پارٹنرشپ کی دس اہم اور بنیادی شروط
مضاربت اور پارٹنرشپ دس اہم اور بنیادی شروط کے ساتھ ہی جائز ہے:
جامع مسجد اہل حدیث مومن پورہ بائیکلہ ممبئی میں منعقدہ “اسلام کا نظام تجارت کانفرنس” کی دوسری نشست کے آخری خطیب دکتور محمد نسیم مدنی حفظہ اللّٰہ (استاذ جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں ناسک مہاراشٹر) نے ” مضاربت اور پارٹنرشپ کی جائز شکلیں” نامی عنوان پر نہایت ہی اہم، غیر معمولی اور قیمتی باتیں پیش کیں اور عصر حاضر میں مسئلہ ہذا کے سلسلے میں پائی جانے والی غلطیوں کی خصوصی نشاندہی فرمائی۔
آپ نے بیان فرمایا کہ مضاربت ایک شرعی اصطلاح ہے، اور یہ دراصل “پارٹنرشپ” کی ایک شکل ہے، پارٹنرشپ کا مطلب ہوتا ہے دو پارٹیاں پس میں ایک ساتھ ملکر جب کوئی مالی کاروبار کرتی ہیں تو اسے پارٹنرشپ کہا جاتا ہے اور پارٹنرشپ کی کئی ساری قسمیں ہیں، بنیادی طور پر اس کی پانچ قسمیں ہیں حالانکہ نئے زمانے میں کچھ اور شکلیں بھی آسکتی ہیں لیکن اصلا اسکی پانچ شکلیں یا پانچ قسمیں ہیں، پارٹنرشپ کی انہی پانچ قسموں میں سے ایک قسم “مضاربت” ہے، آسان لفظوں میں مضاربت کا معنی دو پارٹیاں ملکر کوئی کاروبار کرنا چاہیں، اب ایک پارٹی اپنی طرف سے مال پیش کرے کہ یہ لیجیے مال اور دوسری اس مال کو لیکر بزنس کرے، ایک طرف سے مال اور دام ہے اور دوسری طرف سے کام اور محنت ہے، اسکے بعد جو فائدہ اور نفع ہوگا اسے ہم دونوں کے درمیان حسب اتفاق تقسیم ہوگا، ضروری نہیں کہ آدھا آدھا ہی ہو جس چیز پر دونوں کا اتفاق ہو اس حساب سے، جو فائدہ ہوگا اس میں دونوں شریک ہونگے تو گویا کہ ایک طرف سے مال ہوتا ہے اور دوسری طرف سے عمل اور تجارت ہوتا ہے فائدہ جو ہوگا دونوں میں تقسیم کیا جائے گا اس کو مضاربت کہا جاتا ہے اور مضاربت کے جواز کے سلسلے میں علمائے اسلام کا اجماع ہے اور اسکی حکمت یہ ہے ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے سماج اور معاشرے میں بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے پاس مال بہت ہوتا ہے لیکن وقت نہیں ہوتا ہے یا پیسہ تو بہت ہے مگر بزنس کرنے کا طریقہ نہیں معلوم ہے یا بزنس کرنے کا تجربہ نہیں ہے، اب اگر خود سے بزنس کرنے جائیں گے تو ڈوب جائیں گے وہیں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جن کے پاس کیپٹل/راس المال نہیں ہے لیکن تجربہ بہت ہے وہ محنت بھی کرسکتے ہیں لیکن ان کے پاس پیسہ نہیں ہے۔ اب ایک پارٹی ہے کہ جس کے پاس پیسہ ہے لیکن وہ بزنس نہیں کرسکتی یا تو تجربہ نہ ہونے کی بنیاد پر یا وقت نہ ہونے کی بناء پر یا مکمل علم نہ ہونے کی بنیاد پر، وہیں دوسری طرف تو اسکے پاس پیسہ نہیں ہے لیکن تجربہ ہے اور محنت کرنے کا جذبہ ہے اب ہماری شریعت نے کیا کیا کہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون و خیرخواہی کرو چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اسی کار خیر کے لئے دین اسلام میں تکافل اجتماعی کی بہت زیادہ ترغیب دی گئی ہے یعنی ایک دوسرے کا تعاون کرو، ایک دوسرے کو مکمل کرو، جہاں پر نقص ہو اسکو مکمل کرو، اسی لئے ہماری شریعت نے پارٹنرشپ اور مضاربت کو جائز قرار دیا تاکہ لوگ ایک دوسرے کا تعاون کریں، آسان لفظوں میں یہ مضاربت کی شکل ہے۔
