مولانا اسماعیل الخطیب رحمہ اللہ: ایک علمی شخصیت، داعی اور مردِ مخلص

علمائے کرام کی زندگی کے حالات جہاں علم و فضل کے نمونہ ہوتے ہیں، وہیں ان میں دعوت و حکمت، تذکیہ و تربیت، اور عمل و اخلاص کی روشن جھلک بھی نظر آتی ہے۔ انہی شخصیات میں سے ایک نمایاں نام مولانا اسماعیل الخطیب رحمہ اللہ کا ہے، جن کی زندگی کا ہر پہلو علمی جِد و جہد اور اصلاحِ امت کے جذبے سے لبریز تھا۔
تلونڈی میں ایک تاریخی واقعہ: حکمت، غیرت اور داعیانہ اسلوب
ایک بار جامع مسجد اہل حدیث، مین بازار تلونڈی (ضلع قصور) میں شیخ الحدیث حافظ عبدالمنان محدث نورپوری رحمہ اللہ کا درس ہوا۔ اس درس کے بعد ہم اپنے ایک عزیز کے ہمراہ ان کے گھر گئے، جہاں ایک ایمان افروز واقعہ سننے کو ملا، جس میں مولانا اسماعیل الخطیب رحمہ اللہ کی علمی مہارت اور دعوتی حکمت کا روشن پہلو سامنے آیا۔
تلونڈی ضلع قصور کے ایک سکول کے ہیڈ ماسٹر دہریہ سوچ رکھتے تھے اور دین دار لوگوں کو کم تر سمجھتے تھے۔ مولانا اسماعیل الخطیب رحمہ اللہ ایک دن سکول تشریف لائے۔ اس وقت ہیڈ ماسٹر انگریزی کتاب پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے مولانا صاحب سے طنزیہ انداز میں کہا:
“مولوی صاحب! ذرا اس کتاب کا ایک صفحہ تو پڑھ کر سنائیں!”
مولانا نے کتاب لی، چند لمحے صفحہ دیکھا اور فرمایا:
“ہیڈ ماسٹر صاحب! یہ صفحہ آپ زبانی سنیں۔”
پھر مولانا صاحب نے وہ پورا صفحہ زبانی سنا دیا۔ ہیڈ ماسٹر دنگ رہ گئے۔ اس پر مولانا نے اپنی بغل سے ایک عربی کتاب نکالی اور فرمایا:
“اب آپ اس کی ایک سطر پڑھ کر سنائیں!”
ہیڈ ماسٹر چند الفاظ بھی نہ پڑھ سکے۔ شرمندہ ہو کر بولے:
“میں تو خود کو بہت ذہین سمجھتا تھا۔”
یہ واقعہ ان کی زندگی کا ایک نقطۂ انقلاب بن گیا، اور وہ دین کی طرف مائل ہو کر توبہ تائب ہو گئے۔
لاہور میں ملاقات اور مولانا کا قلبی رجحان:
مکتبہ اصحاب الحدیث لاہور کے مدیر مولانا عبداللطیف ربانی رحمہ اللہ کے ہاں ہماری ملاقات مولانا اسماعیل الخطیب اور مولانا اسماعیل اسد رحمہما اللہ سے ہوئی۔ گفتگو کے دوران مولانا الخطیب رحمہ اللہ نے نہایت محبت اور اخلاص سے فرمایا:
“آپ کی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ مناظرانہ طبیعت کے حامل ہیں۔ میں خود بھی اسی مزاج کا تھا، مگر اب وہ روش چھوڑ دی ہے۔”
اور پھر نہایت دل نشین انداز میں کہا:
“مناظرانہ طرزِ گفتگو سے نفس میں تکبر پیدا ہوتا ہے۔ اب میں دنیا سے بے نیاز ہو کر صرف آخرت کی فکر میں ہوں۔”
انہوں نے مزید فرمایا:
“ان دنوں میری مطالعہ کی محبوب ترین کتاب ‘احوال الآخرة’ ہے، جو مولانا محمد لکھوی رحمہ اللہ کی تصنیف ہے۔”
یہ بات مولانا کی روحانی ارتقاء اور فکری گہرائی کی مظہر ہے کہ وہ علمی مناظروں سے ہٹ کر دلوں کی اصلاح اور فکرِ آخرت کی طرف متوجہ ہو چکے تھے۔
درسِ قرآن اور علمی اسلوب
مولانا اسماعیل الخطیب رحمہ اللہ ضلع قصور کے گاؤں ڈہولن ہٹھاڑ میں ہمارے ہاں درس کے لیے تشریف لایا کرتے تھے۔ ایک موقع پر انہوں نے سورۃ الإخلاص پر نہایت پراثر اور علمی درس دیا، جو آج تک دل پر نقش ہے۔ ان کا انداز تدریسی بھی تھا، فکری بھی اور دعوتی بھی۔ ان کے خطبات و بیانات گوگل پر آڈیو شکل میں دستیاب ہیں، جو ان کی علم دوستی اور دعوتی حکمت کا شاہکار ہیں۔
مولانا اسماعیل الخطیب رحمہ اللہ کا انٹرویو “علمائے اہل حدیث کی کہانی، ان کی زبانی” نامی کتاب میں محفوظ ہے۔
یہ انٹرویو نہ صرف ان کی علمی زندگی کا عکس ہے بلکہ ان کے اندر موجود اخلاص، فکری پختگی، اور دعوتی شعور کی جھلک بھی پیش کرتا ہے۔
خلاصہ اور سبق:
مولانا اسماعیل الخطیب رحمہ اللہ کی شخصیت ایک جامع اور متوازن عالم دین کی عکاس ہے۔ وہ ایک طرف علم و حکمت کے بحرِ بیکراں تھے، تو دوسری طرف دعوت کے دریا کے شناور، جنہوں نے اپنے اخلاق، علم، اور اخلاص سے دلوں کو جیتا۔ ان کا پیغام یہی تھا کہ:
علم کا مقصد مناظرہ نہیں، عمل اور اخلاص ہے۔
دین کا دفاع صرف زبان سے نہیں، کردار سے ہوتا ہے۔
فکرِ آخرت انسان کو دنیا کی چمک سے بے نیاز کر دیتی ہے۔
ہم سب کو چاہیے کہ ان جیسے علماء کی زندگی سے سبق حاصل کریں اور دین کے خدمت گزار، علم کے طالب، اور اخلاص و تواضع کے پیکر بننے کی کوشش کریں۔

