عالمی منظر نامہ اور طالب علم
حافظ ابو عمرو عثمان بن سعید الدانی رحمہ اللہ (٤٤٤هـ) نے فتنوں کے بارے اپنی مستقل تصنیف ’’السنن الواردة في الفتن‘‘ میں عنوان قائم کیا ہے:
“بَابُ ذَمِّ الْكَلَامِ فِي الْفِتْنَةِ”
’’فتنے میں باتیں کرنے کی مذمت‘‘
اس کے تحت دیگر روایات کے ساتھ قاضی شریح تابعی رحمہ اللہ کے بارے میمون بن مہران رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے :
“لَبِثَ شُرَيْحٌ فِي الْفِتْنَةِ تِسْعَ سِنِينَ لَا يُخْبِرُ وَلَا يَسْتَخْبِرُ.” ’’شریح رحمہ اللہ نے نو سال کا عرصہ فتنے کے دوران گزارا، وہ نہ تو کسی کو خبریں سناتے اور نہ خبریں لیتے۔‘‘ (صـ ٢/ ٤٤٦)
اس کے بعد اگلا عنوان قائم کیا :
“بَابُ مَنْ رَأَى أَنْ يَسْتَخْبِرَ وَلَا يُخْبِرَ.”
’’اس کا ذکر کہ جس کا خیال ہے کہ خبر پوچھ لی جائے اور بتائی نہ جائے۔‘‘
پھر اس کے تحت امام ابراہیم نخعی تابعی رحمہ اللہ کا عمل نقل کیا ہے:
“كَانَ يَسْتَخْبِرُ وَلَا يُخْبِرُ.”
’’وہ خبریں پوچھ لیا کرتے تھے، خبریں دیا نہیں کرتے تھے۔‘‘ (صـ ٢/ ٤٥١)
▪ان آثار کی استنادی حیثیت سے قطع نظر؛ فتنے، جنگ وجدال اور عالمی کشمکش کی صورت حال میں علماء اور طلباء کے شایانِ شان ان دونوں رویوں میں سے کوئی ایک ہو سکتا ہے، پہلا یہ کہ جب تک غبار بیٹھ نہ جائے، یقینی کیفیت کسی طرف واضح نہ ہو جائے تب تک اپنے کام سے کام رکھیں، ہر بدلتی صورت حال پر نظر رکھ کر فضول میں وقت اور صلاحیت کو ضائع نہ کیا جائے، بالکل کوئی خبر نہ سنی سنائی جائے۔
▪دوسرا رویہ یہ ہو سکتا ہے کہ خاموشی سے خبریں سنتے رہیں، لیکن آگے پھیلانے اور تبصرے سے گریز کریں، کیوں کہ جب تک معاملہ واضح نہ ہو جائے، غبار چھٹ نہ جائے، دھول بیٹھ نہ جائے، ہر تبصرہ، ہر رائے، ہر پشین گوئی قبل از وقت اور محض تخمین وگمان اور اَٹکل پچو سے عبارت ہوتی ہے۔
▪جبکہ طالب علم ہر ایسے تبصرے اور رائے زنی سے گریز کرتا ہے جس پر اسے خفت وندامت اٹھانی پڑے۔ یہ صحافیانہ انداز ہے کہ غیر ذمہ دارانہ، بنا سوچے سمجھے بولتے اور تبصرے کرتے چلے جائیں، صد فی صد یقین کے ساتھ مستقبل کے حال بیان کرتے جائیں اور جب تُکا غلط لگ جائے تو ڈھٹائی وبے شرمی کے ساتھ پینترا بدل لیں۔ طالب علم ایسی خسیس حرکتوں سے بلند ہوتا ہے۔
▪لہٰذا ایسی کشمکش میں ہماری زیادہ سے زیادہ شمولیت یہ ہوسکتی ہے کہ خاموشی سے منظر نامے پر نظر رکھیں اور اپنے رب سے دعا گو رہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں سلامتی وعافیت سے رکھ اور مسلمان حکام وعوام کو اس کی توفیق دے، جس میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے خیر ہو۔ آمین۔
حافظ محمد طاھر حفظہ اللہ
(مدینہ منورہ، ١٨ جون ٢٠٢٥م)