مولانا عتیق اللہ سلفی رحمہ اللہ سپردِ خاک ہوئے اور دعوت و تربیت کا ایک باب بند ہوا

ہم العلماء انسٹیٹوٹ بھمبہ کلاں (رائیونڈ) سے روانہ ہو کر پھولنگر سے آگے ہیڈ بلوکی ٹول ٹیکس کے پاس پہنچے تو ٹیکس والا کہتا آج خیر ہے؟ اتنے مولوی کدھر جا رہے ہیں؟ ہمیں وہاں سے اندازہ ہوا کہ یہاں مسلسل گاڑیاں گزر کر ستیانہ بنگلہ کی طرف جا رہی ہیں۔
حالانکہ ستیانہ وہاں سے کم و بیش سو کلومیٹر تھا، پھر رستے میں جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے وقتا فوقتا گاڑیاں نظر آتی رہیں جن کو دیکھتے ہی اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ مولانا عتیق اللہ رحمہ اللہ کے جنازے میں شرکت کے لیے جا رہے ہیں۔ جب ہم جڑانوالہ گزر کر ستیانہ روڈ پر آئے تب تو مسلسل گاڑیاں، بسیں اور موٹر سائکلیں نظر آنے لگیں۔
یہ ایک طرف کی صورت حال ہے، دیگر اطراف سے آنے والے لوگ اس سے الگ ہیں۔

جب ستیانہ مین اڈہ پر پہنچے تو ہر طرف گاڑیوں کی لائنیں اور انسانوں کا جم غفیر تھا۔ ایسے محسوس ہو رہا تھا پورے پنجاب کے دینی مدارس کے اساتذہ و طلبہ وہاں جمع ہو گئے ہیں۔
جنازے والی جگہ پہنچے تو وہاں بھی کافی لوگ آ چکے تھے حالانکہ نماز جنازہ کے وقت میں ابھی آدھا گھنٹہ باقی تھا۔

علمائے کرام اور واعظین تاثراتی کلمات کہہ رہے تھے اور مولانا عتیق اللہ سلفی رحمہ اللہ سے اپنا قریبی تعلق بیان کر رہے تھے، تقریبا ہر دوسرے عالم دین کا یہی بیان تھا کہ مولانا مجھے اپنی دعاؤں میں خصوصی یاد رکھا کرتے تھے.. وغیرہ۔

جنازے سے پہلے تقریریں اور خطابات ہمارے ہاں آج کل ایک معرکۃ الآراء مسئلہ بن چکا ہے، مولانا کے جنازے سے پہلے بھی یہ خطابات ہوئے، جب تک جنازے کا انتظار تھا، تب تک تو وہ معقول و مناسب محسوس ہوئے، کیونکہ ظاہر ہے اتنے بڑے مجمعے کو خاموشی سے چھوڑ دینے سے بدنظمی میں اضافہ ہو سکتا ہے، لہذا جب تک جنازہ نہ آئے تب تک آنے والے معزز علماء کو تاثرات وغیرہ بیان کرنے کا موقع دے دینے میں حرج نہیں کہ یہ انتظامی اور مبنی بر مصلحت فیصلہ ہے۔ جو لوگ تقاریر وغیرہ نہیں کرواتے وہ بھی اس وقت میں کسی نہ کسی طرح لوگ مصروف و مشغول رکھنے کی کوشش کرتے ہیں!
ہاں جب میت آ جائے اور پھر بھی قائدین و عمائدین کو نام لے لے کر پکارا جائے کہ وہ آ کر تاثرات بیان کریں، اس پر بدعت کا فتوی لگے یا نہ لگے، یہ  کئی اعتبار سے ایک غیر مناسب رویہ ضرور ہے، کیونکہ
ایک تو میت کو رکھ کر تقریریں کرنا کوئی مسنون عمل نہیں۔
جنازے میں بہت سارے ایسے لوگ بھی آئے ہوتے ہیں جن کے لیے زیادہ دیر کھڑے رہنا، یا کسی ازدحام والی جگہ پر موجود رہنا یا دھوپ وغیرہ کو برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے۔ گویا ایسے لوگ جن کا شریعت نے فرض نماز میں بھی خیال رکھنے کا کہا ہے، انہیں ایک غیر مسنون عمل کی وجہ سے تکلیف اور مشقت میں ڈالنا غیر مناسب ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ جنازوں کے اندر تقریروں اور تاثرات کے بیان کو تشہیر کا ایک ٹول اور اپنی یا اپنی جماعت/ ادارے کی موجودگی کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے اور ایسے لگتا ہے کہ اگر آنے والے کسی کو وقت نہ دیا گیا تو وہ ناراض ہو جائے گا… جس وجہ سے جنازہ تاخیر کا شکار ہوتا ہے۔

