سوال

میں ایک Network Marketing کمپنی کے ساتھ کام کرتا ہوں۔ کام شروع کرنے کے کچھ عرصہ بعد ذہن میں سوال آیا کہ کیا یہ کام صحیح بھی ہے یا نہیں۔
اس کمپنی کے طریق کار کو آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔ ان کی 2 میٹنگز ہوتی ہیں۔ پہلے آپ کی ایک میٹنگ کروائی جاتی ہے جس میں E-commerce کے فوائد بتائے جاتے ہیں، اور کچھ شرائط پیش کی جاتی ہیں:
1۔ آپ کا ہمارے ساتھ کاروبار کا کیا مقصد ہے؟ یعنی وہ کیا چیز ہے جو ابھی کام کرتے ہوئے حاصل نہیں کر سکتے۔
2۔ کیا آپ نئی چیزیں سیکھنے کو تیار ہیں؟
3۔ دن میں 3 گھنٹے روزانہ کی بنیاد پر دے سکتے ہیں؟
4۔ بزنس کتنے پیسوں سے شروع کر سکتے ہیں ؟
5۔ دوسری میٹنگ کے آخر میں ’ہاں‘ یا ’نہیں‘ کی صورت میں فیصلہ کرنا ہوگا۔
دوسری میٹنگ تین گھنٹے کی ہوتی ہے. اس میں کمپنی کی پروفائل سے لے کر جس میں اس کا نام، کام کا طریقہ سب کچھ بتایا جاتا ہے. اور اگر کسی کا فیصلہ ’ہاں‘ کی صورت میں ہو، تو اس وقت آن لائن رجسٹریشن ہوتی ہے، اور ان کا پروڈکٹ خریدنا لازمی ہوتا ہے، تاکہ بزنس شروع کرسکیں۔لیکن آپ کی کمائی تب تک شروع نہیں ہوتی جب تک آپ کوئی پروڈکٹ نہ بیچیں۔
اس کے 2 طریقے ہیں۔ پہلا تو یہ کہ آپ کوئی چیز بیچ دیں اور اس کا 10 فیصد آپ کو ملے ۔ دوسرا یہ کہ آپ کسی اور کو اسی طرح لے کر آئیں جس طرح آپ خود آئے تھے. دو لوگوں کو لائیں گے تو پروڈکٹ کا 10 فیصد بھی ملے گا، اور ایک کمیشن بھی ملے گا۔ اس طرح نیٹ ورک بنتا جائے گا اور آپ اور آپ سے اوپر والے بھی کماتے رہیں گے. اور پانچ سال میں آپ کا سسٹم بن جائے گا اور پھرآپ کو کام کی شاید ضرورت بھی نہ پڑے۔

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

نیٹ ورک مارکیٹنگ، اس کو ملٹی لیول مارکیٹنگ (Multi Level Marketing) بھی کہتے ہیں۔ یہ طریقہ کار آج کل عام ہے۔ اس حوالے سے مختلف کمپنیوں سے منسلک لوگوں کے بہت سوالات آتے ہیں۔
کاروبار کا یہ طریقہ درست نہیں، کیونکہ اس میں کئی ایک شرعی قباحتیں پائی جاتی ہیں، جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
1. اس کاروبار کے ساتھ منسلک ہونے والے بعض افراد بتاتے ہیں، کہ اس میں مارکیٹنگ کرتے ہوئے، معاملات کچھ بتائے جاتے ہیں، جبکہ حقیقت میں کچھ اور ہوتے ہیں۔ یہ دھوکہ دہی اور غرر ہے، جو کہ درست نہیں۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

“نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الغرر” [صحيح مسلم:1153]

