شیخ العرب والعجم استاذ الاساتذہ سند العلماء بقیۃ السلف مولانا محمد اعظمی صاحب کا انتقال پُرملال
یہ خبر نہایت ہی رنج و افسوس کے ساتھ سنی گئی کہ شیخ العرب والعجم استاذ الاساتذہ سند العلماء بقیۃ السلف نامور عالم دین مولانا محمد اعظمی صاحب طویل علالت کے بعد آج بتاریخ 11 جولائی 2023ء، بوقت تقریبا سوانو بجے شب بعمر تقریبا 93 سال داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ۔اناللہ وانااليه راجعون.اللهم اغفرله وارحمه وعافه واعف عنه واكرم نزله ووسع مدخله ونقه من الذنوب كمانقيت الثوب الابيض من الدنس وادخله الفردوس الاعلى من الجنة والهم اهله وذويه الصبر والسلوان.ان العين تدمع والقلب يحزن ولانقول الابما يرضى ربناسبحانه وتعالى . ان لله مااعطى وله مااخذ وكل شئى عنده باجل مسمى.
مولانا محمد بن مولانا عبدالعلی بن شیخ عبداللہ بن مولانا علیم اللہ بن حکیم جمال الدین رحمہ اللہ بڑے خلیق و ملنسار، سادگی پسند، متواضع، علماء نواز اور ورع و تقویٰ میں سلف کی یادگار تھے ۔ان کا انتقال علمی و تحقیقی دنیا کا عظیم خسارہ ہے۔ مولانا محمد اعظمی نے جامعہ عالیہ عربیہ مئو، جامعہ دار السلام عمر آباد، مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی اور مدرسہ اسلامیہ دارا نگر بنارس میں اکابر علماء و جہابذہ علم و دانش سے اکتساب فیض کیا جن میں سے مولانا محمد بن سلیمان داود مئوی، مولانا احمد بن ملا حسام الدین مئوی، مولانا محمد لقمان اعظمی اور مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی شیخ الکل فی الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی کے شاگرد رشید تھے۔آپ نے تقریباً پینتالیس سال تک جامعہ عالیہ عربیہ مئو ، مدرسۃ الاصلاح سرائے میر، جامعہ فیض عام مئو، مدرسہ خیرالعلوم سیونی اور کلیۃ فاطمۃ الزھراء للبنات مئو میں تدریسی و تربیتی اور انتظامی خدمات انجام دیں۔ آپ نے اس دوران متعدد دینی و علمی کتابیں تصنیف فرمائیں جن میں آداب زواج، شریعت و عادت، نقوش رحمانی، کائنات کا آغاز و انجام، نماز نبوی، مستند دعائیں، تذکرۃ البخاری، دعایۃ الایمان، قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کے آداب وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ آپ برصغیر کے ان چند علماء میں سے تھے جو فن حدیث میں سند عالی رکھتے تھے، اس لئے عرب و عجم کے ہزاروں طلباء نے آپ سے اکتساب فیض کیاجو آپ کے لئے صدقہ جاریہ ہیں۔ ان شاء اللہ۔
مولانا مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے کاز سے بڑی دلچسپی رکھتے تھے اور ناچیز کو بہت عزیز رکھتے تھے اور جمعیت کی ہمہ جہت خدمات کے بارے میں سن کر خوشی کا اظہار کرتے اور دعاؤں سے نوازتے تھے۔ابھی کچھ دنوں پہلے لوہیا ، مبارک پور کے جلسے کی مناسبت سے محض مولانا سے ملاقات اور دعا کی غرض سے حاضر ہوا۔ مولانا نے برجستہ فرمایا کہ آپ ماشاء اللہ بہت ساری خدمات انجام دے رہے ہیں۔ہرملاقات میں بے حد ہمت افزائی فرماتے تھے۔مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی گراں قدر علمی و تحقیقی اور تدریسی خدمات کے اعتراف میں ان کو ایوارڈ سے نوازا تھا۔
