فضیلۃ الشیخ مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ و شفاہ وعافاہ من کل سوء و مکروہ کے حوالے سے کچھ باتیں

اداروں میں سو سیاستیں ہوتی ہیں، انتظامی معاملات میں کئی ہیر پھیر ہوتے ہیں، لیکن فضیلۃ الشیخ مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ و شفاہ وعافاہ من کل سوء و مکروہ کے حوالے سے کچھ باتیں سب کے لیے بہت واضح اور کلیئر ہیں:
1۔ آپ مسلک اہل حدیث کا سرمایہ ہیں، اور جب تک صحت و عافیت سے تھے، جہاں کہیں مسلک کی کسی جماعت کو بھی ان کی ضرورت محسوس ہوتی، فورا وہاں پہنچا کرتے تھے۔ لہذا بلا استثناء تمام جماعتوں کو ایسے علمائے کرام کا احترام کرنا ضروری ہے۔
2۔ اندر کھاتے کے رولے رپے جتنے مرضی نکال لیں، لیکن یہ حقیقت تو روز روشن کی طرح واضح ہے کہ شیخ محترم کی لائبریری اور ان کا مرکز یہ دو چیزیں ایسی ہیں کہ جس کے لیے انہوں نے دن رات ایک کر دیا تھا۔ اور بیرون ملک سے بھی چندہ کرکے انہوں نے بڑی محنت اور شوق سے وہ مرکز تعمیر کروایا، جس کو اس وقت متنازع بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
تقریبا تین چار سال پہلے ہم کسی میٹنگ سلسلے میں شیخ محترم کے پاس حاضر ہوئے، تو میں نے پہلی دفعہ مرکز دیکھا، دیکھتے ہی بہت رشک آیا اور دل سے دعا نکلی کہ اللہ تعالی اس مرکز کو ’ دار الحدیث۔ لاہور‘ کے طور پر آباد کر دے، تاکہ اطراف و اکناف سے حدیث کے طالبعلم آئیں، اور وہ شیخ سے اور ان کے ضخیم مکتبہ سے اپنی علمی پیاس بجھائیں!!
لیکن اللہ کی مرضی کہ کچھ ہی عرصے بعد شیخ محترم شدید بیماری کی کیفیت میں چلے گئے۔
پھر بیماری کے دوران ایک ملاقات میں فرمانے لگے: اللہ سے دعا کی ہے کہ اللہ تعالی مجھے ایک بار پھر موقع دے تو سید نذیر حسین رحمہ اللہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آئندہ ساری زندگی حدیث کی خدمت میں گزاروں۔
اللہ تعالی شیخ محترم کی یہ تمنا پوری فرمائے۔
3۔ شیخ کے جس ادارے کے متعلق باتیں کی جارہی ہیں، وہ کسی بھی جماعت کی بجائے ان کا اپنا ذاتی مرکز ہے، جو انہوں نے اپنی اور اپنے دوست احباب کی محنتوں سے بنایا ہے.. اور اگر یہ مرکز کسی جماعت کا بھی ہے، تو پھر بھی وہ شیخ صاحب کے توسط سے ہی جماعت کا ہے، لہذا کسی بھی جماعت کے متعلقین کو اس مرکز کے حوالے سے شیخ کو یا ان کے صاحبزادوں کو پیچھے کر کے اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
اور یہ کتنی عجیب بات ہوگی کہ ایک عالم دین جس کی ساری زندگی کسی خواب کی تعمیر میں لگ گئی، چند لوگ آکر اس میں انتظامی خرد برد اور ہیرا پھیری کرکے، اس پر حق جتانا شروع کردیں کہ چونکہ یہ مرکز ہماری طرف سے حکومت کے انڈر تھا، لہذا اب یہ ہمارا ہے!
کیا پتہ کروڑوں روپے کی ملکیت سے تعمیر ہونے والے ادارے کو جب آپ نے اپنی چتر چالاکیوں سے ہتھیانے کی کوشش کی ہو، وہی چیز شیخ کی طبیعت کی خرابی کا سبب بنی ہو!!
کوئی بندے کو حیا کو ہاتھ مارنا چاہیے! جب جماعتوں کے بڑے اور بزرگ کسی عالم دین کا حیا کرتے ہیں، اور اس کے بچوں سے شفقت کا معاملہ کرتے ہیں، تو پھر نیچے دو دو ٹکے کے ذمہ داران کو بھی اپنی حد میں رہنا چاہیے۔