اللہ کےر سول صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوکے والی خرید و فروخت سے منع فرمایا ہے۔
مذکورہ کاروبار میں مثلا ظاہر یہ کیا جاتا ہے کہ یہ اشیاء کی خرید و فروخت کا کاوربار ہے، حالانکہ اس میں اصل دلچسپی اور توجہ نئے ممبرز بنانے پر ہوتی ہے۔ بعض سائلین کے مطابق ہم ان کی ٹریننگ میں اس لیے شریک ہوئے کہ یہ ہمیں چیزیں بیچنے کا طریقہ بتائیں گے، لیکن انہوں نے آگے سے مزید نئے لوگوں کو ساتھ ملانے پر ذہن سازی شروع کردی۔
2. اس میں ایک صارف بیک وقت کمیشن ایجنٹ بھی ہوتا ہے، اور کسٹمر یعنی خریدار بھی ہوتا ہے۔ اسے خود بھی چيزیں خریدنے کا پابند کیا جاتا ہے، جبکہ دیگر لوگوں کو ترغیب دے کر اس سلسلے کا حصہ بنانا بھی ضروری ہوتا ہے۔ دونوں چیزیں ایک دوسرے کے ساتھ مشروط ہوتی ہیں۔ حالانکہ خرید و فروخت میں ایک چیز کو دوسری کے ساتھ مشروط کرنا درست نہیں۔ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

“نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة”[سنن الترمذي:1231]

اللہ کےر سول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سودے میں دو خرید و فروخت کرنے سے منع کیا ہے۔
3. اس کاروبار میں ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ جیسے جیسے یہ سلسلہ آگے بڑھتا جاتا ہے، نیچے والے لوگ نقصان کا شکار ہوتے ہیں، جبکہ اوپر والے لوگ پیسہ لگانے یا محنت کے بغیر، نفع حاصل کرتے رہتے ہیں۔ اس لحاظ سے ماہرین نے اسے ’سود’ سے بھی خطرناک قرار دیا ہے۔ کیونکہ سود میں تو وہی پھنستا ہے، جو خود ضرورتمند ہوتا، اور قرض لیتا ہے۔ جبکہ اس میں ایسے لوگوں کو لالچ دے کر ساتھ ملا لیا جاتا ہے، جنہیں کچھ بھی نہیں ملتا، بلکہ وہ الٹا فیس دے کر رجسٹریشن کروا کر اس استحصالی نظام کا حصہ بنتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:«لا ضَرَرَ ولا ضِرَارَ»[ صحيح سنن ابن ماجة:1909]
کسی کو، یا آپس میں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانا درست نہیں ہے۔
4. یہ کاروبار کا کوئی پائیدار طریقہ نہیں، کیونکہ اس میں جس قدر لوگ بڑھتے جاتے ہیں، فارغ بیٹھ کر کھانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، اور پھر اس میں مسلسل نئے ممبرز کو ساتھ ملانا ضروری ہوتا ہے، جو کہ ظاہر ہے، ممکن نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے بہت سارے لوگ اس میں فیس دے کر رجسٹریشن کرواتے ہیں، لیکن جب وہ کسٹمرز اور ممبرز نہیں لاپاتے، تو ان کی ممبر شپ کینسل ہوجاتی ہے، اور فیس وغیرہ بھی ضبط ہوجاتی ہے۔ اسی وجہ سے اسے اہل علم نے جوے کے مشابہ بھی قرار دیا ہے۔
5. نیٹ ورک مارکیٹنگ کے ذریعے فروخت کی جانے والی اشیاء بہت مہنگی ہوتی ہیں، کیونکہ ا ن کا کمیشن کئی جگہ پر تقسیم ہونا ہوتا ہے، اس لیے اس کاروبار کا حصہ بننے والے افراد، نئے کسٹمرز کو غلط بیانی اور ملمع سازی کرتے ہوئے مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان اشیاء کا معیار اور کوالٹی بہت بلند ہے، اس وجہ سے ان کی قیمتیں زیادہ ہیں۔ حالانکہ غلط بیانی اور جھوٹ بولنا حرام ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: اگر خرید و فروخت میں سچ بولا جائے، تو اس میں برکت ہوتی ہے، اور اگر اس میں دھوکہ دہی اور جھوٹ سے کام لیا جائے، تو ا س سے برکت اٹھ جاتی ہے۔ [ صحيح بخارى:2079]

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