قرآن کریم اور رزق کی تلاش!

اگرچہ رزق کے موضوع پر قرآنِ کریم میں بہت سی آیات موجود ہیں، لیکن ہم یہاں چند منتخب آیات پر رک کر ان کے گہرے معانی و اشارات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ آئیے سورۃ “الملک” سے آغاز کرتے ہیں، جہاں اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین میں چلنے پھرنے اور کوشش کرنے کا حکم دیا ہے:

{فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِن رِّزْقِهِ}

(سو تم زمین کے راستوں میں چلو پھرو اور اللہ کے رزق میں سے کھاؤ)۔ یہاں قرآن کے اندازِ بیان کی باریکی پر غور کریں؛ کھانے کا حکم “اس (اللہ) کے رزق” سے دیا گیا ہے، نہ کہ کسی اور کے رزق سے۔ اور پھر آیت کے اختتام پر ایک فیصلہ کن یاد دہانی کرائی گئی:

{وَإِلَيْهِ النُّشُورُ}

(اور اسی کی طرف دوبارہ جی اٹھنا ہے)۔
آیت کا یہ اختتامی حصہ آپ کو اپنی دنیاوی بھاگ دوڑ کے عین درمیان آخرت سے جوڑ دیتا ہے، گویا آپ سے کہا جا رہا ہے کہ: جب تم اپنا تقسیم شدہ رزق تلاش کر رہے ہو، تو خبردار! تمہارا دل غیر اللہ کے ساتھ نہ اٹک جائے، اور یاد رکھنا کہ قیامت کے دن تمہیں حساب دینا ہے۔

اب ہم ایک اور منظر کی طرف چلتے ہیں جو یہ واضح کرتا ہے کہ رزق، اگرچہ محنت و کوشش کا متقاضی ہے، مگر درحقیقت یہ محض اللہ کا فضل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ “الکہف” میں دو آدمیوں کی مثال بیان فرمائی ہے، جن میں سے ایک کسان تھا جسے اللہ نے رزق میں وسعت عطا کر رکھی تھی:

{جَعَلْنَا لِأَحَدِهِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ أَعْنَابٍ وَحَفَفْنَاهُمَا بنَخْلٍ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَرْعًا}

(ہم نے ان میں سے ایک کو انگوروں کے دو باغ دیے، اور ہم نے ان دونوں کو کھجوروں کے درختوں سے ڈھک دیا، اور ہم نے ان دونوں کے درمیان کھیتی لگا دی)۔
یہاں تین افعال (جعلنا، حففنا، جعلنا یعنی ہم نے بنایا، ہم نے ڈھکا، ہم نے اگایا) پر غور کریں؛ یہ سب کے سب اللہ کی طرف منسوب ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پیداوار سو فیصد مثالی تھی:

{كِلْتَا الْجَنَّتَيْنِ آتَتْ أُكُلَهَا وَلَمْ تَظْلِم مِّنْهُ شَيْئًا}

(دونوں باغ اپنے پھل لائے اور اس میں کوئی کمی نہیں کی)، اور پانی بھی وافر مقدار میں میسر تھا:

{وَفَجَّرْنَا خِلَالَهُمَا نَهَرًا}

(اور ہم نے ان دونوں کے درمیان ایک نہر جاری کر دی)۔

یہ شخص، جو کہ زراعت کا دقیق علم اور دوسروں سے بڑھ کر تجربہ رکھتا تھا، بجائے اس کے کہ اللہ کا شکر ادا کرتا، اس نے اس کامیابی کو اپنی ذات اور مادی اسباب کی طرف منسوب کر دیا۔ اس نے اپنے ساتھی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا:

{أَنَا أَكْثَرُ مِنكَ مَالًا وَأَعَزُّ نَفَرًا}

(میں تجھ سے مال میں زیادہ ہوں اور جتھے کے اعتبار سے زیادہ زبردست ہوں)۔ اس کے اندر غرور در آیا، اور اس نے گمان کر لیا کہ یہ نعمت ہمیشہ رہے گی، چنانچہ بولا:

