سوال (2130)

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

“رَمَقْتُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ أَبُو كَامِلٍ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ فَوَجَدْتُ قِيَامَهُ كَرَكْعَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَسَجْدَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَاعْتِدَالَهُ فِي الرَّكْعَةِ كَسَجْدَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَجِلْسَتَهُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَسَجْدَتَهُ مَا بَيْنَ التَّسْلِيمِ وَالِانْصِرَافِ قَرِيبًا مِنَ السَّوَاءِ” [سنن ابي داؤد : 854]

«میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت نماز میں بغور دیکھا، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کو آپ کے رکوع اور سجدے کی طرح، اور رکوع سے آپ کے سیدھے ہونے کو آپ کے سجدے کی طرح، اور دونوں سجدوں کے درمیان آپ کے بیٹھنے کو، اور سلام پھیرنے اور نمازیوں کی طرف پلٹنے کے درمیان بیٹھنے کو، پھر دوسرے سجدہ سے قریب قریب برابر پایا»
اس حدیث کی تشریح کی فرمائیں؟

جواب

نماز جس قدر خشوع و خضوع اور حضور قلبی کے ساتھ ہو گویا کہ ہر رکن برابر ہو جائے، یہ انتہائی خشوع و خضوع اور اعتدال کی ایک حسین ترین شکل ہوگی، پہلے قیام اور آخری تشھد کے درمیان کسی حد تک برابری ہونی چاہیے، باقی تمام چیزیں اپنی جگہ پر برابر ہوں، یعنی قیام اور رکوع، قیام اور قومے میں تو فرق ہوگا، اس طرح قیام اور سجدے اور قیام اور ما بین سجدتین تو فرق ہوسکتا ہے، لیکن جو برابری مقصود ہے، وہ قیام اور آخری تشھد میں باقی ہے، رکوع، سجدہ، ما بین سجدتین یہ برابر ہونے چاہئیں، یہ اعتدال کی عملی تعبیر ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

قریبا من سواء سے بڑھ کر کوئی خوبصورت تعبیر اس باب میں موجود نہیں ہے، جو نماز کے خشوع و خضوع کو بیان کرے، قیام اول اور تشہد کی بابت جو احادیث ہیں ان پر غور کیا جائے، یہاں تک کہ ظہر کے متعلق آیا کہ 30 آیات کا قیام ہوتا، باقی چیزیں اب اسی نسبت سے طویل ہوں گی۔ اسی لیے کہا کہ یہ سارے امور برابر کے قریب تھے یہ نہیں کہا برابر تھے۔
یعنی قیام اول اور تشہد میں تو کچھ طوالت زیادہ ہوتی ہے باقی برابر کے قریب، حتی کہ فرض نمازوں میں رکوع کے بعد اتنا لمبا کھڑا ہوتے اور دو سجدوں کے درمیان اتنا لمبا بیٹھتے کہ ہم گمان کرتے کہ انہیں وھم ہو گیا یعنی گویا وہ دوسرے قیام میں نہیں پہلے کی جانب لوٹ گئے ہیں، اور دو سجدوں کے درمیان نہیں تشہد میں بیٹھے ہیں، تو یوں نماز کا حسن ہے جس میں قیام اور تشہد طویل ہو گا اور باقی نسبت اس کے برابر، رات کی نماز میں یا نماز کسوف میں قیام انتہائی طویل ہوتا ہے تو اسی بقدر رکوع و سجود وغیرہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا کہ آدمی اپنی نماز کو مختصر کرے (سنن ترمذی غالبا)
یعنی اختصار فی الصلاة اور تخفیف فی الصلاة میں فرق ہے۔
عدم سہولت اور عدم تخفیف یہ ہے کہ آدمی عشاء کی نماز میں سورت بقرہ شروع کر دے۔
سید سابق نے فقہ السنہ میں لکھا کہ لوگ حدیث معاذ کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں اور ان ادلہ کو چھوڈ دیتے ہیں جس میں رسول اللہ کی نماز کی کیفیت کا بیان ہے، جس سے تخفیف کا معنی متعین ہوگا، اسی لیے سیدنا ابن عمر نے کہا کہ رسول اللہ نے ہمیں تخفیف کا حکم دیا اور سورت طور کے ساتھ نماز پڑھائی یعنی مغرب کی، حدیث معاذ والے یہ بھی جان لیں کہ سیدنا عمر کا عموما عمل یہ تھا کہ وہ فجر میں سورت یوسف یا اس کی مثل تلاوت کرتے، اب لوگ اس پر بھی ناک بھوں چڑھاتے ہیں اگر جمعہ کی نماز میں سورت اعلی اور غاشیہ کی کامل تلاوت کر لی جائے اور جمعہ کی فجر میں سورت سجدہ اور دھر پڑھی جائے، تو قیام رکوع و سجود سب خوبصورتی سے ادا کیے جائیں یہی اس حدیث کا مفہوم ہے۔
فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

“نهى رسول الله عن الاختصار فى الصلاة”

الله کے رسول نے نماز کو مختصر کرنے سے منع فرمایا ہے، حدیث کا ترجمہ یوں نہیں ہے، بلکہ اس کا معنی ہے کہ رسول اللہ نے نماز میں کوکھ پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہونے سے منع فرمایا ہے۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فتح الباری میں یہ تفصیل ہے، دوسرا معنی بھی کیا گیا ہے، جس کی طرف اشارہ کیا واللہ اعلم

“وحكى الهروي في الغريبين أن المراد بالاختصار قراءة آية أو آيتين من آخر السورة ، وقيل أن يحذف الطمأنينة وقيل الاختصار أن يحذف الآية التي فيها السجدة إذا مر بها في قراءته حتى لا يسجد في الصلاة لتلاوتها، حكاه الغزالي”.

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