“مومن کی چار مثالیں”

اللہ تعالی نے اپنے نبی علیہ الصلاة السلام کو جوامع الکلم عطاء کیے۔ جس کے معانی میں سے ایک یہ ہے کہ آپ ﷺ بہت تھوڑے الفاظ کے ساتھ بہت زیادہ معنی بیان کرنے پر عبور رکھتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ افصح العرب تھے یعنی عربی زبان کی فصاحت آپ ﷺ پر ختم تھی۔ اس سب کا نتیجہ یہ تھا کہ آپ ﷺ کسی چیز کے بارے مثال دیتے تو وہ نہایت ہی عمدہ مثال ہوتی۔
چنانچہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

«حَفِظْتُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَلْفَ مَثَلٍ»

(أمثال الحديث المروية عن النبي ﷺ للرامهرمزي: 9)

کہ میں اللہ کے رسول ﷺ سے ایک ہزار امثلہ(جو آپ ﷺ نے بیان فرمائیں) نقل/محفوظ کر رکھی ہیں۔

چنانچہ سلف کی اسی سنت کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایسی امثلہ ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں جن میں آپ ﷺ نے مومن کی مثال بیان کی ہے۔ مومن خود ایک بہت قیمتی اور خوبصورت چیز، اس کے ساتھ ساتھ امثلہ نبی اکرم ﷺ کی زبان اطہر سے ادا کی ہوئی۔ فنور علی نور۔

1: مومن کھجور کے درخت کی مانند:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ: ” كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَأْكُلُ جُمَّارًا، فَقَالَ: مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةٌ كَالرَّجُلِ الْمُؤْمِنِ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَقُولَ هِيَ النَّخْلَةُ، فَإِذَا أَنَا أَحْدَثُهُمْ ، قَالَ : هِيَ النَّخْلَةُ “.
صحيح البخاري- 2209

ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کا گابھا کھا رہے تھے۔ اسی وقت آپ نے فرمایا کہ درختوں میں ایک درخت مومن کی مثال ہے میرے دل میں آیا کہ کہوں کہ یہ کھجور کا درخت ہے، لیکن حاضرین میں، میں ہی سب سے چھوٹی عمر کا تھا ( اس لیے بطور ادب میں چپ رہا ) پھر آپ نے خود ہی فرمایا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔

بدر الدین العینی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اس میں کھجور کے درخت کی فضیلت ہے۔ مفسرین نے کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ کو شجر طیب یعنی کھجور کے درخت سے تعبیر کیا ہے۔ اور کہا ہے کہ اس کی کی جڑیں زمین میں مضبوط ہوتی ہیں اور شاخیں آسمان میں بہت اونچی۔ اور یہ پھل بھی ہر وقت دیتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی نے ایمان کو کھجور کے درخت سے تشبیہ دی ہے کہ جس طرح یہ زمین میں مضبوط ہوتا ہے، ایمان مومن کے دل میں ایسا ہی مضبوط ہوتا ہے۔ اور اس کی شاخیں جو بہت اونچی ہوتی ہیں، انہیں مومن کا عمل قرار دیا ہے جو اسے درجات میں بہت اوپر لے جاتا ہے۔ اور جس طرح کھجور کا درخت سال بھر، کبھی گیلی اور کبھی خشک کھجور کے ذریعے فائدہ مند ہوتا ہے، اسی طرح مومن اپنے ایمان کی وجہ سے ہر وقت ثواب اور برکت حاصل کر رہا ہوتا ہے۔
(عمدة القاري شرح صحيح البخاري: ١٣/٢)

2: مومن سنگترے کی مانند:

عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : ” مَثَلُ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَالْأُتْرُجَّةِ طَعْمُهَا طَيِّبٌ وَرِيحُهَا طَيِّبٌ ، وَالَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَالتَّمْرَةِ طَعْمُهَا طَيِّبٌ وَلَا رِيحَ لَهَا ، وَمَثَلُ الْفَاجِرِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الرَّيْحَانَةِ رِيحُهَا طَيِّبٌ وَطَعْمُهَا مُرٌّ ، وَمَثَلُ الْفَاجِرِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الْحَنْظَلَةِ طَعْمُهَا مُرٌّ وَلَا رِيحَ لَهَا “.
صحيح البخاري: 5020

حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ نے بيان كيا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی (مومن کی) مثال جو قرآن کی تلاوت کرتا ہے سنگترے کی سی ہے جس کا مزا بھی لذیذ ہوتا ہے اور جس کی خوشبو بھی بہترین ہوتی ہے اور جو مومن قرآن کی تلاوت نہیں کرتا اس کی مثال کھجور کی سی ہے اس کا مزہ تو عمدہ ہوتا ہے لیکن اس میں خوشبو نہیں ہوتی اور اس بدکار ( منا فق ) کی مثال جو قر آن کی تلاوت کر تا ہے ریحانہ کی سی ہے کہ اس کی خوشبو تو اچھی ہو تی لیکن مزا کڑوا ہوتا ہے اور اس بدکار کی مثال جو قر آن کی تلا وت بھی نہیں کرتا اندرائن کی سی ہے جس کا مزا بھی کڑوا ہوتا ہے اوراس میں کو ئی خو شبو بھی نہیں ہوتی۔