{مَا أَظُنُّ أَن تَبِيدَ هَذِهِ أَبَدًا}

(میں نہیں سمجھتا کہ یہ باغ کبھی برباد ہوں گے)۔ بلکہ اس نے جرات کرتے ہوئے قیامت کے قیام کا ہی انکار کر دیا، اور دعویٰ کیا کہ اگر اسے اپنے رب کی طرف لوٹایا بھی گیا تو وہ وہاں بھی اپنی “ذاتی قابلیت” کی بنا پر اس سے بہتر ہی پائے گا۔

یہاں اس کا ساتھی مداخلت کرتا ہے تاکہ اس کے ٹیڑھے راستے کو سیدھا کرے اور اس کی سوئی ہوئی فطرت کو بیدار کرے:

{أَكَفَرْتَ بِالَّذِي خَلَقَكَ مِن تُرَابٍ…}

(کیا تو اس ذات کا انکار کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے پیدا کیا…)، اور پھر اپنے عقیدے کا واشگاف اعلان کرتا ہے:

{لَّكِنَّا هُوَ اللَّهُ رَبِّي}

(لیکن میں تو یہ کہتا ہوں کہ وہی اللہ میرا رب ہے)۔
اس نے نصیحت کی کہ وہ اس فضل کو اللہ کی طرف لوٹائے اور یہ کہے:

{مَا شَاءَ اللَّهُ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ}

(جو اللہ نے چاہا، اللہ کی مدد کے بغیر کوئی قوت نہیں)۔ اور ساتھ ہی متنبہ کیا کہ اللہ اس بات پر قادر ہے کہ وہ ایک لمحے میں اس نعمت کو چھین لے، آسمان سے کوئی “حسبان” (عذاب/بجلی) بھیج دے یا زمین کا پانی خشک کر دے، پھر نہ اس کا زرعی تجربہ کام آئے گا اور نہ ہی اس کے وسائل۔

باغ کا مالک اپنے مادی نظریے پر اڑا رہا، یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ گیا:

{وَأُحِيطَ بِثَمَرِهِ}

(اور اس کے پھلوں کو گھیر لیا گیا)۔ یہاں قرآن نے “أُحِيطَ” کا لفظ “صیغہ مجہول” (Passive Voice) میں استعمال کیا ہے، جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایسی آفات اور تباہی نازل ہوئی جو نہ اس کے وہم و گمان میں تھی اور نہ ہی اس کے زرعی علوم کے دائرے میں۔
تب جا کر اس کی آنکھوں سے اسباب کا پردہ ہٹا، اور وہ ندامت سے ہاتھ ملتے ہوئے کہنے لگا:

{يَا لَيْتَنِي لَمْ أُشْرِكْ بِرَبِّي أَحَدًا}

(کاش میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا)۔ اس کمر توڑ آزمائش نے اسے دوبارہ توحید کی طرف پلٹا دیا، اور اسے احساس ہو گیا کہ

{وَلَمْ تَكُن لَّهُ فِئَةٌ يَنصُرُونَهُ مِن دُونِ اللَّهِ}

(اور اس کے پاس کوئی جماعت نہ تھی جو اللہ کے مقابلے میں اس کی مدد کرتی)۔

یہ قصہ دراصل اس عمومی قانون کا عملی اطلاق ہے جس کا ذکر اللہ نے ایک اور آیت میں فرمایا ہے:

{حَتَّىٰ إِذَا أَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّيَّنَتْ وَظَنَّ أَهْلُهَا أَنَّهُمْ قَادِرُونَ عَلَيْهَا}

(یہاں تک کہ جب زمین نے اپنی رونق پکڑ لی اور خوب آراستہ ہو گئی اور اس کے مالکوں نے گمان کر لیا کہ اب وہ اس پر پوری طرح قادر ہیں)۔ جب انسان مادی غرور کی انتہا کو پہنچ جاتا ہے، تو اللہ کا حکم اچانک آ جاتا ہے:

{أَتَاهَا أَمْرُنَا}

(ہمارا حکم اس پر آ گیا)—یہاں کسی تاخیر کا ذکر نہیں (نہ “ف” استعمال ہوا نہ “ثم”)—اور وہ کھیتی ایسی کٹی ہوئی ہو گئی گویا کل وہاں کچھ تھا ہی نہیں۔

