شیخ العرب والعجم قاری محمد ادریس عاصم حفظہ اللہ
یہ رواں سال (2019ء) جولائی کے ابتدائی دن تھے۔ ملاقات کی تمنا اورشرف نیاز مندی حاصل کرنے کے لیے میں نے ان کو فون کیا۔ وہ میرے والدگرامی کے ہم جماعت تھے۔ میرے دل میں ایک جھجک تھی کہ میں ایک گمنام طالب علم اور وہ فن قرات کے امام اور مسلمہ شہرت کے مالک! شائد میری بات نہ سنیں۔ میں نے تعارف کروایا تو شیریں لہجے اور عمدہ اخلاق کے ساتھ ہمکلام ہوئے۔ انہوں نے مسرت اور مشفقانہ انداز میں وقت لقاء عطا کردیا۔ یہ ان کی بزرگانہ شفقت اور خردنوازی تھی۔ مقررہ وقت پر میں اپنے یارسفر کے ہمراہ ان کے جامعہ پہنچا۔ وہاں ہماری سوچ اور خیالات کے برعکس حیرت انگیز منظر تھا۔ کوئی پچاس کے قریب طلباء کی کلاس تھی جو ہاتھ میں قرآن تھامے دلفریب لہجے اور دلکش آواز میں تلاوت کررہے تھے۔ متعدد طلباء ان کے گرد حصار بنائے ہوئے اپنے اسباق سنارہے تھے۔ وہ بڑھاپے اور ٹانگ میں شدید درد کے باوجود اپنے فرائض منصبی سے عہدہ برآ ہورہے تھے۔
یہ تذکرہ ہے ایسی جامع الکمالات، ہمہ جہت، ہمہ دان اور ہمہ گیر شخصیت کا، جس کی درویشانہ صفات، عجب بے نیازی، علالت، ناتوانائی اور 70 کی دہلیزپر ہونے کے باوجود خدمت قرآن کا جذبہ نئی نسل کے لیے مشعل راہ ہے۔ جو اپنی ذات میں ایک دبستان اور ایک عہد ہے۔ جس نے فن قرات کو اپنی حیات اور کارناموں سے زندہ و پائندہ کیا۔ لاہور کی سرزمین میں جنم لینے والا یہ ستارا تجوید وقرات کی فضا میں بہت بلندی پہ چمک رہا ہے اور اس کی شعائیں دنیا کے ہر خطے میں پہنچ رہی ہیں۔ انہیں تجوید و قرات کے علوم پر بیک وقت غیر معمولی قدرت حاصل ہے۔ جس نے زندگی مشاہدات و تجربات سے بہت کچھ سیکھا اور دوسروں کو سکھایا۔ جس نے نہ صرف ایک متبحر عالم اور صف اول کے بالغ نظر استاد کی حیثیت سے درس وتدریس کی غیرمعمولی صلاحیت کے ذریعے طلبہ کے ذہن و فکر کو جلا بخشی۔جس کی انتھک کوششوں کی بدولت فن قرات کا دائرہ بے حد وسیع ہوا۔ جس کا شمار ان مایہ ناز ہستیوں میں ہوتا ہے جو نصف صدی سے کشت علم و فن کو سینچ رہے ہیں۔ جس نے اپنی قابلیت اور علمی لیاقت سے دنیائے قرات میں لاتعداد گہرہائے آبدار پیدا کیے۔جس کی شخصیت میں کچھ ایسی جاذبیت ہے کہ ہر مسلک کا فرد ان کو عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ جس نے اپنے باوقار قلم اور پروقار کردار سے پاکستان ہی نہیں پورے عالم اسلام میں عزت و احترام کمایا۔ جس نے تجوید و قرات کے گوناگوں موضوعات پر شرح و بسط کے ساتھ درجنوں کتب تالیف کیں۔جس کی تالیفات انہیں تاریخ قرات میں بقائے دوام عطا کرتی رہیں گی۔
وجیہ صورت، خوش گفتار لہجہ، خوش اطوار، باوضع، سادہ مزاج، فربہ جسم، سرخی مائل گندمی رنگ، حسین چہرہ جس سے ذہانت، متانت اور شرافت برستی ہے!
