سوال (3211)

اگر کوئی امام ایک سورت (مثال کے طور پر) بروج پڑھتا ہے، پہر سورۃ بنی اسرائیل پڑھتا ہے تو کوئی حرج تو نہیں۔ دلائل سے رہنمائی کریں۔

جواب

نماز کے اندر سورتوں کی ترتیب میں تقدیم و تاخیر جائز ہے۔
حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:

صليتُ مع النبي صلى الله عليه وسلم ذات ليلة فافتتح بالبقرة… ثم افتتح النساء فقرأها ثم افتتح آل عمران فقرأها… [صحيح مسلم:772]

’میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھی تو آپ نے پہلے بقرہ پڑھی، پھر النساء اور پھر آل عمران’۔
اس قسم کی احادیث سے اہل علم نے استدلال کیا ہے کہ نماز میں سورتوں کی تقدیم و تاخیر میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور ویسے بھی سورتوں کی یہ ترتیب توقیفی نہیں بلکہ اجتہادی ہے۔
اگرچہ بعض اہل علم کے نزدیک سورتوں کی ترتیب اجتہادی نہیں بلکہ توقیفی ہے اور ان کے نزدیک اس قسم کی تقدیم و تاخیر جائز نہیں، لیکن بہر صورت راجح موقف اوپر والا ہی ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مصحف کی ترتیب سے پڑھنا بہتر اور مناسب ہے اور عموما اس کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول بھی یہی تھا۔ واللہ اعلم۔

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ

میں اس پر ایک پہلو پر اضافہ کرنا چاہ رہا ہوں، ہم جہاں رہ رہے ہیں، وہاں دلائل سے زیادہ جاہلیت چلتی ہے، بہت ساری چیزیں ایسی ہوتی ہیں، جن کو مد نظر رکھ کر بات کرنا پڑتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر ترتیب کے سورتوں کی تلاوت فرمائی ہے، اس طرح کی بھی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام الیل فرمایا ہے، سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ بقرہ پھر سورۃ آل عمران، پھرسورۃ النساء اور اس کے بعد سورۃ المائدۃ پڑھی ہے، بغیر ترتیب یہ اصول ایسی جگہ پر اصول لاگو ہوتا ہے، جہاں لوگ پڑھے لکھے ہوں، باقی جہاں لوگ دلائل کے بغیر باتوں پر زور دینے والے ہوں، وہاں ترتیب کے ساتھ پڑھنے پر زور دیا جائے۔

فضیلۃ الشیخ عبدالرزاق زاہد حفظہ اللہ