استاد محترم کی یاد میں (1)
ہمارے استاد محترم ہمارے مربی تھے ، ہمارے خیرخواہ تھے ، مسلکی غیرت و حمیت میں اور اس کو اپنے تلامذہ میں منتقل کرنے میں لا ثانی تھے ، اس بات کی حقیقت جاننے کے لیے استاد محترم کے جملہ تلامذہ پر ایک نظر دوڑا لینا کافی ہوگا ، اس کی ایک مثال پڑھتے جائیے ۔۔۔!
سن ٢٠١٨ میں استاد محترم کے ہاں مرکز الحسن سبزہ زار زیر تعلیم تھا ، یہ میرا علوم اسلامیہ کا پہلا سال تھا ، استاد محترم ہمیں ” علم النحو ” پڑھاتے تھے ، سبزہ زار کے ایک رہاشی شخص جن کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا انہوں نے مجھے ایک دن ماہ نامہ ترجمان القرآن پڑھنے کو دیا ، میں وہ پڑھ رہا تھا کہ استاد محترم حسن بن مبشر احمد ربانی نے مجھے وہ رساکہ پڑھتا دیکھ لیا اور پکڑ کر مجھے استاد محترم کے پاس لے گئے اور بتایا کہ میں ترجمان القرآن پڑھ رہا تھا ، یہ سن کر استاد محترم طیش میں آگئے اور مجھے اہل بدعت کا لٹریچر پڑھنے کی قباحتوں سے آگاہ فرمانے لگے ، اس کے بعد الحمدللہ کبھی دل آمادہ نہیں ہوا کہ اپنے اسلاف کا ورثہ چھوڑ کر کچرے کی طرف نظر التفات دوڑائی جائے ، یہاں یہ بھی پڑھتے جائیں کہ استاد محترم محض مبتدی طلبہ کو اہل بدعت کے لٹریچر سے تحذیر ہی نہیں کرتے تھے بلکہ آپ نے ہمیں جب کہ ہم پہلی کلاس میں پڑھتے تھے مطالعہ کی ابتداء شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے مقالات کا مطالعہ کروانے سے کروائی ، آپ فرماتے تھے ” جو شخص شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی کتب کا مطالعہ کر لیتا ہے پھر وہ کبھی بھی اپنے عقیدے و مسلک میں مداہنت کا شکار نہیں ہوتا ” میں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں محسوس کرتا کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے آج مسلکی غیرت و حمیت اگر ہم میں ہے تو وہ اللہ رب العزت کی توفیق کے بعد استاد محترم کی مسلسل راہ نمائی اور تربیت کا ثمرہ ہے۔۔۔
استاد محترم کی یاد میں (2)
أستاذي المكرم مفتی مبشر احمد ربانی رحمة الله عليه معاصرین کے قدر دان تھے ہی اسلاف کا بھی غایت درجہ احترام کرتے تھے ، ایک دفعہ میں نے ان کے ساتھ واٹس ایپ پر گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر عبداللہ بہاولپوری رحمہ اللہ کا نام اختصار کے ساتھ عبداللہ بہاولپوری مرحوم لکھ دیا ، آپ نے اس پر بہت خفگی کا اظھار کیا اور فرمانے لگے وہ بہت بڑی شخصیت تھے ان کا نام فضیلة الشيخ پروفیسر عبداللہ بہاولپوری رحمه الله ہے ۔
امام شافعی سے بھی غایت درجہ عقیدت رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ امام موصوف کے مناقب پر امام ابراھیم بن عمر بن ابراھیم الجعبری الشافعی رحمه الله کی کتاب ” مواھب الوفي في مناقب الشافعی ” مولانا حامد محمود الخضری اور منیر احمد وقار حفظھما اللہ کی تحقیق و دراسہ کے بعد بڑے اہتمام سے شائع کی اور علماء و طلبہ میں وہ کتاب مفت تقسیم کرتے تھے ، ایک دفعہ مرکز الحسن کے شعبہ حفظ کے استاذ قاری عبدالحفیظ صاحب عمرہ کرنے تشریف لے گئے تو ان کو اس کتاب کا ایک نسخہ تھما دیا کہ یہ محدث حرم مکی شیخ وصی اللہ محمد عباس حفظہ اللہ کی خدمت میں پیش کرنا ہے اور میرا سلام بھی عرض کرنا ، جب قاری صاحب عمرہ کر کے واپس تشریف لائے تو اس متعلق ان سے خصوصیت سے دریافت فرمایا ، امام شافعی رحمه الله کے ساتھ آپ کی عقیدت کا اندازہ ان الفاظ سے لگایا جا سکتا ہے جو آپ نے اسی کتاب ” مناقب شافعی ” کے صفحہ ٩ پر کلمة الناشر کے عنوان کے تحت تحریر فرمائے ہیں ، آپ امام موصوف کے متعلق لکھتے ہیں ” الإمام المجتھد الثقة الحجة رأس الفقهاء و الأصوليين إمام المناظرين و الباحثين أمير المؤمنين في الحديث أبو عبدالله محمد بن إدريس بن العباس بن عثمان بن شافع بن السائب بن عبيد بن عبد يزيد بن هاشم بن المطلب بن عبد مناف بن قصي القرشي الشافعي الحجازي المكي ابن عم رسول الله صلى الله عليه و سلم يلتقي معه في عبد مناف . رحمه الله رحمة واسعة.
