مدارس دینیہ کے اصحاب کے لیے

بر صغیر کے علماء نے بڑی محنت اور سوچ بچار کے بعد درسِ نظامی کا نصاب مقرر کیا جو اس دور کے حالات کو مد نظر رکھ کر ترتیب دیا گیا
بلاشبہ اس نصاب کو پڑھ کر بہت ہی قابل علماء و فضلاء کی جماعت تیار ہوتی رہی ہے اور الحمد للہ ہنوز یہ سلسلہ کسی نہ کسی حد تک جاری ہے
زمانہ کی ضروریات اور فتن کو مد نظر رکھ کر اس نصاب میں تبدیلی بھی کی جاتی رہی ہے ، حک و اضافہ چلتا رہا ہے
علماء مے جب انگریزی زبان کی ضرورت محسوس کی تو اپنے مدارس میں انگریزی زبان کی تعلیم کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ، جیسا کہ ابو محمد ابراہیم آروی رحمہ اللہ نے اپنے مدرسے میں کیا ، یہ بڑے سلجھے ہوے دور اندیش عالم تھے
کمپیوٹر آیا تو بہت سے مدارس میں کمپیوٹر لیبز بھی بنا لی گئیں تاکہ طلبہ کمپیوٹر سے فائدہ اٹھانا اور دینی خدمات کے لیے اسے استعمال کرنا بھی جان سکیں
تو الحمد للہ اس حوالے سے جمود نہیں رہا
درس نظامی کے نصاب سے پہلے بھی درسی کتب میں بہر حال طلبہ ایک کتاب اور ایک نصاب سے ہی صدیوں جڑے نہیں رہتے تھے جیسا کہ پرانے جامعات جامعہ ازہر اور مدرسہ نظامیہ اور دیگر مدارس اسلامیہ کے میں پڑھی جانی والی کتب سے واضح ہے
ہمیں ابھی یہ عرض کرنا ہے کہ فی زمانہ بھی الحمد للہ سنجیدگی سے مختلف جامعات ومدارس میں اپنے نصاب کو بہتر بنانے کی کوشش و سعی جاری ہے
لیکن بہت سے مواد ایسے ہیں جن کی تدریس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی باوجود اس کے کہ ان کی ضرورت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے
اہل حدیث مدارس میں فکر اہل حدیث اور تاریخ اہل حدیث پر کوئی مستقل مادہ موجود نہیں ، جس کی وجہ سے طلبہ کی اس حوالے سے مضبوط بنیاد نہیں ہوتی، فکر اور تاریخ کے بہت سے پہلو ان سے اوجھل ہوتے ہیں
وفاق المدارس السلفیہ نے اب جا کر ایک کتاب بر صغیر میں تاریخ اہل حدیث پر لکھوائی ہے لیکن میری رائے میں یہ کتاب ناکافی ہے ، نصاب میں جن چیزوں کو مد نظر رکھاجاتا ہے مواد کے لحاظ سے کتاب ان چیزوں میں سے متعدد چیزوں سے خالی ہے ، اور نصابی اسلوب نہ ہونا اس پر مستزاد، اگرچہ اس کے مؤلف تاریخ اہل حدیث پر بہت گہری نظر رکھتے ہیں
مسلمانوں کا فکری اغوا کرنے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں لیکن اس موضوع پر ہماری مدارس میں کوئی مواد نہیں پڑھایا جاتا
دیوبند کے بعض مدارس میں یہ مادہ داخل نصاب ہے اس پر مفتی اسماعیلںریحان صاحب نے ایک کتاب بھی نصاب کے لیے لکھی ہے
اہل حدیث مدارس میں ایسا کوئی مواد نہیں
مدارس میں تعارف مذاھب اربعہ پر کوئی مادہ موجود نہیں
جس میں مذاھب اربعہ کی نشأت، معروف کتب، معتمد متون ، معروف شخصیات اور اصطلاحات کا تعارف کروایا جاتا ہو
یہ درست ہے کہ فکری لحاظ سے مذاھب اربعہ کی تقلید پر کوئی دلیل موجود نہیں ، نہ ہی حق ان میں محصور ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ طلبہ کو ان کا تعارف نہ کرایا جائے اور ان سے استفادے کا طریقہ نہ سکھایا جائے
