سوال (1228)

ایک سوال ہے قسطوں کے کاروبار کے حوالے سے یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ ایک چیز آپ نے خود نقد میں خریدی ہے اور آگے اپنی مرضی سے قسطوں میں فروخت کردی ہے ، لیکن کیا گھر کے مینٹنس میں قسطوں کا کاروبار چل سکتا ہے یا نہیں ؟ مثلاً کسی کے گھر میں مینٹنس کا کام ایک لاکھ روپے کا ہے ، وہ کہتا ہے کہ یہ کام ایک لاکھ کا مجھے کرکے دے دو ، آپ مجھ سے پیسے قسطوں میں منافع سمیت وصول کرتے جائیں ، یعنی آپ مجھ سے دس ہزار یا پندرھ ہزار مہینہ وصول کرلیں ، تو کیا یہ صورت جائز ہے ؟

جواب

جی یہ اگر قیمت طے کر لے تو جائز ہے ، قسطوں کا کاروبار بھی جائز ہے اگر دو قیمتوں میں سے ایک قیمت طے کر لے. اس کا جواز تابعین اور آئمہ دین سے ثابت ہے ، بعض اہل علم نے اس کے جواز پر علماء کا اتفاق نقل کیا ہے
مزید تفصیل کے لیے یہ لنک دیکھیے

YouTube player

سائل : شیخ محترم سوال کرنے والے نے بیان کیا ہے ٹھیکہ ایک لاکھ کا ہے ، لیکن پیسے قسطوں میں ادا کرے گا اور اس حالت میں وہ اسے لاکھ کی جگہ ڈیڑھ لاکھ ادا کر دے گا تو یہ کیسے جائز ہوا ہے ، جب کہ ابو داؤد میں غالباً حدیث ہے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا سود صرف ادھار میں ہے ۔
جواب : اگر اس طرح طے ہو کہ یہ ٹھیکہ نقد ایک لاکھ کا ہے اور ادھار ڈیڑھ لاکھ کا اور ان میں سے ایک قیمت طے ہو جائے تو یہ جائز ہے ۔

فضیلۃ الباحث واجد اقبال حفظہ اللہ

سائل : شیخ محترم جو احادیث میں آتا ہے کہ سود صرف ادھار میں ہے اس کی وضاحت فرما دیں اس سے کیا مراد ہے ؟
جواب : جی جب ایک ہی جنس کی دو چیزوں میں آپ نے تبادلہ کرنا ہے تو پھر نقد اور برابری شرط ہے جیسے درہم کے بدلے درہم گندم کے بدلے گندم اس صورت میں ادھار سود ہو گا ۔

فضیلۃ الباحث واجد اقبال حفظہ اللہ