استاد محترم امام شافعی رحمة الله عليه کے صرف مداح ہی نہیں تھے بلکہ ان کے علمی جانشین بھی تھے ، انہی کے نقش پا کی پیروی کرتے ہوئے آپ نے ساری زندگی احقاق حق اور ابطال باطل میں گزار دی اور مسلک محدثین کے وکیل بنے رہے .
آپ کے تلمیذ خاص الشیخ محمد سلیم حفظه الله آپ کراچی ارقام فرماتے ہیں :
( کتاب کا نام ہے ” مواھب الوفي في مناقب الشافعي ”
اس کا مقدمہ استاذ گرامی نے ایک نشست میں لکھا تھا جس میں کتابیں حوالے کے لئے منگوا منگوا کر تھکا دیا تھا.
میں جب ایک عالم سے ملنے جا رہا تھا تو یہ کتاب استاذ محترم رحمہ اللہ نے مجھے انہیں دینے کے لئے دی تو انہوں نے استاذ گرامی کی تحریر دیکھی تو فورا کہا کہ یہ ربانی صاحب نے کس سے لکھوائی ہے؟
میں نے عرض کیا کہ استاذ محترم رحمہ اللہ نے.
تو کہا کہ ان کی عربی اتنی اچھی نہیں انہیں کہاں عربی لکھنا آتی ہے.
میں حیران رہ گیا کہ یہ کس طرح انکار کر رہے ہیں جبکہ یہ تحریر میری موجودگی میں استاذی الکریم نے خود لکھی ہے.
میں نے کہا کہ شیخ صاحب استاذ گرامی نے یہ میرے سامنے لکھی ہے، لیکن وہ ماننے کو تیار ہی نہیں.
اس وقت مجھے سمجھ آئی
المعاصرۃ اصل المنافرۃ )
امام البانی رحمه الله کے بھی بہت بڑے مداح تھے ، ان سے ایک حدیث کی تصحیح نقل کر کے اسی کتاب کے صفحہ ١٠ پر ارقام فرماتے ہیں ” صححه إمام العصر محدث ديار الشام مجدد تلدين و الملة السيف الصارم المسلول على الملحدين و المبتدعين و القبوريين فريد دهره العلامة الفقيه محمد ناصر الدين الألباني رحمه الله الف الف مرة بعدد كل ذرة الى يوم فرقة و حرة …
عصر حاضر کے امام ارشاد الحق أثري حفظه الله ورعاه کے سامنے بچوں کی طرح بیٹھے ہوتے ، حافظ محمد شریف صاحب حفظه الله ورعاه کے ایسے مداح تھے کہ ایک مرتبہ آپ کے پاس جامعہ لاہور الاسلامیہ البیت العتیق کے مدیر ڈاکٹر حمزہ مدنی صاحب اور بعض اساتذہ تشریف لائے آنے کا مقصد یہ تھا کہ حمزہ صاحب جامعہ میں کلیہ حدیث کا اجراء کرنا چاہتے تھے اس کے نصاب کے حوالے سے راہ نمائی چاہتے تھے آپ نے ان کو فرمایا کہ خود سے کچھ کہنے بہتر ہے کہ ہم اس کے متعلق شیخ الحدیث حافظ محمد شریف صاحب حفظه الله ورعاه سے ملاقات کریں ۔۔
استاد محترم کی یاد میں (3)
استاذ گرامی الشيخ مفتي مبشر أحمد رباني رحمه الله رحمة واسعة کتابوں کے عاشق تھے ، میں نے ان کے پاس ایک کتاب عشاق الکتب بھی دیکھی جس کو گاہے بگاہے پڑھ کر کتاب کے متعلق اپنے جذبات کو جلا بخشتے رہتے تھے ، ان کے بیمار ہونے سے قبل ہم ایک سفر پر جا رہے تھے میں نے تصویر میں نظر آنے والی کتاب نکال کر ان کو دکھائی تو فورا مجھ سے لے لی اور فرمانے لگے آپ نئی خرید لینا ، جب بھی کوئی نئی کتاب دیکھتے سکون سے نہیں بیٹھتے تھے جب تک کہ اس کو حاصل نہ کر لیں ، ایک دفعہ عمرہ کرنے گئے تو وہاں مکتبات سے کتب کی خریداری شروع کر دی ، اتنے مگن ہوئے کہ واپسی کی ٹکٹ کے لیے بھی رقم باقی نہ رہی سب پیسے کتب کی خریداری پر لگا کر حرم میں پریشان بیٹھے اللہ تعالی کے حضور دست بدعا تھے کہ کوئی انتظام کر دے اتنے میں ایک بزرگ تشریف لائے جن کے ہاتھ میں ڈالروں سے بھری تھیلی تھی انہوں نے وہ تھیلی آپ کو پکڑا دی ، آپ نے ان ڈالروں کے متعلق پوچھا کہ یہ زکوة یا صدقہ تو نہیں تو بزرگ کہنے لگے نہیں جب میں عمرہ کرنے کے گھر سے نکلا تھا تو میری بیٹی نے مجھے یہ تھیلی تھماتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کسی معتمر کو ہدیة پیش کر دینا ۔
