کن صورتوں میں غسل کرنا فرض ہے۔

مسلمان پاک ہی ہوتا ہے البتہ کچھ معاملات میں حکما ناپاک ہو جاتا ہے،پھر اگر وہ مسنون غسل کرلیتا ہے،تو پھر سے وہ پاک ہو جاتا ہے۔
مسلمان درج ذیل صورتوں میں حکمًا ناپاک ہو جاتا ہے،
1۔ احتلام کا آجانا
خواہ حالتِ نیند میں ہو یا حالتِ بیداری میں یا پھر بدخوابی کے نتیجہ سے احتلام ہو جائے تو غسل فرض ہو جائے گا
ارشادِ باری تعالیٰ ہے
{وَ اِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّھَّرُوْا}
’’اور اگر حالتِ جنابت میں ہو تو اچھی طرح پاکی (غسل) حاصل کرلو (المائدہ 6)

عَنْ اُمِّ سُلَیْمٍؓ اَنَّہَا سَاَلَتْ نَبِیَّ اللّٰہِﷺ عَنِ المَرْاَۃِ تَرَی فِیْ مَنَامِہَا مَا یَرَی الرَّجُلُ ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ(( اِذَا رَاَتْ ذٰلِکَ_ المَرَاَۃُ فَلْتَغْتَسِلْ )) فَقَالَتْ اُمُّ سُلَمَۃَؓ وَاسْتَحْیَیْتُ مِنْ ذٰلِکَ قَالَتْ :وَہَلْ یَکُوْنُ ہٰذَا؟ فَقَالَ نَبِیُّ اللّٰہِﷺ (( نَعَمْ فَمِنْ اَیْنَ یَکُوْنَ الشَّبَہُ اِنَّ مَائَ الرَّجُلِ غَلِیْظٌ اَبْیَضُ وَمَائَ المَرْاَۃِ رِقِیْقٌ اَصَفَرُ فَمِنْ اَیِّہِمَا عَلاَ اَوْ سَبَقَ یَکُوْنُ مِنْہُ الشَّبْہُ ۔(رَوَاہُ مُسْلِم)
حضرت ام سلیمؓ بیان کرتی ہیں:
کہ میں نے نبی اکرمﷺ سے مسئلہ دریافت کیا کہ اگر عورت کو مرد کی طرح نیند میں احتلام ہوجائے تو اسے کیا کرنا چاہئے؟
رسول اللہﷺ نے فرمایا’’عورت کو غسل کرنا چاہئے۔‘‘
حضرت ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ مجھے (یہ بات سن کر)شرم محسوس ہوئی اور میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت فرمایا’’
کیا عورت کو بھی احتلام ہوجاتاہے؟‘‘
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’ہاں‘‘ورنہ بچہ عورت کے مشابہ کیوں ہوتا،
آپ ﷺ نے فرمایا
’’مرد کا مادہ منویہ سفید اور گاڑھا ہوتا ہے جب کہ عورت کا مادہ منویہ پتلا اور زرد ہوتا ہے۔دونوں میں سے جو بھی غالب آجائے بچہ اسی کے مشابہ ہوتاہے۔۔
نوٹ: بدخوابی میں اگر احتلام ہو جائے تواسکے اثرات اگر کپڑے یا جسم پر نظر آئیں تو غسل فرض ہوگا ورنہ غسل فرض نہیں ہوگا
بخاری ،مسلم کے الفاظ (إِذَا رَأَتِ الْمَاءَ۔ جب وہ پانی دیکھے.)کے الفاظ بھی موجود ہیں۔
2۔ خاوند بیوی کا علیحدگی والے تعلقات قائم کرنا
خاوند ،بیوی کی شرمگاہیں آپس میں مل جانے سے ہی غسل فرض ہو جائے گا خواہ انزال ہو یا نہ ہو۔
نبیﷺ نے فرمایا :
اِذَا جَلَسَ بَیْنَ شُعَبِہَا الْاَرْبَعِ ثُمَّ جَہَدَہَا فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ. (مُتَّفَقٌ عَلَیہ)
جب تم میں سے کوئی عورت کی چار شاخوں کے درمیان میں بیٹھے پھر اپنی پوری کوشش کر لے تو اس پر غسل واجب ہو گیا۔
اور مسلم کے الفاظ یہ بھی ہیں کہ (وَإِنْ لَمْ يُنْزِلْ’اگرچہ انزال نہ بھی ہو۔‘‘) مسلم 783
ام المومنین عائشہ ؓ کہتی ہیں
إِذَا جَاوَزَ الْخِتَانُ الْخِتَانَ فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ فَعَلْتُهُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاغْتَسَلْنَا
کہ جب مردکے ختنہ کامقام (عضوتناسل) عورت کے ختنے کے مقام (شرمگاہ) سے مل جائے تو غسل واجب ہوگیا۔ میں نے اور رسول اللہ ﷺ نے ایساکیا تو ہم نے غسل کیا۔(ترمذی108)
3۔ حیض کا خون آجانا
بالغہ عورت سے ہر ماہ جو خون جاری ہوتا ہے اسے حیض کہتے ہیں۔جب تک حیض کا خون جاری رہے گا تب تک عورت نماز،روزہ سے گریز کرے گئ اور جب وہ رُک جائے تو غسل کر کے پاکی حاصل کر کے اپنے معمولات عبادت شروع کر لے گئ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ
اور وہ تجھ سے حیض کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دے وہ ایک طرح کی گندگی ہے، سو حیض میں عورتوں سے علیحدہ رہو اور ان کے قریب نہ جاؤ، یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں، پھر جب وہ غسل کرلیں تو ان کے پاس آؤ جہاں سے تمھیں اللہ نے حکم دیا ہے۔ بے شک اللہ ان سے محبت کرتا ہے جو بہت توبہ کرنے والے ہیں اور ان سے محبت کرتا ہے جو بہت پاک رہنے والے ہیں۔ (البقرہ 222)
ام المومنین عائشہ ؓ فرماتی ہیں:
اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم قَالَ :(( اِذَا اَقْبَلَتِ الْحَیْضَۃُ فَاتْرُکِی الصَّلاَۃَ وَاِذَا اَدْبَرَتْ فَاغْتَسِلِیْ ))۔رَوَاہُ النَّسَائِیُّ (صحیح)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’جب حیض آئے تو نماز چھوڑ دو اور جب ختم ہوجائے تو غسل کرلو۔‘‘(اور نماز پڑھو)
4۔ نفاس کا خون آ جانا
بچہ کی پیدائش پر عورت کی شرمگاہ سے نکلنے والے خون کو ”نفاس” کہا جاتا ہے۔
جب تک یہ خون جاری رہتا ہو تب تک ایسی خواتین بھی نماز روزے سے گریز کریں گئ،
لیکن جیسے ہی یہ خون بند ہوگا تو فورا غسل کر کے اپنی عبادات کا معمول بنائیں گئ
ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:
(كانت النفساء على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم تقعد بعد نفاسها أربعين يوما أو أربعين ليلة)
(سنن ابی داؤد، (311) سنن ابن ماجہ، (648) جامع الترمذی، (139)
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نفاس والی خواتین اپنے نفاس کے بعد چالیس دن یا چالیس راتیں بیٹھی رہتی تھیں۔
یعنی نماز روزہ جیسی عبادات نہیں کیا کرتی تھی۔
امامِ ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(“و َقَدْ أَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ عَلَى أَنَّ النُّفَسَاءَ تَدَعُ الصَّلاةَ أَرْبَعِينَ يَوْمًا إِلا أَنْ تَرَى الطُّهْرَ قَبْلَ ذَلِكَ فَإِنَّهَا تَغْتَسِلُ وَتُصَلِّي”)
(جامع ترمذی 1/258 مع تحقیق شیخ احمد شاکر رحمۃ اللہ)
(“نبی صلی اللہ علیہ کے اہل علم صحابہ کرام،تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ نفاس والی عورتیں چالیس دن نماز چھوڑیں گی ہاں اگر وہ چالیس دن سے پہلے طہر کی حالت دیکھ لیں تو غسل کریں اور نماز پڑھیں)
نوٹ:
ان صورتوں کے علاؤہ باقی تمام صورتیں(جمعہ کے دن،عیدین کے دن،قبول اسلام کے وقت وغیرہ) میں غسل کرنا افضل ہے۔

ابو محمد اویس قرنی

یہ بھی پڑھیں: شعبہ جات جامعہ سلفیہ فیصل آباد کا مختصر تعارف