جی ہاں! یہ ہیں ہمارے سلسلہ تعارف علماء کی اس بزم میں آج کے مہمان شیخ العرب والعجم، استاد القرا، الاستاد قاری محمدادریس عاصم حفظہ اللہ۔
آپ قیام پاکستان کے ڈیڑھ سال بعد 1949 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام محمدیعقوب تھا۔ آپ کی ولادت کے وقت چینیاں والی مسجد لاہور کے قریب سریاں والا بازار میں مقیم تھے۔ لہذا آپ کی ابتدائی تعلیم کا آغاز بھی یہاں سے ہوا۔چینیاں والی مسجد کے قریبی سکول سے پرائمری پاس کیا جبکہ قرآن مجید چینیا والی مسجد میں پڑھا۔آپ کی ولادت سے قبل وہاں مولانا عبدالواحد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ خطیب تھے۔ جن کے تقویٰ اور صالحیت سے متاثر ہوکر آپ کے والد کی خواہش تھی کہ میرا کوئی بیٹا بھی دین کا عالم اور قرآن کا قاری بن جائے۔بڑے بیٹے کو دینی تعلیم کے لیے داخل کرایا لیکن وہ نہ چل سکا۔ پھر آپ کو تحصیل علم کی شاہراہ پر گامزن کیا۔چینیاں والی مسجد میں ستائیسویں رات کو قیام اللیل ہوا کرتا تھا اور وتر حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ پڑھایاکرتے تھے۔ مولانا غزنوی اس رقت آمیز انداز میں وتر پڑھاتے کہ مسجد میں موجود کوئی فرد ایسا نہ ہوتا جس کی آنکھیں اشک بار نہ ہوتیں۔ اس مسجد کے محراب میں بڑے بڑے علماء رو رو کر دعائیں کرتے تھے۔ آپ کے والد نے بھی یہاں دعا کی کہ اللہ میرے بیٹے کو دین کے لیے منتخب فرمالے۔
پرائمری کے بعد آپ نے چینیاں والی مسجد میں حفظ شروع کیا۔ قاری اظہار احمد سے 1965 میں حفظ مکمل کیا۔1966 میں قاری صاحب سے ہی تجوید مکمل کی۔ تجوید کے بعد درس نظامی کے لیے آپ جامعہ محمدیہ رینالہ خورد چلے گیے۔وہاں آپ ایک سال رہے پھر بیمارہوگیے اور لاہورواپس آگیے۔کچھ عرصے بعد اپنے ایک قریبی عزیز کے مشورے پر جامعہ اسلامیہ گوجرانولہ چلے گیے جہاں حضرت ابوالبرکات رحمۃاللہ علیہ سے متعدد کتابیں پڑھیں، جن میں بخاری شریف، مسلم شریف، ابوداؤد اور ترمذی وغیرہ شامل ہیں۔آپ نے 1975 میں سند فراغت حاصل کی۔
درس نظامی مکمل کرلینے کے بعد آپ لاہور قاری اظہار احمد کے پاس آگیے اور سبعہ عشرہ پڑھنا شروع کردی۔ ہوا کچھ یوں کہ اس ادارے سے ایک کتابیں پڑھانے والے مدرس چلے گیے تھے۔ وہاں کی جماعت نے آپ کوپیغام بھیجا کہ یہاں آجائیں اور کتابیں پڑھائیں۔ 1976 میں آپ نے اس ادارے سے تدریس شروع کی اور ساتھ ساتھ قاری اظہار احمد سے سبعہ عشرہ مکمل کرلی۔
اس کے بعد آپ نے مدینہ یونیورسٹی سعودی عرب داخلہ کے لیے کاغذات بھیجے۔ اس سال آپ کے بہت سے دوستوں نے بھی داخلہ کے لیے درخواستیں ارسال کی تھیں۔ آپ کے کاغذات بغیرتصدیق گیے تھے جبکہ دوستوں نے تصدیق کرواکر کاغذات ارسال کیے تھے۔ مدینہ یونیورسٹی سے جواب آیا کہ اس سال کوٹہ پورا ہوچکا ہے آپ اگلے سال کے لیے سعودی سفارتخانے سے اپنی اسناد کی تصدیق کرواکر بھیجیں۔ اس کام کے لیے آپ تین دن سعودی سفارتخانے جاتے رہے لیکن وہاں آپ کی شنوائی نہ ہوئی۔ چوتھے دن کچھ پیسے لے کر آپ سفارتخانے پہنچ گیے۔وہاں پر اچانک آپ کی ملاقات مولانا عطاء اللہ ثاقب سے ہوگئی۔ مولانا ثاقب چینیاں والی مسجد میں مولانا داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کے نائب ہوا کرتے تھے اور وہاں درس وغیرہ بھی دیتے تھے۔انہوں نے آپ سے استفسار کیا کہ قاری صاحب آپ کیسے آئے ہیں۔آپ نے سارا قصہ سنا دیا۔ وہ آپ کو اپنے ساتھ لے کر سفارتخانے کے افسران کے پاس چلے گیے۔ انہوں نے سفارش کی کہ یہ ہماری جماعت کے قاری ہیں ان کے کاغذات کی تصدیق کردیں۔ انہوں نے آپ کواگلے دن آنے کا کہا۔ آپ اس دن پھر گیے اور انہوں نے آپ کی سندوں کی تصدیق کردی، چنانچہ آپ نے اپنے کاغذات دوبارہ بھیج دئیے۔
شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ زاہدی گوجرانوالہ میں آپ کے ساتھ پڑھتے رہے ہیں۔ ان کاداخلہ ایک سال پہلے مدینہ یونیورسٹی میں ہوچکا تھا۔ وہ آپ کے پاس آئے تو ان کو بتایا کہ میں نے کاغذات بھیجے ہیں لیکن واپس آگیے ہیں، اب دوبارہ بھیجے ہیں۔ حافظ ثناء اللہ زاہدی فرمانے لگے کہ ہم شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ کو خط لکھتے ہیں کہ وہ سفارش کریں۔ حافظ ثناء اللہ زاہدی نے آپ کی طرف سے خط بناکر شیخ ابن باز کی خدمت میں ارسال کردیا۔ شیخ ابن باز نے مدینہ یونیورسٹی میں آپ کی سفارش کردی اوریوں آپ کا داخلہ ہوگیا۔
وہاں پہنچ کر آپ کو یونیورسٹی کا رجسٹر دیکھنے کا موقع ملاتو اس پر لکھا تھا ”محمدادریس عاصم، شیخ ابن باز نے اس کی سفارش کی ہے“ لیکن اس سال تو کوٹہ مکمل ہوچکا ہے لہذا آئیندہ سال اس کا داخلہ ہوگا۔ یہ 1974 کا واقعہ ہے۔ مدینہ یونیورسٹی میں آپ پانچ سال زیرتعلیم رہے۔مدینہ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد مکہ مکرمہ تدریب المعلمین کے کورس میں داخلہ کے لیے انٹریودیا تو اس میں آپ پاس ہوگیے۔ اس سلسلے میں آپ ایک سال مکہ مکرمہ میں رہے۔ایک سالہ کورس مکمل کرنے کے بعد رابطہ عالم اسلامی نے آپ کونائجیریا بھیجنے کا فیصلہ کیا جس کے لیے انہوں نے آپ کے کاغذات وغیرہ بھی تیارکر دئیے تھے لیکن آپ نے وہاں جانے سے انکار کردیا۔آپ واپس پاکستان آنا چاہتے تھے۔انہوں نے آپ سے پوچھاکہ آپ پاکستان کیوں جانا چاہتے ہیں تو آپ نے جواب دیا کہ میں پاکستان میں تجوید وقراء ت کا کام کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آپ کے علاوہ کوئی قاری نہیں؟ آپ نے جواب دیا کہ ہیں۔ وہ کہنے لگے کہ تم سے پاکستان کے بارے میں پوچھ نہیں ہوگی جہاں ہم تمھیں بھیج رہے ہیں اس کے بارے میں ضرور پوچھ ہوگی اس لیے کہ وہاں کوئی قاری نہیں۔
بالآخر آپ پاکستان واپس آگیے اور لسوڑیاں والی مسجد لاہور میں تدریس کا آٖغاز کردیا۔ جلد ہی ملک کے نامور اداروں میں اس جامعہ کا شمار ہونے لگ گیا۔ آپ نے اس ادارے کو تجوید وقراء ت کا عظیم مرکز بنایا۔ جہاں سے اب تک ہزاروں کی تعداد میں قرا ء کرام فیض یاب ہوچکے ہیں۔ جن میں بڑے بڑے قراء شامل ہیں۔ درجنوں طلباء ہرسال آپ سے سند فراغت حاصل کرتے ہیں۔ ملک کے کونے کونے میں آپ کے شاگر خدمت قرآن اور اس کی اشاعت میں مصروف عمل ہیں۔
آپ نے اسی مسجد میں 1985 سے خطابت کا آغاز کیا جو تاحال جاری ہے۔ آپ کی خطابت سے متاثر ہوکر لوگو ں کی بڑی تعداد میں جمعۃ المبارک کے خطبات میں شرکت کرتے ہیں۔ جمعہ کا خطبہ شروع ہونے سے پہلے ہی مسجد کااندرونی وبیرونی حصہ بھر جاتا ہے۔
آپ نے بیالیس کتب تصنیف وتالیف کیں۔ اللہ کی رحمت و نصرت سے آپ کا قلم پوری آب وتاب کے ساتھ جاری ہے اور تحریری کام مسلسل آگے بڑھ رہاہے۔ آپ کی تحریر کردہ کتب کو ملک اور غیر ملک اہل علم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
ساری زندگی خدمت قرآن اور اس کی اشاعت میں صرف کردینے کے باوجود آپ کی یہی خواہش ہے کہ میراجنازہ اٹھے تو مسندتدریس سے اٹھے۔ اللہ میری محنت و کاوش کو قبول فرماکر میری نجات کا ذریعہ بنائے۔
ہماری اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ آپ کی عمرو عافیت میں برکت فرماکر اسے امت کے لیے نفع بخش بنائے۔ آمین
یہ بھی پڑھیں: قاری محمد اکبر اسد حفظہ اللہ
تحریر: صہیب یعقوب (بسلسلہ تعارف علماء)