اللہ تعالی نے قوت و طاقت اور افرادی و مالی وسائل اس وجہ سے دیے ہوئے ہیں کہ علماء کو تنگ کیا جائے؟
ہونا تو یہ چاہیے کہ اہل علم اور علماء کو مراکز و مدارس اور لائبریریاں قائم کرکے دی جائیں، یہاں الٹا کام شروع ہے کہ جو عالم دین اپنے لیے تعلیمی، دعوتی سیٹ اپ کھڑا کر لیتا ہے، لوگ اس پر آنکھیں جما کر بیٹھ جاتے ہیں!
یہ جی ہماری جماعت کا ادارہ ہے، بھائی اگر آپ کی جماعت کا بھی ہے، تو وہ اس عالم دین کے توسط سے ہے، جس کو اب آپ درمیان سے کٹ مارنے کی کوشش میں ہیں!
جماعتیں ایک وقتی ضرورت اور آنے جانے والی چیزیں ہیں، جبکہ اصل چيز علم اور علماء ہیں۔
یہ تو پھر چند جماعتیں اور ان کے چند عہدیداران اور ذمہ داران ہیں، جو فرعونی رویہ اپنا کر سمجھتے ہیں کہ شاید ہم ہمیشہ ہی ایسے رہیں گے، تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ اہل علم اور علماء کو اگر حکومتوں اور سلاطین و جبابرہ نے بھی تنگ کرنے کی کوشش کی تو کیا حاصل کر لیا؟
احمد بن حنبل پر پوری سلطنت اور اس کے خدم و ہشم ٹوٹ پڑے تھے… لیکن آج انہیں کوئی جانتا نہیں، جبکہ احمد بن حنبل جبل شامخ کی طرح کھڑے ہیں۔ ابن تیمیہ کو دبانے والے، ان کی آواز بند کرنے والے کدھر ہیں؟
اداروں، جماعتوں اور ان کے متعلقین کے لیے نیک نامی یہی ہے کہ وہ مخلص اہل علم کی قدر دانی کریں، حتی الامکان ان کے لیے آسانی پیدا کرنے کی کوشش کریں، نہیں کر سکتے تو کم ازکم ان کے لیے مشکلات پیدا کرنے سے باز آنا چاہیے۔
لادینیت کے اس دور میں تمام اسلام پسند افراد، مذہبی جماعتیں، دینی ادارے ہمارے لیے قابل احترام ہیں، لیکن گزارش یہ ہے کہ کسی بھی عالم دین سے ہمدردی یہی ہے کہ آپ اگر کچھ کر سکتے ہیں تو اس کی اجازت سے اس کا ہاتھ بٹائیں، اس کی اولاد کو حوصلہ دیں، تاکہ بسترِ مرض پر موجود بزرگ آپ کو دعائیں دیں کہ یہ میرے خیر خواہ ہیں، نہ کہ حیلوں بہانوں سے وہاں اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کی کوشش کی جائے اور بزرگوں کو مزید ذہنی طور پر پریشان کیا جائے!
اللہ تعالی سب کو ہدایت عطا فرمائے۔
امید ہے جماعت میں موجود علمائے کرام اور ذمہ داران اس صورت حال میں شیخ ربانی حفظہ اللہ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں گے، انہیں حوصلہ دیں گے، ان کے بچوں سے شفقت کا اظہار کرتے ہوئے، شرپسند عناصر کے خلاف تادیبی کاروائی کا اعلان کریں گے، تاکہ سب کے لیے مثال قائم ہو جائے اور وہ عبرت حاصل کریں!!
یہ تحریر بعض جماعتی جیالوں کو ہوسکتا ہے ناگوار گزرے، لیکن کوئی بات نہیں، ہر کسی کی محبت و چاہت کا ایک معیار ہوتا ہے، جس طرح جیالوں کے دل میں جماعتوں کی محبت ہے، اسی طرح ہمارے دل میں اہل علم اور علماء کے لیے محبت ہے۔ وکل میسر لما خلق لہ…!!
کوئی دوست اس پیرائے میں بھی حملہ آور ہوسکتا ہے کہ آپ کو حقیقت حال کا علم نہیں، ایسے دوستوں سے گزارش ہے کہ جو حقیقت ہے سامنے لائیں، ورنہ ہم نے جو لکھا ہے، وہ مصدقہ معلومات کی بنیاد پر ہی لکھا ہے۔

#خیال_خاطر

یہ بھی پڑھيں:فضیلۃ الشیخ مفتی مبشر احمد ربانی