محرم الحرام میں علمائے کرام کے بیانات کا خلاصہ

محرم الحرام میں علمائے کرام کے بیانات اور تحریروں کا خلاصہ۔۔۔ 10 اہم نکات کی صورت میں۔
1:- سیدنا حسینؓ اور یزید کا نہ کوئی تقابل ہے نہ مقابلہ۔کیونکہ صحابی رسول پر کسی کو قیاس نہیں کیا جا سکتا۔سیدنا حسین ؓ نواسہ رسول ہیں رسولﷺ کی گود میں پرورش پانے والے پیارے صحابی ہیں۔ جنتی نوجوانوں کے سردار ہونے کا شرف ان کو حاصل ہے۔ کوئی غیر صحابی اپنے کمالات اور فضائل کے باوجود ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔
2:-یزید پر فسق و فجور اور کبائر کے ارتکاب کے الزامات کے باوجود کسی نے اسے ایمان سے خارج نہیں کیا.

“ربنا اغفر لنا ولاخواننا الذين سبقونا بالايمان”

کے تحت ہر مسلمان کے لیے دعائے مغفرت کی جا سکتی ہے۔
3:- یزید کا سیدنا حسین ؓ کے قتل میں شریک ہونا، حکم دینا اور راضی ہونا قطعاً ثابت نہیں۔
4:- سیدنا حسین ؓ کی طرف خروج یا قتال کے لیے نکلنے کی نسبت کرنا ظلم اور نا انصافی ہے۔
5:-دراصل سیدنا حسین ؓ کو وفاداری کا یقین دلا کر بلایا گیا اور دھوکے سےکربلا میں روک کر شہید کر دیا گیا۔
6:- آپ کو بلانے کے لیے لکھے گئے خطوط کی تعداد 12 ہزار بیان کی جاتی ہے۔
7:- آپ کو یزید کے پاس جانے سے روک کر راستے میں شہید کرانے کے پیچھے بڑی وجہ وہ خطوط تھے جن سے سازشی عناصر کے نام بے نقاب ہونے سے انہیں اپنی موت نظر آرہی تھی۔ کربلا میں خیموں کو جلا دینے کی کہانی کے پیچھے بھی انہی ثبوتوں کو ختم کرنے کی کوشش کار فرما نظر آتی ہے۔
8:-اس المناک سانحہ کے پیچھے دراصل وہ سازشی عناصر کار فرما تھے جنہوں نے سیدنا عمر فاروق ؓ کو ایران کی فتح کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے شہید کرنے کی سازش کی، سیدنا عثمان ؓ کو شہید کیا، سیدنا علی ؓ کو وفاداری کا وعدہ کرتے ہوئے کوفہ منتقل کیا اور پھر انہیں شہید کر دیا، سیدنا حسن ؓ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق سیدنا امیر معاویہ ؓ کے ساتھ صلح کرنے پر ناراضگی کا اظہار کیا، “یا مذل المسلمین” کہہ کر مخاطب کیا، راستے میں قاتلانہ حملہ کیا اور بعد ازاں زہر دے کر شہید کیا اور آج تک ماتم داری اور عزاداری میں ان کا ذکر نہ کر کے بغض کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
9:-یزید کے خلاف منظم منصوبہ بندی سے بدنام کرنے کی مہم جوئی دراصل سیدنا امیر معاویہ ؓ کو متہم کرنے کی سازش ہے کہ انہوں نے (ان کے بقول “فاسق، فاجر، کبائر کے مرتکب، تارکِ صلوٰۃ اور متبع شہوات”) بیٹے کو خلافت سونپ دی۔اس طرح اس دروازے سے گزر کر سیدنا امیر معاویہ ؓ پر سب و شتم کی راہ ہموار کی گئی اور سیدنا امیر معاویہ ؓ سے آگے گزر کر خلفائے ثلاثہ اور دیگر کبار صحابہ کے خلاف محاذ آرائی کی گئی۔
10:- یزید کا قسطنطنیہ پر حملہ آور جیش مغفور لھم میں شریک ہونا ثابت ہے۔( اختلاف پہلے یا دوسرے معرکہ میں ہے). اسی معرکہ میں سیدنا ابو ایوب انصاری ؓ شریک تھے وہ اسی معرکہ میں وفات پا گئے تو بطور امیر لشکر ان کی نمازِ جنازہ یزید نے پڑھائی۔ معرکے میں شریک بہت سے صحابہ ؓ نے ان کی اقتدا میں نماز جنازہ پڑھی۔
تلک عشرۃ کاملۃ ۔۔۔
سیدنا حسین ؓ اور دیگر صحابہ کرام و اہل بیت سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ ان کی طرف اٹھنے والی ہر میلی آنکھ پر ملامت کرتے ہیں۔ لاکھوں یزید سیدنا حسین ؓ کے قدموں کی خاک کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
صحابی اور غیر صحابی کا تقابل کرنا ہی غلط ہے۔ جیسا کہ امام معافی رحمہ اللہ بن عمران کا فرمان ہے:

“لایقاس بأصحاب محمدﷺ أحد”،

“محمد رسول اللہ ﷺ کے صحابہؓ کے مقابلے میں کسی کو قیاس نہ کیا جائے”۔
اہل سنت یزید کے معاملہ میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے مسلک “لا نحبہ ولا نسبہ”(نہ محبت کرتے ہیں اور نہ ہی گالی گلوچ اور لعن طعن کرتے ہیں) پر ہیں۔
ہماری محبت سیدنا حسین ؓ کے ساتھ ہے مگر یاد رکھیں اس محبت کی آڑ میں یزید کو برا بھلا کہہ کر سیدنا امیر معاویہ ؓ اور دیگر صحابہ کرام پر تنقید اور تنقیص ہرگز روا نہیں۔ اللہ تعالی ہمیں صراط مستقیم کی ہدایت دے اور اس پر گامزن رکھے آمین ثم آمین۔

✍️ عبدالرحمٰن سعیدی

یہ بھی پڑھیں: ’’اہلِ بدعت کے بارے میں امام فضیل بن عیاض رحمہ اللہ (١٨٧هـ) کے چند اقوال‘‘