منکر حدیث اور گستاخ صحابہ محمود ابوریہ کا عبرتناک انجام

اسلام اور حدیث دشمنی میں بدنام زمانہ لکھاری محمود ابوریہ کا کردار اھل فن سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ یہ ملعون حدیث دشمنی اور بالخصوص محدث و فقیہِ امت ابو ھریرہ رضی اللّٰہ عنہ کی دشمنی سے پہچانا جاتا تھا۔ اس نے ایک کتاب (الأضواء علي الشريعة المحمدية) كے نام سے لکھی جس میں اس بدبخت صفت انسان نے جناب ابو ھریرہ رضی اللّٰہ عنہ کے بارے میں انتھائی غلیظ زبان کا استعمال کیا جس کا علامہ عبد الرحمن المعلمی نے اپنی کتاب (الأنوار الكاشفة) میں علمی رد کرتے ہوئے ابو ھریرہ رضی اللّٰہ عنہ کا احسن طریقے سے دفاع کیا۔

دشمن ابو ھریرہ رضی اللّٰہ عنہ (محمود ابوریہ) جب اپنی زندگی کے آخری حصے میں تھے اس کے قریب المرگ کی کیفیت بیان کرتے ہوئے دکتور محمد ضیاء الأعظمی لکھتے ہیں کہ میں ان دنوں مکہ کے رابطۃ العالم الاسلامی کے مکتب میں خدمات انجام دے رہا تھا کہ میرے پاس شیخ عبد الحکیم حمادۃ المصری آئے اور انہیں معلوم تھا کہ میں ابو ھریرہ رضی اللّٰہ عنہ کے دفاع میں رسالہ لکھ رہا ہوں تو انہوں نے مجھے اس عجیب واقعے کے بارے میں آگاہ کیا۔

بتانے لگے کہ میں محمود ابوریہ کے آخری دنوں میں مصر میں تھا مجھے اس کی حدیث اور محدث ابو ھریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے دشمنی کے بارے میں آگاہی تھی، چنانچہ میں اس کے گھر گیا لیکن اس کے بیٹے مجھے جانے نہیں دے رہے تھے کہ ان کی حالت خراب ہے اور وہ کسی سے ملنا نہیں چاہ رہے ہیں، لیکن میرے اصرار کے بعد انہوں نے مجھے اس کے کمرے تک جانے دیا۔ میں نے وہاں بڑا عجیب و قبیح اور ڈراؤنا منظر دیکھا کہ گستاخ ابوریہ انتھائی بری حالت میں ہے اس کا چہرہ سیاہ کوئلے کے ماند ہوگیا اس کی آنکھیں پھٹی ہوئی تھی اور گھبراہٹ کے آثار اس کے چہرے پر واضح تھے اور دیوار پر نظریں ٹکائے چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا (ھاهاها ابو ه‍ريره) ھائے ابو ھریرہ ھائے ابو ھریرہ، اور یہ بھی ذکر آتا ہے کہ وہ اپنے موت کے وقت کہ رہا تھا (قتلني ابو ه‍ريره) ہائے مجھے ابو ھریرہ نے مار دیا ہائے مجھے ابو ھریرہ نے مار دیا۔

اس واقعے میں منکرین سنت اور گستاخ صحابہ کیلئے ایک عبرت ہے اور ان کیلئے بھی عبرت ہے جو ابو ھریرہ رضی اللّٰہ عنہ یا دیگر کسی بھی صحابی پر کسی بھی پیرائے میں تنقید کرتے ہیں (والعیاذباللہ) اللّٰہ تعالیٰ ہمیں متبع سنت بنائے۔

ڈاکٹر ضیاء الرحمن الاعظمی رحمہ اللہ اس واقعے کو باقاعدہ بیان کیا کرتے تھے، بلکہ اس کو بیان کرنے کی ترغیب بھی دلائے کرتے تھے، اور اہتمام سے اس کی سند دیا کرتے تھے۔