بہرصورت یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سارے علماء و قائدین وہاں پر موجود تھے، لیکن وہ مائیک پر نہیں آئے، جس سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے اس موقعہ پر گفتگو کو مناسب نہیں سمجھا۔
فضیلۃ الشیخ عبد اللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ نے مختصرا گفتگو کی اور فرمایا کہ پہلے ہم یہاں حاضر ہوتے تھے تو مولانا عتیق اللہ رحمہ اللہ سے ملاقات ہوتی تھی، لیکن اب ہم آئے ہیں تو مولانا سفر آخرت پر روانہ ہو چکے ہیں، اسی مناسبت سے انہوں نے عربی کا ایک شعر پڑھا، جس کا اردو ترجمہ سوشل میڈیا پر شیئر ہو رہا ہے، عربی شعر یوں تھا:

إذا زرت أرضاً بعد طول اجتنابها
فقدت حبيبي والديار كما هيا

جنازے کی ویڈيوز اور تصویریں بن رہی تھیں، دو تین ڈرون بھی فضا میں اڑتے ہوئے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہے تھے۔
مولانا عتیق اللہ سلفی رحمہ اللہ کے بیٹوں نے اعلان کیا کہ فضیلۃ الشیخ مسعودِ عالَم حفظہ اللہ کے متعلق والد محترم کی وصیت تھی کہ میرا جنازہ انہیں سے پڑھوایا جائے، لہذا جنازہ انہوں نے پڑھایا۔

جنازے سے پہلے انہوں نے کیمرے والوں کو کہا کہ مولانا تصویر کو ناپسند کرتے تھے، لہذا کیمرے بند کر دیے جائیں، ان سے حوصلہ پا کر کچھ لوگوں نے مزید احتجاج ریکارڈ کرواتے ہوئے اربابِ کیمرہ کو مخاطب کرتے ہوئے جھاڑ پلائی کہ تم جنازے پر آئے ہو یا شادی پر؟ حالانکہ تصویر کی حرمت کے قائلین کے ہاں شادی میں بھی تصویر سازی درست نہیں!

جب جنازہ گاہ میں داخل ہوئے تو قدرے گرمی کا احساس تھا، اس لیے لوگ درختوں کی صورت فطری یا تمبو کی صورت میں منصوعی سائبان کی تلاش میں نظر آ رہے تھے، لیکن کچھ ہی دیر بعد موسم خوشگوار ہونا شروع ہو گیا، بلکہ نماز جنازہ شروع ہونے سے پہلے تو موسم مزید ٹھنڈا اور سہانا ہو گیا اور آوازیں بلند ہوئیں کہ جلدی نماز جنازہ ادا کر لی جائے کہیں بارش شروع نہ ہو جائے۔

جنازے کی ادائیگی کے بعد ہم پیدل چلتے ہوئے مرکز الدعوۃ السلفیہ ستیانہ بنگلہ آئے، وہاں ادارے کا تفصیلی وزٹ کیا، مسجد، لائبریری، کلاس رومز، رہائش گاہیں دیکھیں، کچھ دوست احباب سے ملاقاتیں کیں اور واپسی کے لیے رختِ سفر باندھا اور راستے میں حسبِ سابق لوگوں کو واپس آتے ہوئے دیکھا، یہاں تک آخری قافلہ ہم نے ہیڈ بلوکی کے پاس دیکھا، ایک کار گزری، پھر اس کے پیچھے ایک کوسٹر جس میں کسی مدرسے کے طلبہ سوار تھے۔
ہم چونکہ وہاں رکے ہوئے تھے، لوگ ہماری طرف متوجہ تھے، اور یقینا وہی سوچ رہے ہوں گے جو ہمارے ذہنوں میں گھوم رہا تھا کہ یہ مولانا صاحب کے جنازے سے واپس آ رہے ہیں، اور ساتھ ہی لاشعور میں مولانا کی قبولیت کا احساس جاگ رہا تھا کہ کس طرح جوق در جوق لوگوں نے ان کے جنازے میں شرکت کو سعادت سمجھا ہے۔

