تقریظ فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدلله والصلاة والسلام علی رسول الله!
کسی مسئلہ میں اختلاف رائے ہو جانا یہ انہونی بات نہیں ،تاہم ہر کسی کا اپنی اپنی رائے پراڑ جانا صحیح نہیں ، بات کو قرآن وسنت کی نصوص اور سلفِ امت کے فیصلوں کی روشنی مین حل کر لینا اور اپنی رائے سے دست بردار ہو جانا ہی تحقیق کا اصل حسن ہے ۔امتِ اسلامیہ کا سب سے پہلا اختلاف حیات و ممات ِرسول ﷺ کے بارے میں ہوا ۔حضرت صدیقِ اکبر اور فاروق ِاعظم رضى الله عنهما کا واقعہ معروف ہے کہ قرانِ کریم کی آیت:
{وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ} [آل عمران: 144]
’محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک رسول ہی ہیں، ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ اگر وہ وفات پاجائیں یا قتل (شہید ) کر دیےجائیں تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ اور اگر کوئی الٹے پاؤں پھر بھی جائے تو اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اور شکرگزاروں کو اللہ تعالیٰ جلد ہی اچھا بدلہ عطا کرے گا‘۔
کے فیصلہ پر اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ارشاد :
( فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًاﷺ فَإِنَّ مُحَمَّدًاﷺ قَدْ مَاتَ) [صحیح بخاری 3667:4452]
پر فاروق اعظم رضی اللہ عنی نے سر تسلیم خم کر لیا ۔
نبى اکرم ﷺ کی قبر مبارک کہاں کھودی جائے ؟ اختلافِ رائے ہوا لیکن جب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حدیث رسول ﷺ :”ما قبَضَ اللهُ نبيًّا إلَّا في الموضِعِ الذي يُحِبُّ أنْ يُدْفَنَ فيه”[صحیح سنن الترمذی: 1018]
سنائی تو سب نے یہ فیصلہ قبول کر لیا ، اور نبی ﷺ کو ام المومنین حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں عین آپ ﷺکے بستر والی جگہ پر سپردِ خاک کر دیا گیا ۔یہ توصحابہ کا طرز عمل تھا ،اور یہی ہونا چاہیے ، لیکن برا ہو اس قبوری نظام کا کہ انہوں نے اپنے بڑوں کو مسجدوں میں دفن کرنا شروع کر دیا اور اس کے لیے حقائق پر عمل پیرا ہونے کی بجائے بے جا طور پر کہنا شروع کر دیا کہ نبی ﷺ کو بھی مسجد میں دفن کیا گیا ۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ ﷺ کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں دفن کیا گیا تھا ، جو جگہ بعد میں مسجد نبویﷺ کی توسیعات کے باعث بظاہر مسجد کے اندر لگتی ہے جبکہ در حقیقت ایسا نہیں ۔
زیر ِنظر کتاب مدینہ منورہ کے ایک فاضل کی تالیفات میں سے ہے، جنہیں مدینہ یونیورسٹی کے استاد ہونے اور مسجد نبوی کے مدرس ہونے سے ایک وقار اور اعتبار حاصل ہے، وہ موصوف جناب ڈاکٹر پروفیسر صالح بن عبدالعزیز بن عثمان سندی حفظہ اللہ ہیں ۔
انہوں نے اہل شرک وبدعات کے ایک شبہے کا رد کیا ہے جو وہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کی قبر مبارک بھی مسجد میں ہے ۔ شیخ موصوف نے ان کی اس غلط فہمی کو دور کرنے اور انکے اس شبہ کو ردکرنےکے لیے ایک کتاب لکھی جس کا نام رکھا:
(الجَوَابُ عَن شُبهَةِ الاستِدلَالِ بِالقَبرِ النبویِّ علی جَوَازِ اتِّخَاذِ القُبُورِ مَسَاجِدَ)
اسی متذکرہ کتاب کا اردو ترجمہ آپ کے ہاتھوں میں ہے اور اس کے مترجم ہمارے فاضل عزیز جناب حافظ خضر حیات صاحب (فاضل مدینہ یونیورسٹی ، ومدير لجنۃ العلماء للإفتاء) حفظہ اللہ ہیں ۔ ترجمہ نہایت عمدہ ہے ۔ اور کئی سالوں سےانٹرنیٹ پر محدث ویب سائٹس پر موجود ہے ۔ اب موصوف اسے زیورِ طباعت سے آراستہ کر کے آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ تَقَبَّلَ اللهُ جُهُودَنا وَجُهُودَه.
محدث فورم کے پہلے ایڈیشن میں وہ کئی تراميم واصلاحات کر چکے ہیں اور ہماری بعض تجاویز کو فراخ دلی سے قبول کرتے ہوئے مزید اصلاحات بھی زیر عمل آئی ہیں، امید ہے کہ موصوف کی یہ کاوش بہترین شکل میں آپ کے ہاتھوں میں آئے گی۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اس کتاب کے مؤلف و مترجم اور دامے درمے قدمے سخنے کسی بھی طرح کے معاونین کو ثواب دارین عطاء فرمائے اور مترجم کو تصنیف وتالیف اور ترجمہ وتحریر کی توفیقِ وفیر سے نوازے ۔آمین ۔والسلام علیکم
ابو عدنان محمد منیر قمر ،الخبر سعودی عرب
22/5/1443
26/12/2021

