فتاوى لجنة العلماء
ہمارے برادر قاری خضر حیات صاحب ہمارے بھائی بھی ہیں اور جگری دوست اور ہم نوالہ وپیالہ بھی، بڑے با کمال، باکردار اور با صلاحیت آدمی ہیں۔ جو لوگ انہیں جانتے ہیں وہ ان کی صلاحیتوں سے واقف ہیں، علم اور اہل علم سے انتہائی محبت کرنے والے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے ادارے ویبسائٹ کا نام ہی (العلماء) رکھا ہوا ہے۔
مدینہ منورہ میں تخرج کے آخری ایام میں ہر ملاقات میں کئی امور پر بحث ہوتی ان میں سے دو امور بطور خاص زیر بحث آتے:
1: پاکستان میں فتوی کمیٹی کا قیام، جس میں جماعت کے جید علماء ومشایخ کی سر پرستی اور رہنمائی میں کام کیا جائے اور سعودی عرب کی طرح پوری بحث و تمحیص اور تحقیق کے بعد کسی مسئلے پر متفقہ فتوی جاری ہو۔
2: اور دوسرا پاکستان میں علماء وائمہ مساجدکے مسائل اور ان کے حقوق کا استحصال، اس حوالے سے کافی فکر مند نظر آتے ، اور مشورہ بھی کرتے کہ کیا کرنا چاہیے؟ مدارس و مساجد میں قائم اجارہ دارانہ نظام میں کیسے آواز اٹھائی جا سکتی ہے، ہو سکتا ہے آپ کے خلاف محاذ قائم ہو جائے وغیرہ وغیرہ، میرے ذہن میں اس طرح کی کوئی بات آتی تو ذکر کر دیتا، بہر حال برادر عزیز بھی انتہائی پر عزم شخصیت ہیں یہی کہتے ہمارا کام چنگاری جلانا ہے نتائج ہمارے ذمے نہیں۔
تو اس شعر کے مصداق:
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل
مگر لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
یہ عرصہ تین چار سال پہلے کی بات ہے، موجودہ دور میں پاک وہند کے مدارس کی تاریخ میں شاید پہلا موقع تھا، کہ اس پر باقاعدہ بات شروع ہوئی، تحریریں لکھنے والوں نے تحریریں لکھیں، باقاعدہ ایک تحریک بن گئی، یہاں تک کہ بعض مساجد ومدارس کے ذمے داران نے اپنی کمزوریوں کا اعتراف کیا اور اپنا رویہ بدلنے کی یقین دہانی دلائی۔ یہ سب تفصیل میری ناقص معلومات کے مطابق ہے، شاید مکمل تفصیلات اس سے بھی زیادہ ہوں۔
جہاں تک پہلے نقطے کی بات ہے تو پاکستان آتے ہی برادر عزیز نے اس پر باقاعدہ کام شروع کر دیا، علماء سے رابطے کئے، جماعتوں کے زعماء سے ملاقاتیں کیں، بعض نے تو اپنے نام ، سٹیٹس اور شہرت کے پیش نظر جب دیکھا کہ بندہ پر عزم ہونے کے ساتھ ساتھ با صلاحیت بھی ہے اور چل کر بھی خود آیا ہے، تو اپنے ذاتی مقاصد ومفادات اور نام و شہرت کمانے کیلئے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کی، لیکن برادر عزیز کو اللہ نے جہاں دیگر کئی صلاحیتوں سے نوازا ہے ساتھ فہم و فراست بھی عطا فرمائی ہے، کہ یہ کام عبادت ہےاور مکمل طور پر خلوص اور رضائے الہی کے حصول کی نیت کا متقاضی ہے، ان سے راستہ جدا کر لیا۔
ایک جماعت کے قائد نے ابتداءً انتہائی مثبت کردار ادا کیا، اور برادر عزیز نے ان کے ساتھ مل کر کام کرنا شروع کر دیا، لیکن جب ایک انسان کی نیت میں کہیں کھوٹ ہو تو مخلص آدمی کبھی بھی اس کے ساتھ نہیں چل سکتا، وہی پہلی قسم کے گروہ والی حرکتیں اور رویہ اپنانا شروع کردیا، حتی کہ بلیک میل بھی کیا ، برادر عزیز کی ساری محنت پر پانی پھیرنے کی کوشش کی، اور سمجھا کہ شاید ہمیں اب اس کی کوئی ضرورت نہیں، ہم خود ہی کام سنبھال لیں گے، (لیکن عرصہ دراز ہوا ان کے اس کے متعلق کام کا نام ونشان نہیں)۔
بہر حال بات دور نکل گئی برادر عزیز اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے مشن پر ابھی تک گامزن ہیں اللہ رب العزت انہیں دن دو گنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔
کچھ عرصہ قبل ان کی طرف سے کتاب کی صورت میں انتہائی قیمتی تحفہ موصول ہوا، جو ان کی کوششوںو کاوشوں کا نتیجہ ہے، تحائف وہدایا تو کئی قسم کے ہوتے ہیں، لیکن ایک طالب علم کیلئے کتاب ہی سب سے بڑا ہدیہ ہوتی ہے۔
فتاوی پر مبنی کئی کتابوں کا مطالعہ کیا، لیکن مذکورہ کتاب اپنے باب میں انتہائی منفرد کاوش ہے، موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق کئی ایسے مسائل جو قدیم فتاوی جات میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتے ، اس کتاب میں کئی ایسے مسائل مذكور ہیں، لین دین خرید وفروخت کے مسائل کے متعلق باب انتہائی اہم ہے، اور اس سے بھی اہم آن لائن ویبسائٹس اور ایپس وغیرہ کمائی کے ذرائع کے متعلق باب جس میں مسائل کو بڑی شرح وبسط اور تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے، اور میری ناقص معلومات کے مطابق ان جدید مسائل کے متعلق مکمل تفصیل آپ کو ایک جگہ پر کسی کتاب میں بھی نہیں ملے گی۔ کتاب کا اسلوب انتہائی سہل ہے، جو علماء وطلبہ اور عوام ہر خاص وعام کیلئے مفید ہے، انٹر نیٹ پر کاروبار کرنے والے ہر شخص کیلئے اس کتاب کو پڑھنا انتہائی ضروری ہے، تاکہ ان مسائل میں حلال وحرام سے واقفیت ہو سکے۔
فضيلة الشيخ عبد الرحمن محمدى حفظه الله