ایک مرتبہ ایک طالب علم کو حکم دیا کہ لائبریری میں فلاں جگہ سے اصول شاشی کا فلاں نسخہ اٹھا کر لاو وہ بیچارہ کافی دیر کتابیں ٹٹولتا رہا اس کو مطلوبہ کتاب نہیں ملی ، جب وہ واپس آیا تو آپ نے کچھ اس طرح سمجھایا ” مولوی صاحب لائبریری میں فلاں جگہ فلاں ریک کی فلاں جگہ کتاب پڑی ہے اس کے دائیں جانب فلاں اور بائیں جانب فلاں کتاب موجود ہے ” ۔
ایک مرتبہ اردو بازار سے کسی ساتھی کے ساتھ موٹرسائیکل پر کتب خرید کر آ رہے تھے ، استاذ گرامی پیچھے بیٹھے تھے اور دوسرے ساتھی موٹرسائیکل چلا رہے تھے وہ صاحب دوران ڈرائیونگ بات چیت کرنا شروع ہوگئے جب منزل پر پہنچے تو استاذ گرامی سے پوچھا پھر آپ کی کیا رائے ہے اس بارے میں استاذ مکرم کہنے لگے کس بارے میں تو ان صاحب نے حیرت و افسوس کے ملے جلے جذبات کا اظھار کیا کہ میں تو آپ کے ساتھ گفتگو کر رہا تھا لیکن آپ نہ جاننے کا اظھار فرما رہے ہیں تو آپ نے ان کو اپنے ہاتھ میں کتاب دکھاتے ہوئے فرمایا کہ میں تو اس کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا ۔
طلبہ سے کہتے تھے کہ اپنے جیب خرچ میں سے کرایہ علیحدہ کرنے کے بعد جو پیسے بچ جائیں ان کی کتب خریدا کرو یہ نہ سوچا کرو کہ پڑھی تو جاتی نہیں اتبی زیادہ خرید کر کیا کرنا فرماتے تھے خرید کر رکھ لینے کا یہ فائدہ کیا کم ہے کہ بوقت ضرورت کسی کے آگے کتاب کے لیےہاتھ پھیلانے نہ پڑیں ، ان کا خود کا بھی ایک عرصہ یہی معمول رہا تھا کہ مسجد میں امامت و خطابت کی ذمہ داری اور مریدکے تدریس کے فرائض سر انجام دیتے تھے ، جس کی وجہ سے آپ کی دو تخواہیں آتی تھی جن میں سے ایک محض کتب خریدنے کے لیے مختص کی ہوئی تھی ۔
آپ کی ہزاروں کتب پر مشتمل لائبریری کے متعلق آپ کا دعوی تھا کہ اس میں موجود تمام کتب میں نے پڑھ رکھی ہیں کوئی ایسی کتاب نہیں جس سے میں نے فوائد نہ حاصل کیے ہوں ، یہ دعوی سننے میں بہت عجیب لگتا ہے لیکن آپ کی لائبریری دیکھنے والے اس کی تصدیق کیے بغیر نہیں رہ سکتے ، استاذ گرامی لاہور میں الھدی انسٹیٹوٹ میں طالبات کو تدریس فرماتے تھے ایک دفعہ آپ کی طالبات نے لائبریری دیکھنے کی خواہش ظاھر کی جب وہ لائبریری میں آ گئیں تو ایک طالبہ نے سوال کیا کہ کیا آپ نے تمام کتب پڑھ رکھی ہیں ، آپ نے اثبات میں جواب دیا لیکن وہ ماننے کو تیار نہ تھی تو آپ نے فرمایا جاو لائبریری سے کوئی کتاب اٹھا لاو موصوفہ نے بہت محنت و کاوش سے ایک بالکل نئی کتاب نکالی اس کا خیال تھا کہ یہ نہیں پڑھی ہوگی جب استاذ گرامی نے کتاب کھول کر دکھائی تو ان کو یقین ہوگیا کہ واقعی آپ نے سب کتب سے استفادہ کیا ہوگا کیوں کہ اس بالکل نئی کتاب کے بھئ اولین صفحے پر نوٹس لگے ہوئے نظر آ رہے تھے ۔
أستاذي المكرم محمد يحي عارفي حفظه الله ورعاه بیان کرتے ہیں ” استاد محترم کی لائبریری جن دنوں مسجد ام القری سبز زار تھی وہاں لائبریری میں استاذ محترم نے ایک کارڈ لکھ کر آویزاں کر رکھا تھا
کتاب میری محبوبہ ہے
اور محبوبہ کسی کو ادھار نہیں دی جاتی ”
استاذی المکرم شیخ ندیم ظہیر حفظه الله کی روایت ہے ایک صاحب کے سامنے کسی بھی کتاب کا نام لیا جاتا تو وہ جھٹ سے کہ دیتے جی یہ بھی فقیر کی لائبریری میں موجود ہے ، استاذ گرامی مفتی مبشر احمد ربانی رحمة الله عليه کو کچھ شک سا گزرا تو آپ نے ایک بھری مجلس میں اپنے پاس سے سے ایک کتاب کا نام بنایا اور مصنف بھی اپنے ذہن میں تیار کر کے موصوف سے پوچھا کیا یہ کتاب آپ کے پاس ہے تو انہوں نے اپنی عادت کے مطابق جھٹ سے جواب دیا جی جی الحمدللہ یہ بھی ہے ۔۔۔ اور مجلس کشت زعفران بن گئی ۔۔
