سوال
ایک قبر ایسی جگہ پہ ہے جس کے دو اطراف سڑک ہےاور باقی جانب پلازہ ہے۔ اس قبر کے پاس مزید قبریں بنانے کی بھی جگہ نہیں ہے ۔ کیا پلازے کو وسیع کرنے کی غرض سے اس قبر پہ 7 فٹ اونچا کر کے لینٹر ڈالا جا سکتا ہے اور پھر لینٹر کی جگہ کو استعمال بھی کر سکتے ہیں ؟۔تحریری فتوی دے کر عند اللہ ماجور ہوں ۔
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
جب کوئی مسلمان فوت ہو جائے تو اس کا حق یہ ہے کہ اس کی قبر مسلمانوں کے قبرستان میں بنائی جائے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی طریقہ تھا کہ جتنے بھی صحابی اور صحابیات فوت ہوتے تھے ، انہیں بقیع الغرقد میں مسلمان فوت شدگان کے ساتھ دفن کیا جاتا تھا۔
اس کا فائدہ یہ بھی ہے کہ مسلمان جب قبرستان جا کر دعا کرتے ہیں تو مدفونین کو دعا کافائدہ ملتا ہے۔ اسی طرح گھر والوں کو یہ فائدہ ہے کہ انہیں اپنے فوت شدگان کو اپنی ملکیتی زمین میں دفن کرنے کی بجائے دفن کے لیے الگ سے جگہ دستیاب ہو جاتی ہے، ورنہ اگر مردوں کو اپنی ذاتی جگہوں پر دفن کرنے کا حکم ہوتا، تو ظاہر ہے ہر فوتگی کے وقت ورثا کے لیے مشکلات پیدا ہوتیں۔
بعض اہلِ علم نے صراحت کی ہے کہ میت کو قبرستان سے ہٹ کر گھر یا آبادی میں دفن کرنا درست نہیں ہے۔ معروف حنفی عالم دین علامہ ابن ہمام لکھتے ہیں:
«وَلَا يُدْفَنُ صَغِيرٌ وَلَا كَبِيرٌ فِي الْبَيْتِ الَّذِي كَانَ فِيهِ فَإِنَّ ذَلِكَ خَاصٌّ بِالْأَنْبِيَاءِ بَلْ يُنْقَلُ إلَى مَقَابِرِ الْمُسْلِمِينَ». [فتح القدير للكمال ابن الهمام وتكملته ط الحلبي 2/ 141]
’کسی بھی چھوٹے یا بڑے کو اس کے گھر میں دفن نہیں کیا جائے گا، کیونکہ یہ انبیاء کا خاصہ ہے، بلکہ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں منتقل کیا جائے گا‘۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
«لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ مَقَابِرَ». [صحيح مسلم :780]
’اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ‘۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
«فَإِنَّ ظَاهِرَهُ يَقْتَضِي النَّهْيَ عَنِ الدَّفْنِ فِي الْبُيُوتِ مُطْلَقًا». [فتح الباري 1/ 530]
’اس حدیث کا ظاہر اس بات کا متقاضی ہے کہ گھروں میں دفن کرنا مطلقا منع ہے‘۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو تدفین گھر میں ہوئی ہے، تو جیسا کہ پہلے بھی گزرا کہ یہ انبیاء کی خصوصیت ہے کہ وہ جہاں وفات پاتے ہیں، وہیں دفن کیے جاتے ہیں۔ جیسا کہ ارشادِ نبوی ہے:
“ما قبَضَ اللهُ نبيًّا إلَّا في الموضِعِ الذي يُحِبُّ أنْ يُدْفَنَ فيه”[صحیح سنن الترمذی: 1018]
’ہر نبی کی روح کو اللہ تعالی نے وہیں قبض کیا ہے، جہاں انہیں دفن کرنا ضروری تھا‘۔
[اس سلسلے میں تفصیل کے لیے ’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک، تاریخ و حقائق‘ کتاب ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔]
صورت مسؤلہ میں اگر ساری زمین کی رجسٹری ہوچکی ہو اور اس میں قبر کا استثنا نہیں کیا گیا تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ یہ جگہ زمین مالکان نے بھی بطور قبرستان وقف نہیں کی۔ لہذا اب میت کی تدفین کسی غلطی کی وجہ سے ہو گئی ہے ، اگر کسی فتنے کا خدشہ نہ ہو تو سب سے پہلا کام یہ کریں کہ اس کو نکال کر مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دیں، جیسا کہ اوپر ابن ہمام کے کلام میں بھی ’منتقلی‘ کے الفاظ گزرے ہیں۔
لیکن اگر یہ عمل فتنے کا باعث بن سکتا ہو تو قبر کو چاری دیواری سے اچھی طرح محفوظ کر لیا جائے اور اگر زمین کا مالک اوپر لینٹر ڈالنا چاہتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اوراس میں میت یا قبر کی توہین نہیں ہے کیونکہ وہ اپنی ملکیت میں تصرف کر رہا ہے، جبکہ قبر الگ سے محفوظ ہے۔
هذا ما عندنا، والله أعلم
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