سوال (2259)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْهُمْ، أَنَّهُ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْلَمَ عَلَى أَنَّهُ لَا يُصَلِّي إِلَّا صَلَاتَيْنِ، فَقَبِلَ ذَلِكَ مِنْهُ.
حكم الحديث: رجاله ثقات رجال الصحيح. غير الرجل المبهم الذي روى عنه نصر بن عاصم.
اس حدیث کی وضاحت فرمائیں کہ کیا آج بھی کسی مسلمان کے لیے اس کی گنجائش نکل سکتی ہے؟ جو نو مسلم ہو یا اسلام سے بیزار ہو تو اسے آغاز میں کچھ تخفیف دے دی جائے؟
جواب
اس روایت کی صحت کے بارے اہل علم کا اختلاف ہے، نصوص کے بھی خلاف ہے، صرف رجال کا ثقات ہونا کافی نہیں ہے، درایتاً بھی درست ہونا چاہے۔ اگر روایتاً اور درایتاً درست مان کر نو مسلم کو رعایت دے دی جائے تو موجودہ دور میں لازما فتنے کو تقویت ملے گی۔
لہذا اس قسم کی رعایت سے اجتناب کرنا ہی اولی اور بہتر ہے۔
فضیلۃ العالم عبدالرحیم حفظہ اللہ