قاری صاحبان کی سی وی CV
سی وی یعنی (Curriculum vitae) کو عربی میں ’السيرة الذاتية’ کہا جاتا ہے۔
سی وی میں بنیادی طور پر تین چیزیں ہوتی ہیں:
1۔ رسمی تعلیمی قابلیت (ڈگریاں وغیرہ)
2۔ عملی صلاحیت یعنی ان سکلز اور مہارتوں کا ذکر جن پر کسی شخص کو عبور ہے۔
3۔ کام کا عملی تجربہ (پراجیکٹس اور سابقہ ملازمتوں کی تفصیل)
کاروباری دنیا میں کسی بھی جگہ ملازمت کی درخواست کے لیے سب سے پہلی چیز ’سی وی’ کا مطالبہ ہوتا ہے، تاکہ کسی بھی شخصیت سے متعلق یہ تینوں نمایاں ہوں!
لیکن ان پڑھ طبقے یا کم تر آسامیوں اور ملازمتوں کے لیے سی وی وغیرہ کا تکلف نہیں کیا جاتا، کیونکہ ان میں کسی کی قابلیت و صلاحیت یا عملی تجربے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ ایک عام فرد کی ضرورت ہوتی ہے، جس کو کسی بھی کام پر کسی بھی طرح اور کسی بھی قیمت پر لگایا جا سکتا ہے۔
مساجد و مدارس بھی انہیں لوگوں میں شمار ہوتے ہیں، جن میں چھوٹے بڑے اور باصلاحیت اور بے صلاحیت کی تمیز کیے بغیر فرد واحد کی پسند نا پسند کی بنیاد پر کسی شخص کو ہائر/فائر کر دیا جاتا ہے۔
یہ خوش آئند بات ہے کہ مساجد و مدارس کے حوالے سے بھی اب شعور بیدار ہو رہا ہے کہ اور کچھ حضرات ان دینی اداروں کو بھی اسی لیول پر چلانا چاہتے ہیں، جس طرح وہ اپنے دنیاوی کاروبار پر توجہ دیتے ہیں!
لیکن اس حوالے سے بہتر طریقہ کار یہ ہے کہ ائمہ کرام، قاری صاحبان وغیرہ کو باقاعدہ ایجوکیٹ کیا جائے اور انہیں ان انتظامی امور کی اہمیت اجاگر کروائی جائے اور ان رسمی کاغذات کی تیاری میں ان کی مدد کی جائے!
اور انہیں بتایا جائے کہ CV یا Resume کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جسے سن کر آپ پریشان ہو جائیں، اس ڈاکومنٹ میں جو کچھ لکھنا مطلوب ہوتا ہے، وہ سب چیزیں ایک امام، قاری، عالم میں موجود ہوتی ہیں، ان کے لیے الگ سے کوئی ڈگری کرنے کی ضرورت نہیں۔
مثلا ایک قاری صاحب جنہوں نے تحفیظ کے لیے اپلائی کرنا ہے، ان کی سی وی میں درج ذیل چیزیں ہو سکتی ہیں:
0۔ نام، ولدیت، ایڈریس، موبائل نمبر وغیرہ شخصی معلومات
1۔ حفظ و تجوید کی ہوئی ہے تو یہ ان کی رسمی تعلیمی قابلیت ہے۔
2۔ موبائل/ کمپیوٹر کے ذریعے رپورٹ اپڈیٹ کر سکتے ہیں تو یہ ان کی مہارت (سکلز) میں آ جائے گا۔ اسی طرح امامت، خطابت وغیرہ بھی سکلز ہیں۔
3۔ کسی جگہ حفظ، تجوید وغیرہ آن لائن/ آن سائٹ کوئی بھی کلاس پڑھا چکے ہیں، یا امامت و خطابت کروا چکے ہیں تو یہ ان کا تجربہ ہے۔
بہرصورت نظام کی بہتری میں ایک چیز یہ ہے کہ ڈاکومنٹیشن کا سلسلہ لاگو اور بہتر کیا جائے۔ لیکن یہ ساری ترقی صرف ملازم طبقے نے ہی نہیں کرنی، اداروں کے ذمہ داران کی بھی بہت ذمہ داریاں ہیں۔
استاذ کا عزت و احترام نہ مناسب سیلری، نہ اس کے حقوق و فرائض کی کوئی تفصیل اور حدود کا تعین…..! ایسی صورت میں سی وی مانگنا زیادتی ہے!
سی ویز کے حوالے سے ابھی آپ انٹرنیٹ پر سرچ کریں گے تو آپ کو ہر زبان میں تیار شدہ ٹیمپلیٹس مل جائیں گے، جن میں مرضی کے مطابق تبدیلی کرکے آسانی سے اپنی سی وی تیار کی جا سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مذہبی طبقے کے لیے بھی اس قسم کی سہولیات کو عام کیا جائے، تاکہ بوقت ضرورت اسے استعمال کیا جا سکے!
#خیال_خاطر