فکری مذاھب بڑی تیزی سے ہمارے گرد پھیل رہے ہیں ، بلکہ پھیل چکے ہیں ، الحاد ، سیکولرازم ، فینمزازم ، ڈارون ازم , لبرل ازم وغیرہ کہاں تک پہنچ چکا ہے ، لیکن ہمارے جامعات میں اس پر کوئی مستقل مادہ موجود نہیں
حالانکہ ان سب کا تعلق عقیدے کے ساتھ ہے
عقیدہ طحاویہ کی طرز پر ایک متن ایسا تیار کرنا چاہیے جس میں ان فکری مذاھب کی بھی تردید ہو (اس پر میں نے ایک متن تیار کیا ہے جو ان شاء اللہ عن قریب طبع ہو جائے گا)
در حقیقت فکری مذاھب پر مستقل مادہ موجود ہونا چاہیے، یہ از حد ضروری ہے
ایک ایسی ٹیم ہونی چاہیے جو نصابی کتب کے لکھنے میں ماہر ہو ، نصابی کتاب ضرورت، اور اہلیت کو مد نظر رکھ کر خود سے تیار کی جائے
تاریخ پر ہمارے مدارس میں جو کتاب پڑھائی جاتی ہے وہ بہت ہی ناقص ہے
متأخر ادوار کی تاریخ کا مواد تو بہت ہی کم ہے ، اموی خلافت تک یا حد عباسی خلافت تک مؤلفین کا عموما زور ہوتا ہے ، اس کے بعد کی تاریخ بس خانہ پوری کے لیے ہوتی ہے
جب کہ تاریخ کا مادہ بہت ہی اہم ہے، بالخصوص صلیبی جنگیں، تاتاری حملے اور اس کے بعد عثمانی خلافت ٹوٹنے کے مراحل اور دنیا میں آنے والی تبدیلی ، ابھرنے والےممالک ، استعمار اور اس کے خلاف جنگیں
یہ سب ہمارے مدارس میں نہیں پڑھائے جاتے، جس امت کے بیٹوں کو ان کے ماضی سے توڑ دیا جائے ، اپنوں کے فضائل اور غیروں کی سازشیں اور طریقہ واردات بھلا دیا جائے وہ کب خواب غفلت سے بیدار ہوگی
استشراق اور مستشرقین کے حوالے سے کوئی نوٹس یا کوئی مختصر کتاب تک بھی ہمارے مدارس میں نہیں پڑھائی جاتی
بعض مدارس بجائے اس کے کہ درس نظامی کے نصاب پر باقی رہتے ان کا معیار مزید نیچے آ گیا اور وفاق کے تحت اپنا نصاب لے آئے
نہ بیان و بلاغہ ، نہ منطق و ھیئت نہ جغرافیہ و ریاضی ! ان سب کو تو ویسے ہی فارغ کر دیا گیا
وفاق المدارس کا نصاب اپنی جگہ اہم ہے ، لیکن درس نظامی کے طلبہ کو پڑھانے والا نہیں ، اس نصاب سے ان کہ علمی تأصیل اچھی نہیں ہو سکتی
ہمارے مجیز شیخ رفیق اثری رحمہ اللہ سے میں نے مدینہ منورہ میں ملاقات پر اس حوالے سے بات کی تو انھوں نے بھی وفاق کے نصاب کے حوالے سے اسی سے ملتی جلتی بات کی
اس کے علاوہ متعدد مضامین ایسے ہیں جن پر مستقل مادہ ہونا چاہیے ، لیکن توجہ نہیں کی جارہی
یہ اعتراض نہیں کیا کا سکتا کہ اتنا مواد 7, 8 سال میں پڑھانا ممکن نہیں
اس لیے کہ اس کا حل بہت آسان ہے
1 _ ہفتے میں دنوں کا تقسیم کیا جا سکتا ہے، مثلا 2 دن تعارف مذاھب اور باقی 3 دن ہدایہ
2 _ نصاب خود مرتب کروائیں اور ضروری مباحث شامل کریں ، سمجھداری سے نصاب مرتب کیا ہو تو مختصر کتابچے میں بھی بہت کچھ جمع ہو جاتا ہے
میری اس ساری گزارش کو تنقید نہ سمجھا جائے ، بس ایک ناصحانہ صدا کی بازگشت اور الم کے اظہار کے سوا کچھ نہیں
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات

(موھب الرحیم)

یہ بھی پڑھیں: کیا مدارس میں دنیاوی علوم ہونے چاہیئیں ؟