نوٹ : یہ تصویر رمضان المبارک سن ٢٠١٨ کی ہے جب میں نے استاذ مکرم کے پاس مرکز الحسن سبزہ زار میں دورہ تفسیر القرآن کیا تھا ، اس دورہ میں میں ممتاز درجے میں کامیاب ہوا جبکہ اس وقت شعبہ علوم اسلامیہ کیپہلی کلاس تین ماہ پڑھ کر بوجوہ مدرسہ چھوڑ دیا تھا ، اس وقت میرے ساتھ دورہ میں کثیر تعداد میں ایسے طلبہ بھی موجود تھے جو بڑے بڑے مدارس کے فضلاء تھے ، میرا ممتاز درجہ دیکھ خر استاذی المکرم بہت خوش ہوئے تھے ، خوشی کے آثار زیر نظر تصویر میں ان کے چہرے پر دیکھے جا سکتے ہیں ۔۔
رحمه الله رحمة واسعة
استاد محترم کی یاد میں (4)
امسال رمضان المبارک میں نماز تروایح اداء کرنے مرکز الحسن میں تشریف لاتے ، قاری صاحب قرآن پڑھتے آیات عذاب پر آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے اور آیات رحمت پر جھوم جھوم جاتے ، عموما مکمل تروایح قاری 1 کی اقتداء میں ہی اداء کرتے ، کبھی طبعیت ناساز ہوتی تو دو چار رکعات اداء کرکے مسجد سے متصل دفتر میں تشریف لے جاتے اور تلاعت قرآن مجید کی سماعت کرتے رہتے ، طلبہ آپ کی خدمت کرنے آجاتے تو ان کے ساتھ گپ شپ کرنے لگ جاتے ، بالآخر مجھے حکم دیتے اب ان سب نے خدمت کر لی ہے اب تمہاری باری ہے اور پھر میں کم از کم آدھا گھنٹہ تک ان کی خدمت کرتا ایک دو دفعہ میں نے چھٹی کر لی تو اگلے روز ملتے ہی دریافت فرمانے لگے کل کہاں تھے ۔۔۔؟
بسا اوقات وہ طلبہ کے ساتھ گفتگو میں مشغول ہوتے میں بھی قریب ہی کھڑا ہوجاتا مجھے دیکھ کر اپنے قدموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ” توں تے ایتھے بے جا توں کیوں کھڑا ایں ” تم کیوں کھڑے ہو تم بیٹھ کر پاوں دباو ۔۔
ہمارے لیے عید کا ساماں ہوتا جب وہ ناشتہ کرنے ہم طلبہ کے درمیان چٹائی پر بیٹھ جاتے ، متعدد مرتبہ ایسا ہوا کہ انہوں نے ہمارے ساتھ بیٹھ کر ناشتہ کیا ۔۔۔
کبھی کبھی ہم ان کو کچھ نہ کچھ کھانے پینے کی فرمائش کرتے فورا سے پہلے وہ اس کو پورا کر دیتے ، جیسے حقیقی والد اپنی اولاد کا خیال رکھتا ہے بالکل ویسے ہی ان کا رویہ ہوتا تھا ہمارے ساتھ ۔۔
عموما معاصر علماء و مناظرین ( الا من رحم اللہ ) اپنے موقف کے اثبات میں حوالہ جات بیان کرنے سے قبل اصل مصادر کی مراجعت کا اہتمام ضروری نہیں سمجھتے ایسے حضرات کو عموما مکھی پر مکھی مارنے سے خفت اٹھانا پڑتی ہے لیکن استاد محترم کی شان بہت بلند تھی ان کی تقریر دلائل و براھین سے مزین ہوتی تھی اور اس چیز کا خاص اہتمام کرتے تھے کہ جب تک اصل مصدر سے مطلوبہ مقام نہ دیکھ لیتے بات آگے بیان نہیں کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ ان کی تقاریر ہوں یا ان کی تصانیف ان میں موجود دلائل و براہین کی قطعیت پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا ، اس کی ایک مثال میں نے اس وقت دیکھی جب ہم منڈی صفدر آباد اور تاندلیانوالا سے استاد محترم کے ساتھ دو پروگراموں میں عقیدہ توحید اوت تعامل مع المشرکین سے متعلق استاد محترم کی دلائل و براہین سے مزین گفتگو سن کر واپس لاہور آ رہے تھے ، اس گفتگو میں شہر گوجراں والا کے اس شخص کا بھی رد تھا جس نے مشرک کی نماز جنازہ سے متعلق استاد محترم کے موقف پر نقد کرتے ہوئے نہایت توہین آمیز رویہ اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اس موقف کو فہم سلف صالحین سے متصادم قرار دے رکھا تھا ان صاحب کے شبہات سے بہت سے اہل حدیث نوجوان متاثر ہو چکے تھے اور توحید اور اہل توحید پر کھلے لفظوں میں طعن و تشنیع کرنے والے خبطی کے لیےدعائے مغفرت تو کیا اس کی نماز جنازہ میں شرکت کے اشتہار بھی چلا رہے تھے اس فتنے کے بروقت تدارک کے لیے استادمحترم نے متعدد پروگراموں