آپ 1972 کو ٹھٹھہ لئی شادو ضلع اوکاڑہ میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام رائے غلام محمد تھا۔ اپنے علاقے کے بڑے زمیندار، زیرک اور معاملہ فہم انسان تھے۔ انہیں شوق تھا کہ آپ کو دین کا عالم بنائیں اور دینی اور دعوتی سرگرمیوں کے لیے وقف کردیں۔ چنانچہ قرآن پاک حفظ کرنے کے لیے آپ کو جامعہ اسلامیہ ڈھلیانہ میں داخل کرایا گیا۔ جہاں 1994 میں قاری نوراحمد سے قرآن مجید حفظ کیا۔ وہ آپ سے بڑی شفقت کرتے تھے۔ جب آپ جامعہ میں پڑھنے کے لیے آئے تو آپ کا دل نہیں لگتا تھا، قاری صاحب کے پاس ایک ریڈیو تھا جس سے وہ خبریں سنتے تھے، وہ آپ کو پکڑا دیتے تاکہ دل لگا رہے۔ شروع میں دو تین سال آپ قاری صاحب کے ساتھ جاتے کبھی پڑھ لیا اور کبھی چھوڑدیا۔ گھر والے بھی سمجھتے تھے کہ نابینا ہے اسے مدرسے میں داخل کرادیتے ہیں شائد پڑھ جائے۔
حفظ مکمل کرنے کے بعد آپ نے 1985 ء میں جامعہ عزیزیہ ساہیوال میں استاذ الاساتذہ قاری محمدیحیٰی رسولنگری ؒ سے تجوید مکمل کی۔ قاری صاحب بھی آپ سے بے حد پیار کرتے تھے۔ آپ جب جامعہ عزیزیہ میں آئے تو آپ کا دل نہیں لگتا تھا، اکثر روتے رہتے تھے۔ ایک روز قاری صاحب نے کہا یہ روتا رہتا ہے اس نے نہیں پڑھنا، اسے گھر بھیج دیں۔ آپ کے استاد قاری نور محمد نے کہا یہ پڑھے گا ضرور پڑھے گا۔ 1995 کا واقعہ ہے کہ آپ جامعہ عزیزیہ ساہیوال میں تقریر کرنے گئے تو قاری یحییٰ رسولنگری ؒ کو نہیں علم تھا کہ یہ وہی مقرر ہے جو دوران تعلیم روتا رہتا تھا۔ قاری صاحب کہنے لگے بھائی تمھارے متعلق سنا ہے کہ بڑی شہادت عثمان بیان کرتے ہو آج ہمیں بھی سناؤ۔ آپ نے ڈیڑھ گھنٹہ تقریر کی۔ ساری تقریر قاری صاحب روتے رہے۔ قاری صاحب کو فقط اتنا علم تھا کہ یہ قاری اکبر اسد ہے چونیاں سے آیا ہے یہ نہیں پتہ تھا کہ یہ ہمارے جامعہ کا طالب علم ہے۔ تقریر کے اختتام پر قاری صاحب نے آپ کو گلے لگایا۔ آپ نے عرض کی استاد جی آپ جانتے ہیں میں کون ہوں؟ قاری صاحب فرمانے لگے کہ تم قاری اکبر اسد ہو چونیاں سے آئے ہو۔ آپ نے عرض کیا کہ میں وہی قاری اکبر اسد ہوں جو 1985 میں آپ کے جامعہ میں قاری نور محمد کے پاس پڑھنے کے لیے آیا تھا اور بہت روتا تھا۔ یہ سن کر قاری صاحب بڑے خوش ہوئے اور ڈھیروں دعائیں دیں۔
1986 میں جامعہ اسلامیہ ڈھلیانہ میں درس نظامی شروع کیا اور ایک سال میں دو کلاسیں مکمل کرتے تھے۔ بخاری شریف شیخ الحدیث عبداللہ سعید سے پڑھی۔ آپ نے 1993 ء میں مشکوۃ المصابیح حفظ کی۔ اس وقت ٹیپ ریکارڈر کا دور تھا کیسٹوں میں ریکارڈ کرکے یاد کرتے تھے۔ اس کے بعد آپ نے صحیح بخاری شریف زبانی یاد کی۔ درس نظامی میں آپ کے اساتذہ میں حافظ عبدالرزاق بھی تھے، وہ بھی نابینا تھے انہیں حدیث کی تمام کتابیں زبانی یاد تھیں۔ آپ نے حافظ صاحب کے پاس مکمل قرآن پاک کی نحوی ترکیب پڑھی۔ شیخ الحدیث مولانا عبداللہ سعید کی سکول میں بطور ہیڈ ماسٹر تقرری ہو گئی تھی، حافظ عبدالرزاق نے انہیں کہا کہ ہم نے آپ کو دنیا کے لیے نہیں پڑھایا دین کے لیے پڑھایا ہے لہذا آپ سکول چھوڑ کر جامعہ میں آجائیں۔ ان کے حکم پر وہ سرکاری ملازمت چھوڑ کر جامعہ آگئے۔ درس نظامی میں علامہ محمد ادریس ؒ آپ کے معاون تھے وہ آپ کو مطالعہ کراتے تھے، سکول ٹیچر تھے عالم جوانی میں ہارٹ اٹیک سے وفات پاگیے تھے۔