اس قصے کے قرآنی لطائف میں سے ایک یہ ہے کہ لفظ “صاحبہ” (اس کا ساتھی) دو بار استعمال ہوا ہے۔ پہلی بار، جب بظاہر یہ گمان تھا کہ ان دونوں کا عقیدہ ایک ہی ہے، تو قرآن کے رسم الخط میں یہ لفظ ملا کر لکھا گیا ہے۔ لیکن دوسری بار، جب ایمان اور کفر کا اختلاف کھل کر سامنے آ گیا، تو مصحف میں اس لفظ کے رسم الخط میں ایک “الف” کا اضافہ کر دیا گیا جو دونوں حروف کے درمیان فاصلہ بن گیا، گویا قرآنی رسم الخط بھی اس جدائی کی طرف اشارہ کر رہا ہے جو ان کے عقائد کے درمیان واقع ہو گئی تھی۔

اللہ اپنے بندوں کو عذاب نہیں دینا چاہتا، بلکہ وہ ان کا شکر چاہتا ہے تاکہ انہیں مزید عطا کرے:

{لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ}

(اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں ضرور زیادہ دوں گا)۔ یہاں قرآن ہمیں رزق کے دیگر پہلوؤں اور بلندیوں کی سمجھ عطا کرتا ہے:

آسمانی پہلو:

{وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ}

(اور تمہارا رزق آسمان میں ہے)۔ یہ تصور انسان کو زمینی اسباب سے ہٹا کر آسمان والے “مسبب الاسباب” سے جوڑ دیتا ہے۔

رزق میں توحید:

{يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُم ۚ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ يَرْزُقُكُم}

(اے لوگو! تم پر اللہ کا جو انعام ہے اسے یاد کرو، کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے جو تمہیں رزق دیتا ہو؟)۔ جس طرح تم یقین رکھتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی خالق نہیں، اسی طرح یہ یقین بھی لازم ہے کہ اس کے سوا کوئی رازق نہیں۔

خصوصی عنایت: جب بندہ اس یقین کی منزل پا لیتا ہے، تو اللہ اسے اپنی خصوصی عنایت سے نوازتا ہے۔ جیسا کہ حدیثِ نبوی میں اس شخص کا ذکر ہے جس نے بادل میں ایک آواز سنی جو کہہ رہی تھی “فلاں کے باغ کو سیراب کرو”۔ یہ ایک “خصوصی نظام” تھا جو اللہ نے اس کی تقویٰ کی بدولت اس کے لیے جاری فرمایا۔

آسمانوں کے خزانے: خطاب مزید بلند ہوتا ہے:

{قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ}۔

یہاں “السماوات” (آسمانوں) کا لفظ جمع کے صیغے میں استعمال ہوا ہے، تاکہ یقین رکھنے والوں کے لیے وسعت کے نئے افق کھل سکیں۔

رزقِ لدنی: اور یہ رزق کا سب سے اعلیٰ مرتبہ ہے،

{رِزْقًا مِّن لَّدُنَّا}

(ہماری طرف سے خاص رزق)۔ اس کی مثال حضرت مریم علیہا السلام کا واقعہ ہے:

{كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقًا}

(جب بھی زکریا محراب میں ان کے پاس جاتے، ان کے پاس رزق پاتے)۔ یہ وہ رزق ہے جو معروف مادی اسباب کے بغیر آتا ہے، یہ اس ہستی کا اکرام ہے جو اللہ کے لیے سب سے کٹ کر رہ جائے۔

ہم آج ٹیکنالوجی کے دور میں دیکھتے ہیں کہ کس طرح ذرائع ابلاغ اور کام کے طریقے مشکل سے آسانی کی طرف (محض ایک لمس یا ٹچ تک) منتقل ہو چکے ہیں۔ بالکل اسی طرح، روحانی ترقی اور اللہ پر کامل یقین انسان کے لیے رزق اور عنایتِ الٰہی کے ایسے دروازے کھول دیتا ہے جو مادی قوانین کی روایتی سختیوں سے ماورا ہوتے ہیں، بشرطیکہ انسان کا رخ درست ہو اور اللہ پر توکل سچا ہو۔

استاد محمد مقرمی رحمہ اللہ

یہ بھی پڑھیں:شوھر کی بات مانوں یا “امیر محترم” اور “نظم” کی؟