میں توحید ، شرک ، اہل توحید اور اہل شرک کے مابین خط امتیاز کھینچنے کی خدمت انجام دی ، استاد محترم کو کسی صاحب نے حوالہ واٹس ایپ پر ارسال کیا جس میں گوجراں والا کے ان صاحب کے بر عکس سلف صالحین میں سے کسی کا قول منقول تھا ، استاد محترم نے وہ مجھے دکھایا تو میں نے عرض کی مجھے فارورڈ کیجئے ہم اس کو شیئر کردیتے ہیں لیکن آپ نے یہ کہتے ہوئے اس وقت فارورڈ کرنے سے انکار کردیا کہ ” جس کتاب سے یہ حوالہ نقل کیا گیا ہے ہماری لائبریری میں یہ کتاب موجود ہے ہم ابھی واپس جا کر اصل کتاب سے یہ حوالہ دیکھنے کے بعد ہی اس کو آگے شیئر کریں گے ” اور واقعی پھر ایسا ہی ہوا آپ نے جا کر اصل کتاب سے وہ حوالہ تلاش کرنے کے بعد ہی اس کو بیان فرمایا ۔۔
استاد محترم نیک لوگوں اور بالخصوص پریشان حال اہل علم کی بہت تکریم کرتے تھے ، جب میرے پاس دوسری مرتبہ جھنگ تشریف لائے تو خطاب سے واپس لاہور جاتے ہوئے ہمارے ساتھ دعوہ کے ایک معروف خطیب صاحب شامل قافلہ ہو گئے ، راستے میں کہیں ریفریشمنٹ کے لیے گاڑی روکی میں نے ڈرائیور سیف اللہ نے اور ایک ساتھی احمد مدنی نے اپنے خطیب صاحب اور استاد محترم کے لیے کچھ کھانے پینے کا سامان لے لیا ، لیکن ان اشیاء میں خطیب صاحب کی طبیعت کے موافق کچھ نہیں تھا آپ نے احمد مدنی کو حکم دیا ” شیخ مکرم کے ساتھ جاو اور جو چیز یہ کھانا پینا چاہیں لے آو یہ کہتے ہی خطیب صاحب کو بھی فرمایا کہ آپ نے بالکل بھی ہچکچانا نہیں ہے ” جب وہ دونوں چلے گئے تو ہم سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے ” یار یہ ماڑے بندے ہیں ان کا خیال کرنا چاہیے ہمیں یہ بیچارے بیمار بھی رہتے ہیں لیکن پھر بھی متعدد پروگراموں کرتے ہیں لیکن ان کے ساتھ تعاون نہیں ہوتا ، ہم سے حتی الوسع جو ہو سکے وہ کرنا چاہیے کیوں کہ یہ لوگ در اصل ہمارے سفیر ہیں ”
استغفار بہت کثرت سے کرتے تھے ، عبد منیب تھے ان شاء اللہ العزیز ، ایک دفعہ مجھے اور احمد مدنی رات ان کے گھر گزارنے کی سعادت حاصل ہوئی ، ہم استاد محترم کو داب رہے تھے کہ وہ سو گئے ، گہری نیند میں بھی ” استغفراللہ ، یا اللہ مینوں معاف کریں ، میری توبہ میرے اللہ ” کلمات زبان سے جاری تھے ۔۔
آعموما طلبہ کو سیر و تفریح کرواتے رہتے تھے ایک دفعہ آٹھ دس طلبہ کے ساتھ ناران کاغان کا سفر کیا طلبہ کا انتہائی معمولی کالمعدوم خرچہ ہونے دیا ( ایک طالب کے ذمے صرف 3500 خرچ آیا ) تین چار دن شمالی علاقہ جات گھومتے رہے بقیہ سارا خرچ اپنی جیب سے کیا ۔
طلبہ استاد محترم کے پاوں دابنا سعادت سمجھتے تھے لیکن جب کوئی حافظ یا قاری قرآن پاوں دابنے لگتا تو فرماتے مجھے حیاء آتی ہے جس کے سینے میں کلام اللہ محفوظ ہے وہ میرے پاوں دابے ۔
میرے پاس جب دوسری مرتبہ جھنگ تشریف لائے تو دل میں تکلیف شروع ہوگئی ادھر پروگرام کا وقت بھی قریب ہو رہا تھا میں نے عرض کی چھوڑیں پروگرام کو ہسپتال چلتے ہیں لیکن آپ نے اپنی تکلیف کی پرواہ کیے بغیر پروگرام میں شرکت فرمائی اور دو گھنٹے تھے روافض کو آڑے ہاتھوں لیا ، ذرا بھی محسوس نہیں ہو رہا تھا کہ کوئی تکلیف ہے ، ایسی شاندار دلائل سے مبرہن تقریر تھی کہ اس کا تذکرہ بہت عرصہ جھنگ شہر میں زبان زد عام رہا ۔۔
کچھ سال قبل مرکز ١٠٦ راوی روڈ میں تحفظ شعائر اسلام کانفرنس سے خطاب فرمایا ، میں خطاب سننے کے بعد جا کر ملا تو کہنے لگے ” پہلے ملدا یا کانفرنس چ نظر آ جاندا تے تینوں میں اپنے نال اسٹیج تے بٹھانا سی ” ۔۔
مجھے کہا کرتے تھے مولوی صاحب تسی بیت ماڑے او پانی زیادہ پیا کرو میرے ورگے ہو جاو گے ۔۔
رحمة الله عليه..