✍: محمد مرتضی ساجد

کیا آپ مولانا اسماعیل الخطیب رحمہ اللہ سے واقف ہیں؟

مدرسہ کے ابتدائی دنوں میں مولانا اسماعیل الخطیب کا نام کانوں میں پڑا تھا، جوں جوں بڑے ہوئے تو پتہ چلا کہ کئی اساتذہ کرام بھی مولانا اسماعیل خطیب کا خطبہ جمعہ سننے کے لیے جایا کرتے ہیں۔
ڈاکٹر قاری حمزہ مدنی حفظہ اللہ سے متعلق خبر ملی تھی کہ وہ نہ صرف ان کے دروس و خطابات سننے جاتے ہیں بلکہ ساتھ ساتھ بعض اہم چیزیں کاغذ پہ نوٹ بھی کرتے ہیں۔
ماضی کے جھروکوں میں اگر جھانکوں تو یاد پڑتا ہے کہ زمانہ طالب علمی میں کم عمری کی وجہ سے ایک دو بار ہی ان کو سننے کے لیے جا پایا۔
آپ ماڈل ٹاؤن لاہور کوٹھا پنڈ فلیٹس کے پاس غالباً ’طیبہ مسجد‘ میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ 2010ء میں مولانا کا انتقال ہو گیا تھا تب ان کی عمر غالباً 50 سے کم ہی ہو گی۔
ان کی کچھ آڈیو تقاریر میری ہارڈ ڈسک میں ایک عرصہ سے موجود ہیں، ان دنوں فراغت میں سن رہا اور لطف لے رہا ہوں۔
کیا ہی شاندار خطابات ہیں، علمی نکات سے بھرپور ان خطابات کو اگر کوئی پبلشر شائع کرے تو بہت خاصے کی چیز ہو گی۔

✍: عمران اسلم

یہ بھی پڑھیں: غزہ کی آخری سانسیں