ان کے جنازے کی نماز آبائی وطن مئو کے عیدگاہ اہل حدیث ڈومن پورہ پچھم میں کل صبح دس بجے ادا کی جائے گی۔ ان شاء اللہ پسماندگان میں معروف عالم دین اور صاحب قلم مولانا اسعد اعظمی سمیت چھ بیٹے عزیزان احمد، اجود، ارشد، امجد اور اسجد اور چھ بیٹیاں اور متعدد پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان کی بال بال مغفرت فرمائے، بشری لغزشوں سے درگذر فرمائے، دینی و دعوتی خدمات کو شرف قبولیت بخشے،جنت الفردوس کا مکین بنائے، جملہ پسماندگان ومتعلقین کوصبرجمیل کی توفیق بخشے اور ملک ملت اور جمعیت و جماعت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے ۔ آمین
شریک غم و دعا گو
اصغر علی امام مہدی سلفی
امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند
مولانا محمد اعظمی رحمہ اللہ کی وفات
پاک و ہند کے علمی حلقوں میں یہ خبر یقیناً افسوس کے ساتھ سنی جائے گی کہ یادگارِ سلف مولانا محمد اعظمی اب نہیں رہے۔ مولانا اس عہد آخر میں دبستان نذیریہ کا فیض اور ایک نشانی تھے۔ شیخ الکل السید الامام نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے صرف ایک واسطے سے شاگرد تھے۔ جس کی وجہ سے مولانا کی سند بہت عالی تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اہل علم کثرت سے ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔
مولانا محمد اعظمی کا خاندانی تعلق مئو ناتھ بھنجن سے تھا۔ یہ خطہ حضرت میاں صاحب محدث دہلوی کے شاگردوں سے بھرا ہوا تھا، جس کی تفصیل “دبستان نذیریہ” جلد دوم میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ مولانا محمد اعظمی کو سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے چار شاگردوں سے شرف تلمذ حاصل تھا۔ جن کے نام باعتبار ترتیب وفات حسب ذیل ہیں:-
1 مولانا محمد احمد بن حسام الدین مئوی (وفات: 1948ء)
2 مولانا ابو القاسم سیف بنارسی (وفات: 1949ء)
3 مولانا ابو العرفان محمد اعظمی (وفات: 1951ء)
4 مولانا حکیم محمد سلیمان مئوی (وفات: 1959ء)
مولانا اعظمی کی یہ بہت بڑی خوش قسمتی تھی کہ انھیں ایسے جلیل المرتبت اکابر سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔ تکمیل علم کے بعد مولانا کی تدریسی زندگی شروع ہوئی۔ وہ بنیادی طور کے ایک لائق و فائق مدرس تھے جن کی ذات سے ہزارہا طلاب علم مستفید ہوئے اور معاشرے کے لیے کار آمد ثابت ہوئے۔ مولانا نے جن مدارس میں تدریس کے فرائض انجام دیے ان میں “مدرسۃ الاصلاح سرائے میر” بھی شامل ہے۔ جو اصلاحی مکتب فکر کا نمائندہ مدرسہ تھا۔ یہاں مولانا شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہوئے۔
مولانا نے ابتدائی کتابوں سے لے کر انتہائی کتابوں تک کی تدریس کی اور ایک اندازے کے مطابق صحیحین کی تدریس کا فریضہ 23 برسوں تک انجام دیا۔
مولانا کی قلمی خدمات میں چند کتابیں بھی ہیں اور کچھ تراجم بھی۔ نواب صدیق حسن خاں کی مشہور فارسی کتاب “جلب المنفعۃ فی الذب عن الائمۃ المجتھدین الاربعہ” کا اردو ترجمہ “ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع” حال ہی میں مکتبہ دار السلف پاکستان سے بھی طبع ہو گیا ہے۔
مولانا کی ولادت بقول امام خاں نوشہروی 1930ء میں ہوئی۔ اس اعتبار سے بوقت وفات مولانا کی عمر 93 برس کے قریب تھی۔ مولانا نے بھرپور زندگی گزاری اور سعادت کی زندگی گزاری۔ کسب علم اور نشر علم یہی ان کا مقصد حیات تھا۔
اللھم اغفر لہ وارحمہ
محمد تنزیل الصدیقی الحسینی