آپ نے ذکر کیا لہٰذا پتہ چلا کہ مضاربت کی شکل میں دو پارٹیاں ہوتی ہیں ایک طرف سے مال ہوتا ہے دوسری طرف سے تجارت اور عمل ہوتا ہے اگر تفصیلی طور پر ہم غور کریں گے تو اسکی چار شکلیں بن سکتی ہیں، چار شکلیں ایسے بنیں گی پہلی شکل ایسی ہے کہ مال لگانے والا ایک ہے اور تجارت کرنے والا بھی کوئی ایک شخص ہے، ایک شخص نے مال لگایا اور دوسرے شخص نے تجارت کیا، دوسری شکل یہ ہیکہ مال لگانے والا ایک شخص ہے اور تجارت کرنے والے کئی لوگ ہیں پورا گروپ ہے، کوئی کمپنی ہے تو مال لگانے والا ایک اور تجارت کرنے والے کئی ایک، تیسری شکل یہ ہیکہ مال لگانے والے کئی ایک ہیں اور کام کرنے والا تنہا ہے، دس لوگ ملکر ایک تجربہ کار شخص کو اختیار کرتے ہیں اور اسکے پاس اپنا مال لگاتے اور انویسٹ کرتے ہیں اور وہ تنہا ان دس لوگوں کا مال لیکر تجارت کرتا ہے، چوتھی شکل اسکی یہ بن سکتی ہے کہ جو لوگ مال لگارہے ہیں وہ بھی متعدد ہیں اور جو لوگ تجارت کر رہے ہیں وہ بھی متعدد ہیں، یہ کل چار شکلیں ہیں اور چاروں شکلیں جائز ہیں تو یہ مضاربت کی چار شکلیں بن سکتی ہیں چونکہ یہ جو موضوع ہے یہ خالص طور پر فقہی اور ٹیکنکل ہے، یہ بہت پیچیدہ موضوع شمار کیا جاتا ہے تو جب عوام الناس کے سامنے کرنا ہو تو بہت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ ان اصطلاحات کو کس طرح آسان انداز میں بیش کیا جائے کہ یہ لوگ آسانی سے سمجھ جائیں۔
میری کوشش ہیکہ میں اس موقع پر آپ سامعین کے سامنے صرف ان اصولی باتوں کو پیش کروں جسکی ضرورت ہر خاص و عام کو پڑتی ہے اور جو انتہائی اہم ہیں تاکہ آپ بخوبی واقف ہوجائیں۔
پھر محترم خطیب نے اضافہ کیا کہ مضاربت جو عرف عام میں انویسٹمنٹ سے موسوم ہے اور جو عصر حاضر میں اسکی شکلیں پائی جاتی ہیں کیا یہ جائز ہیں؟ تو ان کو پرکھنے کے لئے آپ تمامی حضرات کے سامنے فقط دس نکات کہ جنہیں شرعی اصطلاح میں “شروط في صحة المضاربة” کہا جاتا ہے، پیش کی جارہی ہیں:-
🧾 مضاربت اور پارٹنرشپ کے صحیح ہونے کے لئے دس شرطیں ہیں:
1: پہلی شرط: کیپٹل یعنی پارٹنرشپ کا رأس المال نقد کی شکل میں ہو، اب وہ چاہے سونے چاندی کی شکل میں ہو یا کرنسی کی شکل میں، رأس المال کے نقدی ہونے کی شرط اس لئے ہے کہ پارٹنرشپ ختم ہوتے وقت وہ رأس المال اسی شکل میں انویسٹر کو واپس لوٹائی جاسکے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب وہ کیپٹل نقدی ہوگا بصورت دیگر سامان وغیرہ کی شکل میں ہونے پر لوٹانا مشکل یا ناممکن ہوگا البتہ اگر نقدی شکل میں رأس المال انویسٹمنٹ کرنے کا امکان نہ ھو مثلا انویسٹمنٹ کے خواہشمند کے پاس سامان وغیرہ ہی ہو تو جواز کی واحد شکل یہ ہیکہ اس سامان کی رائج الوقت قیمت متعین کرلی جائے تاکہ پارٹنرشپ ختم ہوتے وقت وہ رقم لوٹائی جاسکے۔
2: دوسری شرط: رأس المال معلوم ہو مجہول نہ ہو تو رأس المال کی جنس، مقدار اور صفت معلوم ہونا لازمی ہے۔
3: تیسری شرط: رأس المال انویسٹر کی طرف سے اسکے پارٹنر کے پاس بطور امانت ہے یہ شرط اس لئے ہیکہ مستقبل میں کسی ناگہانی صورتحال و وجوہات کی بناء پر وہ امانت ضائع و برباد ہوجائے جس میں اس پارٹنر کی طرف سے کوئی کوتاہی، تساہل و تغافل نہ ہو تو وہ امانت اس انویسٹر کو لوٹانا نہیں ہوگا۔
4: چوتھی شرط: تجارت میں ہونے والی نقصان کی صورت میں اگر کیپٹل بھی مکمل یا بعض ڈوب جائے تو وہ خسارہ انویسٹر کو ہی برداشت کرنا ہوگا اور شریعت کی طرف سے عائد اس شرط میں انویسٹر پر کوئی جور و ظلم و تجاوز نہیں ہے جیساکہ بعض لوگ گمان کرتے ہیں بلکہ یہی مبنی بر انصاف ہے اس لئے کہ خسارہ ہونے پر انویسٹر کا اگر پیسہ جارہا ہے تو وہیں طرف ثانی کا بھی وقت اور محنت وغیرہ ضائع جارہا ہے۔
