مفتی مبشر احمد ربانیؒ کے ایک جلسے میں شرکت

26/11/2020 کے روز استاذ گرامی مفتی مبشر احمد ربانی مرحوم کی معیت میں منڈی صفدر آباد ایک تبلیغی جلسے میں شرکت کی غرض سے جانا ہوا، پروگرام کے اختتام پر واپسی پر ایک سفید ریش بزرگ ہمارے ساتھ گاڑی میں سوار ہوگئے استاذ گرامی نے ان کو بہت اکرام سے نوازا اور دیر تک ان کے ساتھ گفتگو میں مصروف رہے ہم نے تاندلیانوالہ اگلے پروگرام میں شرکت کے لیے جانا تھا ان بزرگ کو راستے میں کسی جگہ پر ڈراپ کر کے آگے نکلنے لگے تو انہوں نے دو منٹ رکنے کا فرمایا اور تھوڑی دیر بعد ایک بڑا شاپر کیلوں اور سیب سے بھرا ہوا لا کر گاڑی میں رکھ دیا استاذ گرامی کہنے لگے” شیخ صاحب یہ تکلف کرنے کی کیا ضرورت تھی” اس وقت مجھے معلوم ہوا اتنا سادہ درویش منش بھی کوئی” شیخ ” ہو سکتا ہے۔ اس پروگرام کی تصاویر اپنی آئی ڈی پر اپلوڈ کیں تو کسی نے بتایا یہ جامعہ سلفیہ فیصل آباد کے سینئر استاذ مولانا فاروق الرحمن یزدانی سلمه الله ہیں۔ اس دن سے میرے دل میں ان کے لیے محبت اور عقیدت کے جذبات انگڑائی لینے لگے قریبا دو قبل جب میں لاہور تعلیم حاصل کر رہا تھا ایک دن جامعہ سلفیہ فیصل آباد بالخصوص شیخ الحدیث مولانا عبدالعزیز علوی رحمه الله ، استاذ مکرم مولانا نجیب اللہ طارق اور شیخ فاروق الرحمن یزدانی حفظهما اللہ کی زیارت کرنے آیا، شیخ یزدانی نے اس دن بہت شفقت کا مظاہرہ فرمایا کیوں کہ میں نے مجلس میں ان کو گفتگو کرنے کا بہت کم موقع دیا وہ کافی دیر تک چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ سجائے میری اول فول سنتے رہے ، قدرت کے بھی عجیب پروگرام ہیں اگلے ہی سال یعنی گزشتہ سال کے آغاز پر میں نے مزید تعلیم کے حصول کے لیے جامعہ سلفیہ فیصل آباد کا رخ کیا، شیخ یزدانی سنن نسائی پڑھاتے تھے ان سے حصول فیض کے شوق میں سنن نسائی کی کلاس میں داخلہ لیا جو میرے مستوی سے کم تھا بعض احباب نے اوپر کی کلاسوں میں داخلے کا مشورہ بھی دیا لیکن میں نے ان کی بات نہ سنی لیکن اس سال جامعہ کے نظم میں تبدیلی آئی شین یزدانی جو کم و بیش 20 سال کے عرصہ سے سنن نسائی کی تدریس فرما رہے تھے اور ہمارے شیخ سعید مجتبی سعیدی مد ظله کے بقول” امام نسائی” بن گئے تھے ان کو سنن ابی داود کی تدریس سونپ دی گئی اگرچہ اس سال شیخ یزدانی سے باقاعدہ استفادہ کا موقع تو نہ ملا لیکن ان کے ساتھ اچھے راہ و رسم پیدا ہوگئے۔

یہ چند یادیں بیٹھے بیٹھے نوک قلم پر آگئیں وگرنہ سچی بات ہے شیخ مکرم ایسی شخصیت پر لکھنے کو کئی صفحات درکار ہیں، ان شاء اللہ کبھی شیخ مکرم کی شخصیت پر تفصیل سے لکھنے کی جسارت کریں گے فی الحال اسی پر اکتفاء کیجیے۔
اور شاید یہ لکھنا ان احباب کی غلط فہمی کو بھی دور کرنے کا سبب بن جائے جن کے خیال میں ہم نے شیخ مکرم کی بعض پالیسیوں پر نقد کر کے ان کی مکمل شخصیت پر حرف گیری کی ہے، الحمدللہ ہم کتاب و سنت کے پیرو ہیں ہم ” و لا یجرمنکم شنآن قوم علی الا تعدلوا اعدلوا ھو اقرب للتقوی” اور ” انزلوا الناس قدر منازلهم ” پر یقین ہی نہیں عمل بھی کرتے ہیں۔