ابن حجر رحمہ اللہ اس کی شرح میں رقمطراز ہیں کہ مومن کے ایمان کو پھل کے ذائقے کے ساتھ تشبیہ ہے اور تلاوت کو خوشبو کے ساتھ کہ مومن میں ایمان تو ہوتا ہی ہوتا ہے وہ تلاوت کرے یا نا کرے۔ جیسے پھل میں ذائقہ تو ہوتا ہی ہوتا ہے خوشبو ہو یا نا ہو۔ اور دوسرے پھلوں جن میں خوشبو اور ذائقہ دونوں ہوتے ہیں، ان میں سے خاص سنگترے کی مثال دینے میں حکمت یہ ہے کہ اس کے چھلکوں سے بیماری کا علاج بھی کیا جاتا ہے اور فرحت بخشنے میں یہ باقی پھلوں سے زیادہ خاص ہے۔ اور اس کے پھل میں بعض اس طرح کے مواد ہوتے ہیں جن کے بے شمار فوائد ہیں۔ اور کہا گیا ہے کہ جس گھر میں یہ پھل ہو، وہاں جن نہیں آتے تو یہ مناسبت بھی ہے کہ تلاوت کرنے والے بندے سے شیاطین دور ہے رہتے ہیں۔ اسی طرح اس پھل کا اندرونی غلاف سفید ہوتا ہے جو مومن کے دل کی مثل ہے۔ اسی طرح اس میں دوسرے خواص بھی ہیں جیسے آنکھ کو بھاتا ہے، بڑا خوبصورت رنگ ہے، چھونے میں بڑا ملائم ہے، کھانے میں ذائقے کے ساتھ معدے کو بھی فائدہ دیتا ہے اور غذا کے ہضم کرنے میں معاون ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی فوائد کا حامل ہے۔
(فتح الباري بشرح صحيح البخاري: ٦٨٣/٨)

3: مومن نرم شاخ کی مانند:

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” مَثَلُ الْمُؤْمِنِ كَالْخَامَةِ مِنَ الزَّرْعِ تُفَيِّئُهَا الرِّيحُ مَرَّةً وَتَعْدِلُهَا مَرَّةً، وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ كَالْأَرْزَةِ لَا تَزَالُ حَتَّى يَكُونَ انْجِعَافُهَا مَرَّةً وَاحِدَةً “۔
صحيح البخاري: 5643

عبداللہ بن کعب کہتے ہیں کہ ان سے ان کے والد نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کی مثال پودے کی سب سے پہلی نکلی ہوئی ہری شاخ جیسی ہے کہ ہوا اسے کبھی جھکا دیتی ہے اور کبھی برابر کر دیتی ہے اور منافق کی مثال صنوبر کے درخت جیسی ہے کہ وہ سیدھا ہی کھڑا رہتا ہے اور آخر ایک جھوکے میں کبھی اکھڑ ہی جاتا ہے ۔

ابو العباس القرطبي رحمہ اللہ اس کی تشریح میں کہتے ہیں کہ یہ حدیث مصائب پر اجر کی امید، ان پر صبر، ان پر ثواب کے انتظار اور مصائب سے خالی، دنیا میں مل جانے والی چھوٹ سے خوف پر دال ہے۔
(المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم: ١٢٦/٧)

4: مومن بندھے ہوئے گھوڑے کی مانند:

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” مَثَلُ الْمُؤْمِنِ وَمَثَلُ الْإِيمَانِ، كَمَثَلِ الْفَرَسِ فِي آخِيَّتِهِ، يَجُولُ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى آخِيَّتِهِ، وَإِنَّ الْمُؤْمِنَ يَسْهُو ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى الْإِيمَانِ، فَأَطْعِمُوا طَعَامَكُمْ الْأَتْقِيَاءَ، وَأَوْلُوا مَعْرُوفَكُمْ الْمُؤْمِنِينَ “. حَدَّثَنَاه أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ، وَهَذَا أَتَمُّ.
مسند أحمد بن حنبل: 11703

ابو سعید الخدري رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مومن اور ایمان کی مثال گھوڑے اور اس کے “كِلّے” یعنی وہ لکڑی یا زمین میں دفن رسی جس سے جانور کو باندھا جاتا ہے(پنجابی تہذیب سے متعلق چیز ہونے کی وجہ سے اردو کا لفظ ملنا ممکن نہیں) کی سی ہے کہ وہ ادھر ادھر گھومتا ہے پھر واپس اسی کی طرف لوٹ آتا ہے۔ مومن سے بھی بھول چوک ہوتی ہے مگر وہ پھر واپس ایمان کی طرف لوٹ آتا ہے۔ پس اتقیاء اور مومنوں کے بھلے لوگوں پر اپنے خوان دراز کرو۔

محمد بن عبدالهادي السندي رحمہ اللہ اس کی شرح میں کہتے ہیں کہ یجول، یعنی کلے کے گرد گھومتا ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ (مومن) اپنے گناہوں کی وجہ سے اپنے رب سے دور ہوجاتا ہے مگر اس کے ایمان کی جڑیں موجود ہی رہتی ہیں۔
اور کہا جاتا ہے کہ یہاں ایمان سے مراد اس کی بعض شاخیں ہیں کہ جیسے جانور اپنے کلے سے دور ہوتا ہے پھر لوٹ آتا ہے اسی طرح مومن بھی ایمان کی بعض شاخوں کو ترک کر دیتا ہے مگر پھر اسے احساس ہوتا ہے اور وہ نادم ہوجاتا ہے۔
(حاشية السندي على المسند: ٤٧٥/٦)

حافظ نصر اللہ جاويد

یہ بھی پرھیں: اہل السنہ کا سنت رسول ﷺ کے بارے عقیدہ