استاد محترم کی یاد میں (5)
ان کی یہ عادت تھی کہ وہ اپنے ہاں تشریف لانے والے مہمان اہل علم کی کتب کی صورت میں تحائف پیش کر کے ضیافت فرمایا کرتے تھے ، اس معاملے میں وہ بہت سخی تھے ۔
کتابیں جمع کرنے کا ذوق شوق اتنا تھا کہ جب کوئی معتقد پوچھ لیتا کہ کسی چیز کی ضرورت ہے تو بتائیں آپ فورا سے پہلے کسی کتاب کا کہ دیتے کہ اگر خدمت ہی کرنی یے تو یہ کتاب خرید دو ۔
قرآن مجید پڑھتے سنتے ہوئے آیات رحمت پر جھوم جھوم جاتے اور جب آیات عذاب سے گزرتے تو زار و قطار رونے لگتے ، عموما ان کے خطبہ جمعہ کے بعد نماز ان کے فرزند ارجمند حافظ حسن ربانی حفظہ اللہ پڑھاتے لیکن مجھے ایک اچھی طرح یاد ہے ایک دفعہ خود نماز پڑھانے کے لیے آگے ہو گئے ، ابھی پہلی ہی رکعت تھی سورة الفاتحة کے بعد ” الھکم التکاثر ” کی تلاوت کرتے ہی ہچکیاں بندھ گئیں ، کتنی ہی دیر یہی آیت بار بار تلاوت کرتے رہے خود بھی روتے رہے مقتدی حضرات کی آنکھیں بھی بہہ رہی تھیں ۔
اب تو حزبیت کا دور دورہ ہے لیکن استاد محترم ایک خاص تنظیم سے وابستہ ہونے کے باوجود مسلک اہل حدیث کے پہرے دار اور چوکیدار تھے ، جب مسلک بیان کرنا ہوتا ، مسلک پر مخالفین کے اعتراضات کا جواب دینا ہوتا وہ اس فریضہ کی تکمیل کے لیے بلا امتیاز جماعت ہر اہل حدیث کے لیے میسر ہوتے ۔
آج کل تو ہمارے مفتی حضرات اسوہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ بیوروکریٹک انداز میں عوام سے پیش آتے ہیں ، اس کے کیا نتائج ہیں یہ ہمارا موضوع بحث نہیں فقط اتنا بتانا ہے کہ استاد محترم تکلف و تصنع سے پاک تھے ، ان کو کوئی جب میسج یا کال کر کے مسئلہ دریافت کرتا وہ خندہ پیشانی سے پیش آتے اور سائل کو جب تک اطمینان نہ ہوجاتا تب تک سکون سے نہ بیٹھتے ، ہٹو بچو سے کا تو ان کے ہاں دور دور تک کوئی تصور نہیں تھا ، متعدد مرتبہ ایسا ہوا کہ کسی نے سر راہ مسئلہ پوچھ لیا اس کا مختصر جواب دیا لیکن سائل کے اطمینان قلب کی خاطر خود اس کا نمبر اپنی ڈائری یا فون میں لکھ لیتے اور فرصت میں اس کو کال کر کے تسلی و تشفی سے مسئلہ سمجھاتے ۔
کبھی ہم جیسا کوئی نالائق کسی مسئلہ میں راہنمائی چاہتا ہوتا تو اس کو مسئلہ بتانے کی بجائے موضوع سے متعلقہ کتب کی طرف راہنمائی فرمادیتے تاکہ طلبہ میں مطالعہ کا شوق پیدا ہو ۔
رحمة الله عليه…
استاد محترم کی یاد میں (6)
جب میرے ہاں پہلی مرتبہ جھنگ تشریف لائے اس وقت آپ نے مرکزیہ میں شمولیت اختیار کر لی ہوئی تھی ، میرے ایک عزیز جو کہ جماعت الدعوہ کے مسئول ہیں جیسا کہ مسئولین کی عادت ہے وہ زیتون کا تیل اٹھائے استاد محترم کی مالش کرنے آ بیٹھے ، گپ شپ کا دور چل رہا تھا موصوف استاد محترم سے پوچھنے لگے کہ شیخ مکرم سنا ہے آپ نے جماعت چھوڑ دی ہے ۔۔۔؟ فرمایا آپ کو کس نے کہا ۔۔؟ کہنے لگے خبریں آرہی ہیں آپ بھی مرکزیہ کے پروگرامز میں ہی دن رات شمولیت اختیار کررہے ہیں ۔۔۔؟ فرمانے لگے ” سلف صالحین میں سے کسی کا قول ” ایک جماعت جس منہج پر ہو پھر ایک وقت ایسا آئے کہ وہ اس سے ہٹ جائے لیکن آپ اسی منہج پر قائم رہو تو اس کا مطلب ہے اس جماعت نے علیحدگی اختیار کی ہے آپ نے نہیں ” سنانے کے بعد فرمایا ” آپ کا کل تک منہج دعوت و جہاد کا تھا جمہوریت کو آپ کف۔ر سمجھتے تھے لیکن اب آپ لوگ اس کے بالکل بر عکس چل رہے ہیں جب کہ میں اسی منہج پر آج بھی قائم ہوں تو اب فیصلہ خود کر لیں جماعت کس نے چھوڑی ہے ۔۔؟ یہ کراکرا جواب سننا ہی تھا کہ ہمارے اس عزیز کو اس موضوع پر مزید گفتگو کرنے کی جرأت نہیں ہوئی ۔۔
اپنے معاصر اہل علم کے ساتھ ہمیشہ مبنی بر خیرخواہی اور ناصحانہ رویہ رکھتے تھے ، معاصرین کے علمی و تحقیقی کاموں میں بتقاضائے بشریت ہوجانے والی فروگزاشتوں کو موضوع سخن بنا کر اپنی تحقیق کا سکا منوانے کا شوق نہیں تھا ، محدث العصر الشیخ زبیر علی زئی رحمة الله عليه نے سنن ابي داود کی تحقیق کر کے مسودہ استاد محترم کو ارسال کیا کہ وہ اگر کہیں سقم دیکھیں تو نشاندہی فرمادیں ، استاد محترم نے اس کا جائزہ لیا تو بہت سے مقامات پر تحفظات پیش کیے ، استاد محترم کے ملاحظات ایک مستقل کتاب کی شکل اختیار کر گئے ، آپ نے وہ تمام مسودے جن پر اپنے ملاحظات لکھے تھے شیخ زبیر علی زئی رحمة الله عليه کو ارسال فرمادیے اور ان ہی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیے جبکہ اپنے پاس ان کی کوئی فوٹو کاپی تک نہ رکھی ۔