یہاں ایک بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ علماء کی وفات پر جب لوگ ان سے متعلق اپنے جذبات اور والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہیں تو یہاں سے کچھ دردِ دل رکھنے والوں کی طرف سے ایک طعنہ ایجاد ہوتا ہے کہ ’ہم مردہ پرست قوم ہیں‘ اور ’زندگی میں تو ہمیں قدر کی توفیق نہیں ہوتی‘ وغیرہ۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں، ہمیں ان کے دل میں داخل ہو کر نیت پر نقب زن ہونے کی ضرورت نہیں، بلکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے شکوے، شکایتوں بلکہ طعنوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہم علماء کی زندگی میں ان کی قدر کریں، ان سے مستفید ہوں اور یہ ایک اچھی چیز ہے بلکہ مطلوب و مقصود ہے۔
دوسرے لفظوں میں کہیے کہ ہمیں علماء کی وفات پر ان کے ساتھ والہانہ جذبات کے اظہار سے کوئی مسئلہ نہیں، بلکہ ہم تو ان کی زندگی میں ان سے استفادے پر ابھارنا اور ترغیب دلانا چاہتے ہیں، جو کہ عینِ حق و صواب ہے۔

لیکن یہاں قابل اصلاح امر یہ ہے کہ یہ بات کہنے کا انداز ’ترغیبی’ سے زیادہ ’ملامتی’ ہوتا ہے، جس سے علماء کی زندگی میں ان کی قدر کا سبق کم اور ان کی وفات کے وقت ان سے اظہار محبت کو منفی انداز میں اجاگر کرنا غالب ہو رہا ہوتا ہے۔
احباب گرامی کیا ہم چاہتے ہیں کہ وہ لوگ جو علماء سے ان کی زندگی میں مستفید نہیں ہوتے وہ دو چار دن کے لیے ان کی وفات کے موقعے پر بھی ان سے اظہار محبت و عقیدت نہ کریں؟
اور پھر ہم کہیں کہ یار زندگی میں نہ سہی کم از کم وفات کے موقعے پر تو دو جملے بول دینے چاہییں تھے…!
بيننا وبينكم يوم الجنائز والے مقولے میں بڑی حکمتیں ہیں، وفات اور جنازے کےموقع پر محبت و عقیدت کے اظہار میں بھی اللہ کے فضل سے بڑے فوائد ہیں، جن سے ہمیں محروم نہیں رہنا چاہیے۔

خیر بات کو اختتام کی طرف لاتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ مولانا عتیق اللہ سلفی مرحوم سے بہت قریبی ملاقات اور طویل مجلس مدینہ منورہ میں ہوئی تھی، جس کی بعض باتیں ابھی بھی ذہن میں نقش ہیں، گو کہ اس ملاقات کے احوال میں نے اسی وقت سوشل میڈیا پر بھی لکھ دیے تھے۔ نماز کی مسلسل تلقین کرتے تھے اور اپنی بیویوں اور اولادوں کو بھی اس کا پابند بنانے کا کہتے تھے، ان کی دعوت رکھی گئی، لوگوں نے حسبِ عادت وافر مقدار میں کھانا ضائع کیا، جس پر مولانا نے ایک ایک بندے کو جا کر نصیحت کی کہ برتن میں کھانا چھوڑنا مناسب نہیں۔

اللہ تعالی مولانا کی مغفرت فرمائے، ان کی زندگی اور جنازہ دیکھ کر ہمیں یقین کی حد تک حسن ظن ہے کہ مولانا دنیا و آخرت میں کامیاب ہو گئے، خود تو چلے گئے لیکن اپنے پیچھے صدقہ جاریہ طور پر ہزاروں علماء و طلبہ چھوڑے اور ایک بہترین دینی مدرسہ مرکز الدعوۃ السلفیہ اور اس جیسے کئی علمی، فلاحی پراجیکٹس چھوڑے، اللہ ان سب کو قبول فرمائے اور ان کے اخلاف و اولاد کو اس مشن کو قائم و دائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

#خیال_خاطر

یہ بھی پڑھیں:

الشیخ ابو نعمان بشیر احمد حفظہ اللہ کی حالات زندگی