عرضِ مترجم سے اقتباس

بدعات و شرکیات میں مبتلا لوگوں کے شبہات میں سے ایک شبہ یہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک بھی تو مسجد نبوی میں ہے اور لوگ وہاں نماز ادا کرتے ہیں ، لہذا جائز ہے ، کہ اسی طرح دیگر جگہوں پر بھی اولیاء و صلحاء کے احترام و اعزاز میں ان کی قبریں مساجد کے اندر بنائی جائیں ۔ جب سے یہ شبہ معرض وجود میں آیا ، اسی وقت سے اس کا جواب بھی علمائے ربانی اپنے انداز میں دیتے رہے۔ لیکن ضرورت تھی کہ اس موضوع پر مستقل کتابچہ تیار کیا جائے ، جس میں اس شبہے کا شرعی وتاریخی اعتبار سے جائزہ لیا جائے ، تاکہ عام لوگوں کے لیے یہ بات واضح ہو کہ کیا واقعتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مسجد نبوی میں ہے، یا یہ صرف غلط فہمی ہے ؟ اور کیا اس سے قبر پرستی کے جواز پر استدلال درست ہے یا نہیں ؟
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے قابل ترین اور ذہین و فطین استاد اور پروفیسر ڈاکٹر صالح بن عبد العزیز بن عثمان سندی حفظہ اللہ نے اس موضوع پر قلم اٹھایا اور وضاحت کے ساتھ اس غلط فہمی کا ازالہ کیا ۔ ڈاکٹر صالح سندی صاحب کی یہ کتاب:

الجَوَابُ عَن شُبهَةِ الاستِدلَالِ بِالقَبرِ النبویِّ علی جَوَازِ اتِّخَاذِ القُبُورِ مَسَاجِدَ

کے عنوان سے زیور طباعت سے آراستہ ہوئی ، کتاب پانچ حصوں پر مشتمل ہے ، جس کی تفصیل مقدمہ مولف کے ضمن میں آئے گی ۔ إن شاءاللہ ۔
یہ عربی کتابچہ چھوٹے سائز کے تقریبا 60 صفحات پر مشتمل ہے ، کتاب پہلی دفعہ 2014 میں منظر عام پر آئی ، کتاب کی اہمیت و ضرورت کے پیش نظر کچھ ہی دیر بعد کویت میں دوبارہ چھاپی گئی ، دونوں ایڈیشن انٹرنیٹ پر پی ڈی ایف میں بھی دستیاب ہیں۔

ڈاکٹر صالح سندی صاحب ہمارے استاد محترم ہیں ، آج سے تقریبا گیارہ سال پہلے کلیہ حدیث میں توحید کے کچھ اسباق ان سے پڑھنے کا موقعہ ملا۔ موصوف جامعہ اسلامیہ میں تدریس کے علاوہ ، مسجد نبوی میں بھی درس دیتے ہیں۔ چند سال پہلے الحادی افکار کی بیخ کنی کے لیے قائم کردہ ’ مرکز یقین ‘ کے انچارچ بنے ، کچھ عرصہ بعد ’ جمعیت ِعلمِ عقائد و ادیان ‘ کی ’ ریاست ‘ آپ کے سپرد کر دی گئی ۔ شیخ کے نام سے ایک مخصوص ویب سائٹ بھی ہے ، جہاں آپ کی کئی ایک مطبوع و غیر مطبوع کتابیں ، مقالات اور دروس موجود ہیں ۔

