قبولیتِ اعمال کی بنیادی شرائط
اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کیلئے انسان جو عبادت کرتا ہے وہ چار طرح کی ہو سکتی ہیں
1۔قلبی عبادت
دل سے عبادت کرنا جیسے ڈر،توکل،امیدیں وغیرہ
2۔قولی عبادت
جو زبان کے ذریعہ سے کی جاتی ہوں جیسے ذکر،دعا،تلاوتِ قرآن وغیرہ
3۔فعلی عبادات
جو جسم کے باقی اعضاء سے کی جاتی ہو جیسے نماز،سجدہ،رکوع وغیرہ
4۔مالی عبادت
جو اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنے سے کی جاتی ہو۔زکوۃ،صدقہ،وغیرہ کرنا۔
ان تمام قسم کی عبادات کی قبولیت کے لئے بنیادی طور پر تین شرائط از حد ضروری ہیں،جن کے بغیر قبولیت کا دور تک کوئی امکان نہیں ہے۔
وہ تین شرائط درج ذیل ہیں۔
1۔ اسلام قبول کرنا
عبادت کی قبولیت کے لئے بندے کا مسلمان ہونا ضروری ہے ورنہ کافر بندے کی کوئی عبادت قابلِ قبول نہیں ہوگئ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے
وَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُوْلَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلاَ يُظْلَمُونَ نَقِيرًا
اور جو شخص نیک کام کرے گا، چاہے وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ مومن ہو، تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے، اور کھجور کی گٹھلی کے شگاف برابر بھی ان پر ظلم نہیں ہوگا
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوةً طَیِّبَةًۚ-وَ لَنَجْزِیَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(النحل 97)
جو مرد یا عورت نیک عمل کرے اور وہ مسلمان ہو تو ہم ضرور اسے پاکیزہ زندگی دیں گے اور ہم ضرور انہیں ان کے بہترین کاموں کے بدلے میں ان کا اجر دیں گے۔
وَمَنْ أَرَادَ ٱلْءَاخِرَةَ وَسَعَىٰ لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُو۟لَٰٓئِكَ كَانَ سَعْيُهُم مَّشْكُورًا
اور جو آخرت کا خواہشمند ہو اور اس کے لیے سعی بھی کرے جیسی اس کے لیے سعی کرنی چاہیے، اور ہو وہ مومن، تو ایسے ہر شخص کی سعی مشکور ہوگی۔
ذرا آپ غور کیجئے درج بالا تین آیات اور اسکے علاؤہ اور بھی بہت سی آیات میں اللہ تعالیٰ نے ”ایمان” کو بطورِ شرط قرار دیا ہے۔اگر ایمان ہوگا تو اعمال قبولیت کے درجہ کو پہنچیں گئے ورنہ ضائع ہو جائیں گئے۔
ارشادِ باری تعالیٰ
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَمَاتُواْ وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَن يُّقۡبَلَ مِنۡ اَحَدِهِمۡ مِّلۡءُ الۡاَرۡضِ ذَهَبًا وَّلَوِ افۡتَدٰى بِهٖ ؕ اُولٰٓٮِٕكَ لَـهُمۡ عَذَابٌ اَلِـيۡمٌۙ وَّمَا لَـهُمۡ مِّــنۡ نّٰصِــرِيۡنَ
بیشک جن لوگوں نے کفر کیا اور وہ حالت کفر میں مرگئے ‘ ان میں سے اگر کوئی شخص تمام (روئے) زمین کو بھر کر سونا (بھی) فدیہ میں دے تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا ان ہی لوگوں کے لیے درد ناک عذاب ہے اور نہ ہی ان کا کوئی مددگار ہوگا۔
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ اَنَّ لَهُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّ مِثْلَهٗ مَعَهٗ لِیَفْتَدُوْا بِهٖ مِنْ عَذَابِ یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَا تُقُبِّلَ مِنْهُمْ١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (المائدہ 36)
جو لوگ کافر ہیں اگر انکے پاس روئے زمین (کے تمام خزانے اور اس) کا سب مال و متاع ہو اور اس کے ساتھ اسی کے مثل اور بھی ہوتا کہ قیامت کے روز عذاب سے بچنے کیلئے بطورِ فدیہ کے دیے تو ان سے قبول نہیں کیا جائے گا اور انکو درد ناک عذاب ہوگا۔
2۔ سنتِ رسولﷺ کے عین مطابق ہو
آپکا چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا ہر ایک عمل اگر سنت کے مطابق ہو تو قابل قبول ہوگا
نبیﷺ نے فرمایا:
وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي (بخاری 6008)
اور تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔
نبی ﷺنے فرمایا:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ، خُذُوا مَنَاسِكَكُمْ، فَإِنِّي لَا أَدْرِي لَعَلِّي لَا أَحُجُّ بَعْدَ عَامِي هَذَا”. (نسائی 3064)
”لوگو! مجھ سے اپنے حج کے طریقے سیکھ لو کیونکہ میں نہیں جانتا شاید میں اس سال کے بعد آئندہ حج نہ کر سکوں“
آپ ذرا غور کریں
دور جاہلیت میں بھی حج ہوتا رہا لیکن آپ نے پھر بھی فرمایا کہ حج کا طریقہ مجھ سے سیکھ لیں،کیوںکہ اگر سنت کےمطابق نہ ہوا تو قبولیت کے درجہ کو نہیں پہنچے گا۔
نبیﷺ نے فرمایا:
مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ “. (مسلم 4493)
جس نے ایسا عمل کیا، ہمارا دین جس کے مطابق نہیں تو وہ مردود ہے
ارشادِ باری تعالیٰ ہے
وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلاَمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ ۔(آل عمران 85)
جو کوئی شخص اسلام کے سوا کوئی اور دین اختیار کرنا چاہے گا، تو اس سے وہ دین قبول نہیں کیا جائے گا، اور آخرت میں وہ ان لوگوں میں شامل ہوگا جو سخت نقصان اٹھانے والے ہیں۔
ارشادِ نبوی ہے
فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي”. (بخاری 5063)
جس نے میرے طریقے سے بے رغبتی کی تو وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔
3۔ عمل خالصتاً اللہ کے لئے ہو
ہمارا ہر عمل صرف اور صرف رضائے الٰہی کیلئے ہو،کسی کو دیکھانا ہر گز مقصود نہ ہو۔تو عمل قبولیت کے مرحلہ کو پہنچ پائے گا
ارشادِ ربانی ہے:
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ (البینہ 5)
اور انہیں اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں، اپنے دین کو اس کے لیے خالص کر کے۔
نبی ﷺنے فرمایا
إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ، وَإِنَّمَا لِامْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ، فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيبُهَا أَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ “،
اعمال کا دارومدار نیت پر ہی ہے، اور آدمی کے لیے وہی (اجر) ہے جس کی اس نے نیت کی۔ جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف تھی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہے اور جس شخص کی ہجرت دنیا حاصل کرنے کے لیے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے تھی تو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف ہے جس کی طرف اس نے ہجرت کی تھی۔” (بخاری 1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اعمال کی قبولیت میں خالص اللہ کیلئے نیت ضروری ہے۔
اگر عبادات میں اللہ کے سوا کسی اور کو شریک کر لیا یا اللہ کیلئے ہی عبادت کر رہے ہیں لیکن دیکھانا کسی اور کو مقصود ہوا تو اعمال کو رد کرنے کے ساتھ ساتھ منافقین کے صف میں بھی کھڑا کر دیا جائے گا
نبیﷺ نے فرمایا:
قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: أَنَا أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَكَ فِيهِ مَعِي غَيْرِي تَرَكْتُهُ وَشِرْكَهُ “.(مسلم7475)
“اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ شریک بنائے جانے والوں میں سب سے زیادہ میں شراکت سے مستغنی ہوں۔جس شخص نے بھی کوئی عمل کیا اور اس میں میرے ساتھ کسی اور کوشریک کیا تو میں اسے اس کے شرک کے ساتھ اکیلاچھوڑدیتا ہوں۔”
ارشادِ باری تعالیٰ ہے
فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ
پس ان نمازیوں کے لیے بڑی ہلاکت ہے۔وہ جو اپنی نماز سے غافل ہیں۔وہ جو دکھاوا کرتے ہیں۔
منافقوں کا وطیرہ
إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلًا (القرآن)
بے شک منافق لوگ اللہ سے دھوکا بازی کر رہے ہیں، حالانکہ وہ انھیں دھوکا دینے والا ہے اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سست ہو کر کھڑے ہوتے ہیں، لوگوں کو دکھاوا کرتے ہیں اور اللہ کو یاد نہیں کرتے مگر بہت کم۔
نبیﷺ نے فرمایا:
إنَّ أخْوَفَ ما أخافُ عليكم الشِّركُ الأصْغَرُ، قالوا: وما الشِّركُ الأصْغَرُ يا رسولَ اللهِ؟ قال: الرِّياءُ؛ يقولُ اللهُ عزَّ وجلَّ لهم يومَ القِيامةِ إذا جُزِيَ الناسُ بأعمالِهم: اذْهَبوا إلى الذين كنتُم تُراؤون في الدُّنيا، فانظُروا هل تَجِدون عِندَهُم جزاءً؟!
مجھے تمہارے حق میں سب سے زیادہ ڈر شرک اصغر کا ہے۔“ صحابہ نے عرض کیا: شرک اصغر کیا ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ریاکاری کو کہتے ہیں۔ اللہ تعالی قیامت والے دن جب لوگوں کو بدلہ دے گا تو ریاکاروں سے کہے گا: ان ہستیوں کی طرف چلے جاؤ، جن کے سامنے دنیا میں ریاکاری کرتے تھے اور دیکھ آؤ آیا ان کے پاس کوئی بدلہ ہے؟“
(السلسلۃ الصحیحہ 146)
خطرناک انجام ہوگا
نبیﷺ نے فرمایا
قیامت کے دن سب سے پہلے تین آدمی قاری ،شہید،سخی کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔کیوں کہ انہوں نے یہ اعمال لوگوں کیلئے کیئے تھے۔ (جامع ترمذی)
لہذا ان تمام شرائط کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اعمال کرنے چاہئیں۔
ابو محمد اویس قرنی