( اور امسال شیخ سے کچھ ماہ سنن ابی داود کا سماع کرنے کا بھی موقع حاصل ہوا )، انہوں نے اپنے زعم مجھے جامعہ میں بہترین رہائشی کمرہ عنایت فرمایا، ان کی ایک بہت اچھی عادت راہ چلتے ہر چھوٹے بڑے طالب علم کو آگے بڑھ کر سلام اور اس سے مصافحہ کرنے سے میں بہت متاثر ہوا، جامعہ میں بعض بڑقں کی سستی یا ان کی اپنی شلواروں کے ٹخنوں سے نیچے رہنے کی وجہ سے طلبہ میں بھی یہ بیماری عام تھی جس کے تدارک کے لیے شیخ یزدانی نے بہت جد و جہد کی اور مسلسل کر رہے ہیں اگر کسی طالب علم کی شلوار ٹخنوں سے نیچے دیکھیں تو اس کو لازما تنبیہ فرماتے ہیں بلکہ امسال تو انہوں نے ایک اشتہار نما کاغذ کا ٹکڑا پرنٹ کروا کر جامعہ کے بعض اہم مقامات پر لگوا دیا ہے جس میں ٹخنوں سے شلوار نیچے رکھنے کے متعلق چار سزاوں کا ذکر ہے، طلبی میں نیک خصال دیکھ کر ان کئ خوب حوصلہ افزائی فرماتے ہیں بالخصوص جامعہ میں کوئی طالب علم تاریخ اہل حدیث یا کبار اہل علم کی سوانح کو موضوع تقریر و تحریر بنائے تو اس کی بساط بھر حوصلہ افزائی فرماتے ہیں، حدیث اور مسلک حدیث کے متعلق کسی بھی قسم کی ناروا گفتگو سننا ان کے لیے ممکن نہیں اور اگر کبھی ایسا ہوجائے تو اس کا بھرپور علمی انداز سے تعاقب فرماتے ہیں مجھے یاد پڑتا ہے امسال جامعہ میں ایک پروگرام منعقد ہوا جس میں مہمان مقرر نے بعض قابل ملاحظہ باتیں کیں بعض طلبہ نے سوالات کی صورت میں اس کو لاجواب کر دیا تو شیخ یزدانی نے سوالات کرنے والے تمام طلبہ کو نقدی انعام کی صورت میں خوب سراہا، محرم الحرام آتے ہی را۔ف۔ضی طبقہ میں سیاہ لباس پہننے کا۔ اہتمام کیا جاتا ہے جس سے ہمارے اچھے خاصے مذہبی بلکہ مدارس کے طلبہ و اساتذہ بھی لا شعوری طور پر متاثر ہو جاتے ہیں امسال شیخ یزدانی نے محرم الحرام آتے ہی ایسی دردمندانہ تقریر فرمائی کہ 1200 میں سے بجز دو چار کے کسی نے بھی اس ماہ سیاہ لباس کا اہتمام نہیں کیا، کبار اہل علم کی عزت و توقیر اور ان سے تعلق قلبی تو شیخ یزدانی حفظه الله کی شناخت ہے بلکہ یاد آیا کہ جیسا کہ شیخ یزدانی کو جاننے والے تمام طلبہ کو معلوم ہے کہ وہ حتی الوسع خود بھی کلاس سے غیر حاضر نہیں ہوتے اور طلبہ کے چھٹی کرنے پر بھی سختی برتتے ہیں لیکن جس دن استاذ گرامی مفتی مبشر احمد ربانی نرحوم کی وفات ہوئی تو میں اور تین طلبہ میرے ساتھ ان کے جنازے میں شرکت کی غرض سے لاہور آئے ہماری ایک غیر حاضری لگی اور ہم غیر حاضر بھی بلا۔ اطلاع ہوئے تھے لیکن شیخ یزدانی نے ہمیں یہ فرماتے ہوئے” بیٹھ جاو تمہیں کوئی سزا جرمانہ نہیں بلکہ میرا تو یہ ماننا ہے کہ مفتی مبشر احمد ربانی جتنی بڑی شخصیت تھے پورے جامعہ سلفیہ کو ان کا جنازہ پڑھنے جانا تھا اور آئندہ بھی اگر کوئی طالب علم کسی اہل حدیث عالم کے جنازے میں شرکت کی غرض سے بلا اطلاع بھی چلا جائے تو اس پر کوئی جرمانہ سزا نہیں” اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ جانے کا حکم دیا۔

رانا عبداللہ مرتضی السلفی

یہ بھی پڑھیں: نوجوانوں میں بڑھتے الحاد کا ذمہ دار کون