شیخ کا یہ کتابچہ جب ملا ، پہلی ہی نشست میں مکمل پڑھ لیا ، اور اسی وقت اس کا ترجمہ کرنے کا عزم کرلیا ، چند ماہ بعد اس کا ترجمہ مکمل کرلیا ، بعد میں دوسرا ایڈیشن آیا ، دونوں کا آپس میں موازنہ کیا ، چند مقامات پر کچھ حذف و اضافہ تھا ، سو ترجمہ میں بھی اسی طرح کی تبدیلی کردی گئی ، تاکہ ترجمہ آخری ایڈیشن کے مطابق ہو ۔

کتاب کے اس ترجمہ کی نہ تو مؤلف سے اجازت لی گئی ہے ، اور نہ ہی کرنے کے بعد انہیں دکھایا گیا ہے ۔ ترجمہ مکمل کرلینے کے عرصہ بعد مجھے علم ہوا ، انڈیا کے ایک طالبعلم ( برادر فواد اسلم محمدی حفظہ اللہ )جو کہ شیخ سندی کے شاگرد ہیں ، انہوں نے بھی اس کتاب کا ترجمہ کیا ہے ، اور باقاعدہ شیخ کو اس سے مطلع کیا ہے ، یہ ترجمہ جامعہ اسلامیہ میں عقیدہ کے استاد ڈاکٹر الطاف الرحمن صاحب کی نظر ثانی کے بعد چھاپا گیا، جس کی تاریخِ اشاعت 2018ء ہے۔

میرے اس ترجمہ کی اطلاع جب بعض اہل علم کو پہنچی تو انہوں نے طباعت کی پیشکش کی ، جسے میں اپنی نااہلی اور سستی کے باعث قبول نہ کرسکا ، پھر بعد میں اس ترجمہ کو محدث فورم پر شائع کردیا کہ کمپیوٹر میں قید رہنے سے بہتر ہے ، کہ انٹرنیٹ قارئین اس سے مستفید ہوسکیں ۔ بعض دوستوں کا اصرار تھا ، جس طرح عربی کتاب پی ڈی ایف فائل میں موجود ہے ، ترجمہ بھی ہونا چاہیے ۔لہذا کچھ ضروری حک واضافہ کے بعد جولائی 2017ء میں اس کی سافٹ کاپی انٹرنیٹ پر دے دی گئی ۔ اب اسے باقاعدہ زیورِ طبع سے آراستہ کرنے کی بات چلی، تو فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ سے نظرثانی اور تقریظ کی گزارش کی، جو انہوں نے شفقت فرماتے ہوئے قبول فرمائی۔ فجزاہ اللہ خیرا۔

حال ہی میں مدینہ منورہ کے فضائل پر ایک بہترین کتاب منظر عام پر آئی ہے، جس کے مصنف امامِ مسجدِ نبوی ڈاکٹر عبد المحسن القاسم حفظہ اللہ ہیں، اس کتاب میں انہوں نے امہات المؤمنین کے حجروں، بالخصوص حجرہ عائشہ سے متعلق بہت دلچسپ معلومات بمع نقشوں اور تصاویر کے درج کردی ہیں۔ ہم نے اس کتاب کے شروع میں اس کا بھی کچھ حصہ شامل کردیا ہے، جو یقینا قارئین کے ذوق و شوق میں اضافے کا سبب بنے گا۔ ان شاءاللہ۔
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالی مؤلفِ محترم کو اجر جزیل سے نوازے اور مترجم کی اس ادنی کاوش کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔

حافظ خضر حیات ، شاہدرہ، لاہور
مدیر’لجنۃ العلماء‘
مدرس جامعہ بلال الاسلامیہ، یوکے سنٹر، لاہور
15 محرم الحرام،1444ھ

 

کتاب کا پی ڈی ایف لنک

کتاب کے مطبوعہ نسخے / ہارڈ کاپی ختم ہونے کی صورت میں اس کا پی ڈی ایف نسخہ العلماء ویب سائٹ کے قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے، تاکہ استفادہ کی راہیں مزید آسان اور میسر ہوں.

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرِ مبارک، تاریخ و حقائق کتاب پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں:

Nabi Kareem ki Qabr Mubark