیں۔ یا دوسروں کی من گھڑت خبروں کو شیئر کر رہے ہیں۔ بہرحال اس کی روک تھام ہونی چاہیے اور ایسے افراد کو قرار واقعی سزا دینی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقتِ حال کو سمجھنے کی توفیق دے اور فتنے اور شر میں مبتلا ہونے سے محفوظ فرمائے۔ آمین

مضمون نگِار: فضیلۃ الشیخ پروفیسر چودھری محمد یٰسین ظفر حفظہ اللہ تعالیٰ
(ناظمِ اعلیٰ وفاق المدارس السلفیہ پاکستان)

یہ بھی پڑھیں: پارٹنرشپ کی دس اہم اور بنیادی شروط