سوال
حدیث کا انکار کرنے والا کون ہے؟ حدیث کا انکار کرنے کا حکم کیا ہے؟ حدیث کے انکار کرنے والوں کے بارے میں اہل السنۃ والجماعۃ کا کیا موقف ہے؟
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں صرف قرآن کو ماننا چاہیے اور حدیث کو نہیں ماننا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ حدیث انسان کی تخلیق ہے۔ وہ حدیث کو نظر انداز کر کے قرآن پر عمل کرنے کا دعوی کرتے ہیں۔ ایسے حدیث کا انکار کرنے والوں کے بارے میں اہل السنۃ والجماعۃ کا کیا موقف ہوگا؟
غلام پرویز اور جاوید احمد غامدی کے بارے میں پاکستان کے اہل حدیث یا سلفیوں کا نقطہ نظر کیا ہے؟
ہم اس معاملے پر سلفی علماء کا فتویٰ چاہتے ہیں۔ ہم اس فتوے کو حدیث کے انکار کرنے والوں کے بارے میں اپنی ایک بنگلہ زبان میں لکھی ہوئی کتاب میں شامل کریں گے۔
(بنگلہ دیش سے استفتاء بنام لجنۃ العلماء للإفتاء )
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
مسلمان ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے بعد آپ پر نازل ہونے والی وحی پر ایمان لانا بھی ضروی ہے، وحی میں قرآن اور حدیثِ رسول دونوں شامل ہیں۔
حجیتِ حدیث پر بے شمار دلائل موجود ہیں، چند ایک درج ذیل ہیں!
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
“وَمَاۤ اٰتٰٮكُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهٰٮكُمۡ عَنۡهُ فَانْتَهُوۡا ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ، اِنَّ اللّٰهَ شَدِيۡدُ الۡعِقَابِ”.]الحشر: 07]
’’رسول تمہیں جو کچھ دے تو وہ لے لو اور جس سے تمہیں روک دے تو رک جاؤ اور اللہ سے ڈرو، یقینا اللہ بہت سخت سزا دینے والا ہے‘‘۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی اطاعت کی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری کو لازم قرار دیتے ہوئے فرمایا:
“يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِيۡعُوا اللّٰهَ وَاَطِيۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَلَا تُبۡطِلُوۡۤا اَعۡمَالَـكُمۡ”. [محمد: 33]
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا حکم مانو اور اس رسول کا حکم مانو اور اپنے اعمال باطل مت کرو‘‘۔
حدیثِ رسول قرآن کا بیان ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کی حفاظت اپنے ذمے لی ہے۔
“اِنَّ عَلَيۡنَا جَمۡعَه وَقُرۡاٰنَه۞ فَاِذَا قَرَاۡنٰهُ فَاتَّبِعۡ قُرۡاٰنَه ۞ثُمَّ اِنَّ عَلَيۡنَا بَيَانَه”. [القيامة: 17، 18، 19]
’’بلاشبہ اس کوجمع کرنا اور (آپ کا ) اس کو پڑھنا ہمارے ذمے ہے، تو جب ہم اسے پڑھیں تو تو اس کے پڑھنے کی پیروی کر، پھر بلاشبہ اس کا بیان اور وضاحت ہمارے ذمے ہے‘‘۔
یہ بیان (حدیث) بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اس کی حفاظت بھی اللہ نے اپنے ذمے لی ہے، حدیث قرآن کا بیان اور وضاحت اس طرح ہے کہ جیسے قرآن میں حکم ہے:
“وَاَقِيۡمُوا الصَّلٰوةَ”. [البقرة: 110]
’’اور نماز قائم کرو‘‘۔
اب نماز کے اوقات کیا ہیں؟ نماز کا طریقہ کیا ہے؟ یہ سب کس طرح پتہ چلے گا؟ یقینا ہر چیز کی تفصیل اور وضاحت احادیث میں موجود ہے قرآن کریم میں تو محض حکم ہے۔
اسی طرح قرآن کریم میں دوسری جگہ حکم ہے۔
“وَاٰتُوا الزَّکٰوةَ”. [البقرة: 110]
’’اور زکوٰۃ دو‘‘
زکوۃ کا نصاب کیا ہے؟ زرعی زکوۃ، نقدی کی زکوۃ اور حیوانات وغیرہ کی زکوۃ یہ تمام چیزیں اور ان میں زکوۃ کی تفصیل قرآن میں نہیں ہے۔
اسکی وضاحت پھر حدیث میں آئی ہے کہ قرآن کے زکوۃ کے حکم میں زرعی زکوۃ بھی ہے، حیوانات کی زکوۃ بھی ہے، نقدی کی زکوۃ بھی ہے۔ اسی طرح کتنی نقدی پر کتنی زکوۃ ہے؟ کتنے حیوانات پر کتنے حیوانوں کو بطور زکوۃ دینا پڑتا ہے، کتنی پیداوار جو زمین پر اگنے والی ہے اس میں سے ہم نے کتنی زکوۃ دینی ہے؟ یہ ساری کی ساری چیزیں بھی حدیث سے ہمیں پتہ چلتا ہے اسی طرح قرآن کریم میں جہاں محرمات کا بیان ہے، وہاں آخر میں یہ بات ہے:
“وَاُحِلَّ لَـكُمۡ مَّا وَرَآءَ ذٰ لِكُمۡ”. [النساء: 24]
’’اور تمہارے لیے حلال کی گئی ہیں جو ان کے سوا ہیں‘‘۔
قرآن نے جن محرمات کا ذکر کیا ہے، چاہے خونی رشتے ہوں، رضاعی رشتے ہوں یا سسرالی رشتے ہوں، ان تمام رشتوں کو بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ ان کے علاوہ تمہارے لیے تمام رشتے حلال ہیں، حالانکہ خالہ اور بھانجی کو اکٹھا کرنا پھوپھی اور بھتیجی کو جمع کرنا بھی ناجائز ہے۔ جبکہ قرآن کریم کی نص سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان محرمات کے علاوہ باقی سب رشتے حلال ہیں، لیکن ان کے حلال ہونے کی نص کے باوجود ہم کہتے ہیں کہ خالہ بھانجی اور پھوپھی بھتیجی کو انسان بیک وقت اپنے عقد میں نہیں رکھ سکتا کیونکہ حدیث میں اسکی ممانعت آئی ہے، اس لیے قرآن اور اس کا بیان (حدیث) یہ دونوں چیزیں لازم و ملزوم ہیں۔ حدیث کے بغیر اسلام اور اسکے احکام نہ مکمل رہ جاتے ہیں، اگر کوئی انسان قرآن کو مانتا ہے لیکن اس کے بیان یعنی حدیث کا انکار کرتا ہے، حدیث کو نہیں مانتا تو ہمارے نزدیک ایسا شخص مسلمان نہیں ہے۔
اور منکرین حدیث کا یہ کہنا کہ حدیث انسان کی تخلیق ہے لہذا ہم صرف قرآن پر ہی ایمان رکھیں اور عمل کریں گے۔ یہ اعتراض بالکل باطل ہے کیونکہ ایسا ہی اعتراض قرآن پر بھی ہو سکتا ہے۔
ہمیں یہ کیسے پتہ چلا کہ یہ وہی قرآن ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا؟
قرآن کہتا ہے:
“نَزَلَ بِهِ الرُّوۡحُ الۡاَمِيۡنُۙ۞ عَلٰى قَلۡبِكَ لِتَكُوۡنَ مِنَ الۡمُنۡذِرِيۡنَۙ”. [الشعراء: 193، 194]
’’اسے امانت دار فرشتہ لے کر اترا ہے، تیرے دل پر، تاکہ تو ڈرانے والوں سے ہو جائے‘‘۔
تو یہ قرآن جو آپ کے دل پر نازل ہوا تھا، اسکا بھی حدیث نے بتلایا ہے کہ وہ کہاں سے شروع ہو کر کہاں تک ختم ہوتا ہے، لہذا جو انسان قرآن کو ماننے کا دعوی کرتا ہے لیکن اس کے بیان یعنی حدیث کو نہیں مانتا تو وہ دراصل قرآن کا بھی منکر ہے۔
لہذا ایک مسلمان کے لیے قرآن اور حدیث دونوں پر ایمان رکھنا ضروری ہے، حدیث کو مانے بغیر ایمان کا کوئی فائدہ نہیں ہے، کتنی ہی ایسی چیزیں ہیں جو قرآن میں بیان نہیں ہوئیں بلکہ قرآن کریم کے بیان(حدیث) میں اللہ تعالی نے ذکر کی ہیں، ان کی حیثیت بھی وہی ہے جو قرآن کریم میں بیان شدہ چیزوں کی ہے۔ اس لیے اہل السنۃ والجماعۃ اور سلفی علماء کے نزدیک جیسے قرآن پر ایمان لانا ضروری ہے ایسے ہی حدیث پر ایمان لانا بھی ضروی ہے، اور جیسے قرآن کا منکر کافر ہے اسی طرح صحیح احادیث کا انکار کرنے والا بھی کافر ہے۔
استفتاء میں دو متعین شخصیات کے بارے میں پوچھا گیا ہے۔ جہاں تک بات غلام احمد پرویز کی ہے تو وہ کھلے الفاظ میں احادیث کا انکار بھی کرتا تھا اور استہزاء بھی اور انہیں عجمی سازش اور لہو الحدیث وغیرہ کہتا تھا۔ ثابت شدہ احادیث کے بارے میں ایسے الفاظ بلاشبہ کفر و الحاد ہیں۔
جہاں تک جاوید احمد غامدی کی بات ہے تو یہ صاحب پرویز سے مختلف ہیں، انہوں نے احادیث کو جانچنے کے لیے اپنا ایک نیا گمراہ تصور ایجاد کیا ہے، جس کو یہ’ سنت‘ یا ’سنت ابراہیمی‘ کانام دیتے ہیں۔ عملی طور پر یہ بھی انکارِ حدیث کی ہی بیماری میں مبتلا ہیں اور اسی گمراہی کے داعی اور مبلغ ہیں، نتائج اور خطورت کے لحاظ سے ایسے لوگ منکرینِ حدیث سے کسی صورت کم نہیں ہیں، لیکن پرویز وغیرہ سے فرق کرنے کے لیے اہلِ علم انہیں ’استخفاف حدیث‘ کے مرض میں مبتلا لوگوں میں شمار کرتے ہیں۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
منکرینِ حدیث سے متعلق مزید فتوی نمبر پر 139 بھی ملاحظہ کر لیا جائے۔
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