جب ان پر فالج کا حملہ ہوا اس وقت میں مرکز انس بن مالک میں زیر تعلیم تھا ، ابتداء میں تو کافی دن ان کے پاس خادم بن کر گزارے ، پڑھائی کا سلسلہ بھی جاری تھا تو بعد میں اپنا معمول یہ بنا لیا کہ ہر دوسرے روز کلاس پڑھ کر مرکز انس بن مالک پاکستان منٹ سٹاپ سے مرکز الحسن سبزہ زار جاتا تھا ، جون جولائی کے مہینوں میں بھی یہی معمول رہا ، آدھا سفر تو اورنج لائن میٹرو پر با آسانی گزر جاتا لیکن کھاڑک نالے سے مرلز تک دو تین کلومیٹر سفر پیدل طے کرتا ، ان کے پاس پہنچتا عموما عصر کی نماز پڑھ کر ملاقات ہوتی تھی جو مغرب سے کچھ دیر پہلے تک جاری رہتی ، میں احمد مدنی اور سیف اللہ ڈرائیور بیٹھے ان کی خدمت بھی کرتے اور دیر تک گپ شپ بھی ہوتی ، ہم ان کع خوب ہنساتے تھے وہ بہت خوش ہوتے تھے ہمارے ساتھ بیٹھ کر ، ایک دن مرکز کے کسی ملازم نے مجھے کہ دیا کہ تم تو مرکز میں پڑھتے بھی نہیں تو ہر دوسرے روز یہاں کیا کرنے آجاتے ہو میں نے جب یہ بات جا کر استاد محترم کو بتائی تو ان کے چہرے پر ناگواری کے آثار ابھر آئے فرمانے لگے ” اس کو جا کر کہ دینا میں اپنے ابو کے پاس آتا ہوں تمہیں زیادہ تکلیف ہے تو جا کر ان سے بات کر لو ” ۔۔
اسی لیے میں تو اب خود کو دوہرا یتیم کہتا ہوتا ہوں ۔۔
جب جامعہ اثریہ جہلم میں زیر تعلیم تھے چھٹیوں کے ایام میں گاوں جا کر لوگوں کے گھروں میں جا کر چارپائی بننے کا کام بھی کرتے تھے ، ایک مرتبہ شیعہ مسلک کے حاملین کے گھر گئے ، چارپائی بن رہے تھے کہ اس گھر کی بزرگ خاتون نے قرآن مجید کی آیت ” و ان من شیعته لابراھیم ” سے شیعہ مسلک کا ابراھیمی ہونا ثابت کرنا چاہا تو آپ نے فورا بزرگ خاتون کو آیت ” ان فرعون علا فی الارض و جعل اھلا شیعا ” پڑھ کر ترجمہ سنایا اور جو ابراھیم علیہ السلام کو شیعہ بتا رہی تھی اس کو شعیہ مسلک کے بانی کا تعارف کروایا تو وہ خاتون ” فبھت الذی کفر ” کا مصداق بن کر رہ گئی ۔
علم نحو و صرف کی تدریس کا فریضہ سر انجام دینے والے معلمین کو ہمیشہ یہ نصیحت کرتے تھے کہ طلبہ کو امثلہ قرآن و حدیث سے ازبر کروائیں اور بالخصوص وہ نصوص جن کا تعلق اہل حدیث کے امتیازی مسائل سے ہے ، مثلا لائے نفی جنس کی مثال ” لا صلاة لمن کم یقرأ بفاتحة الكتاب ” و علی ھذا القیاس ۔
ایک دن مکتبہ قدوسیہ اردو بازار لاہور سے کتب کی خریداری کر کے موٹرسائیکل پر سوار ہو کر گھر کو روانہ ہو رہے تھے ، مکتبے کے اندر مولانا حافظ عبداللہ شیخوپوری رحمه الله کو مخاطب کرتے ہوئے محترم ابوبکر قدوسی حفظه الله نے استاد محترم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا یہ وہی نوجوان ہے جس کی کتاب ” کلمه گو مشرک ” کو آج کل شہرت حاصل ہے ، مولانا مرحوم نے قدوسی صاحب کو حکم دیا اس نوجوان کو اندر بلاو ، جب استاد محترم مکتبے میں تشریف لے گئے تو مولانا نے آپ کے ماتھے کا بوسہ لیتے ہوئے فرمایا ” کاکا ۔۔۔! جس توحید کے لیے میں نے پوری زندگی وقف کیے رکھے اور اس کو بیان کرتا رہا اور ماریں کھاتا رہا تم نے اس موضوع کو لکھ کر مجھے اپنا مقروض کر لیا ہے ” بعد ازاں مولانا مرحوم کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے استاد محترم نے عقیدے کے موضوع پر بہت سی کتب کا ان کو بتایا جو مولانا مرحوم نے کھڑے پاوں ہی خرید لیں ۔۔
رحمه الله رحمة واسعة…
استاد محترم کی یاد میں (7) ( مرض سے وفات تک )