1991 ء میں ماہ رمضان شروع ہونے والا تھا۔ نماز تروایح کے لیے آپ کی بات کراچی شہر کی ایک مسجد میں چل رہی تھی کہ چونیاں شہر کی شیخاں والی مسجد کی انتظامیہ کے کچھ افراد حافظ عبدالرزاق کے پاس گئے۔ کہنے لگے کہ ہمیں دیوبندی حضرات بڑے تنگ کرتے ہیں۔ وہ لقمے دیتے ہیں اور غلطیاں نکالتے ہیں۔ ہمیں نماز تراویح کے لیے کوئی ایسا حافظ دیں جس کی وہ لوگ غلطی نہ نکال سکیں۔ حافظ صاحب فرمانے لگے میں آپ کو وہ حافظ دوں گا جس کو سننے کے بعد دیوبندی بھاگ جائیں گے۔ اور یہ دیوبندیوں کے پیچھے جائے گا اور ان کی غلطیاں نکالے گا۔ اس سال نماز تروایح پڑھانے کے بعد آپ نے مستقل چونیاں شہر کو اپنا مسکن بنالیا۔ شیخاں والی مسجد میں تین سال نماز تراویح میں قرآن مجیدسنایا، اسکے بعد آپ نے اسی شہر میں اپنا ادارہ قائم کرلیا۔
1993 میں جب آپ شیخاں والی مسجد میں نماز تروایح کے لیے آئے تھے اسی اثناء میں آپ درس بھی دیتے تھے۔ مسجد کی انتظامیہ کے کچھ لوگوں نے آپ سے کہا کہ اس بار جمعۃ المبارک کا خطبہ آپ دیں گے۔ اس وقت اس مسجد میں قاری عبیداللہ احسن صاحب مستقل خطابت کررہے تھے۔ آپ نے وہ جمعہ پڑھایا۔ جمعہ کے بعد انتظامیہ نے آپ کو کہا کہ آج کے بعد ہمارے مستقل خطیب آپ ہیں۔ چنانچہ آپ 1994 تک خطابت کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ اسی دوران ایک جمعہ آپ نے جلوس کے رد میں پڑھایا۔ اس کے بعد بریلوی مسلک کے لوگ اپنے مسلح لوگوں کے ساتھ حملہ آور ہونے کے لیے آگیے۔ آپ نے بڑی بہادری اور دلیری کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا۔
آپ کے صاف و شستہ انداز، سلجھی ہوئی زبان اور نستعلیق خطابات سے متاثر ہوکر بے شمار لوگوں نے اپنی زندگی بدل لی ہے۔ نمازیں قائم کرلیں اور سنت کے مطابق داڑھی رکھ لی ہے۔ شرک وبدعت کو ترک کرکے اہل حدیث مسلک اختیارکرلیا۔ چونیاں شہر میں سب سے بڑا اجتماع آپ کے خطبہ جمعہ میں ہوتاہے۔ جس میں آپ بڑے دلیرانہ انداز میں مسلک کا پرچار کرتے ہیں۔ کئی سال پہلے حافظہ آباد میں ختم نبوت کے عنوان پر ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں دیوبندی اور بریلوی مسلک کے علماء بھی مدعو کیے گیے تھے۔ اہل حدیث کی طرف سے آپ کو بلایا گیا۔ دیوبندی اور بریلوی علماء نے بڑے زورانداز میں خطابات کیے۔ آپ کے ساتھی کہنے لگے کہ آج کیا بنے گا؟ بڑی بڑی تقریریں ہوئی ہیں۔ آپ نے کہا اللہ خیر کرے گا۔ آپ نے تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ خطاب کیا جس کو سن کر درجنوں لوگ مسلک اہل حدیث میں داخل ہو گئے۔
آپ کو تدریس کا بے حد شوق تھا۔ آپ کے اساتذہ نے بڑی محنت سے تدریس کے لیے پڑھایا تھا۔ درس نظامی سے فراغت کے بعد آپ اپنے جامعہ میں تفسیر بیضاوی، مقامات حریری اور حدیث کی کتاب ابوداؤد پڑھاتے رہے۔ حال ہی میں آپ نے صحیح بخاری شریف آن لائن پڑھائی ہے۔ آن لائن بخاری شریف پڑھنے والے طلباء کی ایک بڑی تعداد ہے جو پاکستان کے علاوہ دیگر ملکوں سے تعلق رکھتی ہے یہ ایک اعزاز ہے جو جماعت کے اس عظیم سپوت کے حصے میں آیاہے۔
آپ نے دو شادیاں کی ہیں۔ پہلی 1989 میں الہ آباد ضلع قصور میں ہوئی۔ دوبیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ دوسری بیٹی 2014 میں پتوکی میں ہوئی۔ اس سے کوئی اولاد نہیں۔

یہ بھی پڑیں: حضرت مولانا حافظ محمد یعقوب آف کوٹرادہاکشن

تحریر: صہیب یعقوب (بسلسلہ تعارف علماء)