5: پانچویں شرط: اگر انویسٹر کئی ایک ہیں تو خسارہ و نقصان ہونے کی صورت میں ہر ایک اپنے اپنے اشتراک و انویسٹمنٹ کے حساب سے نقصان برداشت کرے گا۔
6: چھٹی شرط: طرفین نفع کے اندر بھی شریک ہونگے نہ کہ نفع کوئی ایک حاصل کرے۔ اس لئے کہ اگر نفع صرف انویسٹر حاصل کرے گا تو یہ مضاربت نہیں بلکہ تبرع کہلائے گا نیز اسی طرح اگر تاجر یعنی طرف ثانی صرف نفع حاصل کرے گا تو یہ مضاربت و انویسٹمنٹ نہیں بلکہ قرض کہلائے گا۔
7: ساتویں شرط: حاصل ہونے والی نفع معلوم ہونی چاہئے کہ کس کا نفع کتنا ہوگا اور کس کا کتنا، مجہول نہ ہو، اگر بغیر نسبت طے کئے انویسٹمنٹ کا عمل کیا گیا تو یہ پارٹنرشپ فاسد قرار پائے گا۔
8: آٹھویں شرط: طرفین کا منافع فکس نہ ہو بلکہ فیصد میں ہو جیسے کہ ایک انویسٹر کسی شخص کو کہے کہ ایک لاکھ روپئے لو تجارت کرو اور ہر مہینے مجھے ایک ہزار روپیے دیتے رہنا یہ فکس ہوگیا یہ پارٹنرشپ نہیں ہے، پارٹنرشپ ایسا ہوگا کہ انویسٹر کہے یہ لو ایک لاکھ روپئے، تجارت کرو اب جو بھی منافع ہوگا اس کا نصف میں لونگا اور نصف آپ، یا 60٪ میں لونگا 40٪ آپ لینا یا جو بھی فیصد پر دونوں اتفاق کریں، اتفاق فیصد میں ہو اس لئے کہ اگر آپ نے فکس کیا ہے تو یہ سود کہلائے گا کہ آپ نے اسے قرض دیا ہے اور جس پر آپ ماہانہ یا معینہ مدت میں اس سے فائدہ لے رہے ہیں یعنی سود لے رہے ہیں یا اگر سامنے والا یعنی تاجر کا فائدہ فکس ہے تو اس کا مطلب یہ ہیکہ کبھی ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کتنا اس نے اپنے لئے مہینہ کا فکس کیا ہے اتنا ہی فائدہ ہو، علی سبیل المثال ایک ہزار روپیے فکس کیا ہے اس ماہ ایک ہی ہزار کا فائدہ ہو اور سامنے والے یعنی انویسٹر کا کچھ بھی فائدہ نہ ہو، یا ہوسکتا ہے کہ اس ماہ کچھ بھی فائدہ نہ ہو اب چونکہ اس نے اپنے لئے ایک ہزار فکس کیا ہے اس لئے اب وہ کیپٹل یعنی رأس المال میں سے لے نیز اس طرح کی بہت ساری وجوہات اور قباحتیں ہیں جنکی بناء پر فکس جائز نہیں ہے۔
9: نویں شرط: تاجر یعنی طرف ثانی کو حصہّ اس منافع میں سے ملے نہ کہ الگ سے ملے، مثلا وہ کہے کہ ایک لاکھ روپئے لو اور تجارت کرو میں تمہیں الگ سے 10 ہزار ماہانہ دونگا تو یہ پارٹنرشپ نہیں بلکہ اجارہ یعنی اجرت ہے اور یہ جائز وہ اس لئے نہیں کہ اجارہ کے اندر اسکی اجرت معلوم اور یقینی ہونی چاہئے اور یہاں تو منافع یقینی ہی نہیں ہے لہٰذا مضاربت میں ضروری ہے کہ اس کا منافع اس پروفٹ میں سے ہو۔
10: دسویں شرط: منافع کا شمار کب ہوگا؟ تو طرفین جب اس پارٹنرشپ کو ختم کرنا چاہیں گے تو پورا حساب کتاب کرکے ختم کریں گے تو جو کیپٹل ہوگا اسے سب سے پہلے الگ کردیا جائے گا اب اس کے اوپر جو رقم ہے وہ منافع ہے، کیپٹل کو جب تک الگ نہیں کردیں گے، یقینی نہیں بنادیں گے تب تک منافع نہیں مانا جائے گا۔
اخیر میں شیخ محترم نے ذکر کیا کہ یہ دس شرطیں مضاربت میں سب سے اہم ہیں لہٰذا انہیں مضاربت و پارٹنرشپ کے وقت برتا جائے رہے بعض تفریعی مسائل تو وہ زیادہ اہم نہیں ہیں، اگر ہم ان شرائط کو اپنی مضاربت کے اندر برتیں گے تو ان شاء اللّٰہ دیگر مسائل بھی حل ہوجائیں گے۔
ڈاکٹر محمد نسیم مدنی حفظہ اللّٰہ Naseem Khan
یہ بھی پڑھیں: حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نصحیت اور بعض لوگوں کے رویے