مرکزیہ کے نظم سے وابستگی کے بعد دعوتی پروگراموں میں آنا جانا تیز ہوگیا ، ایک دن میں دو دو پروگرام بھی ہونے لگے کئی قسم کی بیماریوں کے باوجود لمبے لمبے اسفار کرنے لگے تھے آرام اور خوراک کا تو بالکل بھی خیال نہیں رہا تھا جس کی وجہ سے صحت متاثر ہونے لگی تھی ٢٥ دسمبر ٢٠٢٠ بروز جمعہ طبیعت کافی ناساز رہی ، جمعہ کا خطبہ بھی نہیں دے سکے ، اگلے ہی دن ٢٦ دسمبر بروز ہفتہ صبح ٩ اور ١٠ بجے کے درمیان نماز اشراق اداء کرنے کے لیے وضو کررہے تھے کہ فالج کا حملہ ہوگیا ، آپ کو فورا ہسپتال پہنچایا گیا ، کچھ دن ہسپتال زیر علاج رہنے کے بعد آپ کو گھر لایا گیا ، ابتداء کچھ ماہ این بلاک سبزہ زار والے گھر میں گزارے کہ ماہ رمضان المبارک کی آمد ہوگئی ، آپ نے این بلاک مرکز الحسن سے متصل گھر قیام کرنے کی خواہش صرف اس لیے ظاھر کی کہ وہاں سے روزانہ مسجد میں نماز تراویح پڑھنے کی سہولت ہوگی ، آپ نے بیماری سے وفات تک چار مرتبہ ماہ رمضان المبارک پایا اور ان میں آپ کا معمول رہا کہ نماز عشاء پڑھنے طلبہ و خدام کے سہارے گھر سے مسجد تشریف لے آتے اور مکمل نماز تراویح پڑھ کر واپس تشریف لے جاتے ، ایک رمضان المبارک جب صحت زیادہ خراب تھی آپ نے اپنی رہائش کا بندوبست ہی مسجد سے متصل ایک بڑے ہال نما کمرے میں کر لیا تھا ، اگر کبھی کسی سبب نماز تروایح پڑھنے کے لیے مسجد میں نہیں آیا جاتا تو مسجد سے متصل اپنی اقامت گاہ کی کھڑکیاں کھول کر وہیں ویل چیئر پر بیٹھ کر جماعت میں شریک ہوجاتے ، عام صلوة پنجگانہ کا بھی اسی طرح اہتمام کرتے تھے ، اگر کبھی مسجد میں آئے لیکن دوران تراویح طبیعت خراب ہونے لگتی تو مسجد سے متصل دار الافتاء کے لیے مختص کمرے میں تشریف لے جاتے دروازہ کھول کر اندر بیٹھ جاتے اور قرآن مجید کی تلاوت سماعت کرتے رہتے ، آیات عذاب پر آنکھیں بھرا جاتیں اور رب العرش العظیم سے عذاب و عقاب سے پناہ مانگتے اور جب قاری آیات رحمت تلاوت کرتا تو جھوم جھوم جاتے ، چہرہ روشن ہوجاتا آنکھوں میں خوشی کی لہر چمک پیدا کر دیتی ، اس جان لیوا بیماری کی حالت میں بھی اپنی اور دوسروں کی اصلاح کرتے رہتے ، آپ نے بیماری کے دوران جتنے بھی دروس ارشاد فرمائے سب میں کتاب و سنت تھامے رکھنے کی تاکید کرتے دکھائی دیتے ہیں ، کبھی کبھی اپنے مرکز الحسن میں ہی درس ارشاد فرمانے آجاتے تھے ، بیماری کے باوجود زبان پر ہر لمحہ ذکر الہی جاری رکھتے ، حمد و تسبیح کے کلمات سے ان کی زبان تر رہتی ، عیادت کرنے والوں کے سامنے زبان سے ایک حرف شکایت تک نہ اداء کرتے ، بیماری کے دوران آپ کو ایک کالعدم تنظیم کے گماشتوں کی طرف سے جس اذیت کا سامنا کرنا پڑا اس نے آپ کا وفات تک ساتھ نہ چھوڑا لیکن آپ ان شر پسند عناصر کے سامنے سینہ سپر رہے لیکن بالآخر یہ احساس فراموش قوم نے آپ کی وفات کے ساتھ اک اور مسجد و مدرسہ فتح کرجےبمیں کامیاب رہی ، ٣ مئی سن ٢٠٢٤ کو ان شر پسند عناصر کی شرارت کے باعث ادارے کو کئی قسم کے خطرات لاحق ہونے کا خدشہ ظاہر ہوا جس کے سبب آپ کی تکلیف اور پریشانی میں اضافہ ہوا اگلے روز نماز ظھر اداء کرنے کے لیے مسجد میں تشریف لائے ابھی دوسری ہی صف میں پہنچے تھے کہ دل کا دورہ پڑا اور پلک جھپکتے ہی آپ نے جان جان آفریں کے سپرد کرکے اس جہان ہست و بود سے یوں منہ موڑا کہ اک عھد تمام ہوا ، ہزاروں طلبة العلم ایک عظیم مربی استاذ اور روحانی والد سے محروم ہوگئے ، آپ کی وفات کی خبر سنتے ہی تمام عالم اسلام میں اور بالخصوص پاکستان کے سلفی حضرات میں عپم و عمل کا ایک آفتاب غروب ہو جانے پر صف ماتم بچھ گئی حتی کہ غزہ فلسطین سے بھی تعزیتی پیغام موصول ہقئے ۔۔۔
رب العرش العظیم سے دعا ہے کہ وہ اپنے اس بندے کی جو ساری زندگی توحید و سنت کا پرچار کرتا رہا اور بالآخر دربار الہی میں جبین نیاز جھکانے آتا ہوا داعی اجل کو لبیک کہتا اپنے خالق حقیقی کے حضور جا پہنچا ہے اپنے خصوصی فضل و کرم سے معاف فرمائے ، حسنات قبول فرمائے ، اولاد اور تلامذہ کی صورت میں اس کے لیے تا قیام قیامت صدقہ جاریہ کا انتظام فرمائے اور اس بندے کی خواہش کو پورا کرتے ہوئے انبیاء صدیقین شہداء و صالحین کے زمرے میں جگہ عطاء فرمائے ، آمین ثم آمین یا رب العرش العظیم ۔
رانا عبداللہ مرتضی السلفی