سوال

قربانی کا حکم کیا ہے؟ قربانی کی فضیلت میں احادیث مروی ہیں؟ سلف صالحین میں سے کسی سے قربانی نہ کرنا ثابت ہے؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • قربانی سنتِ ابراہیمی ہے ، اور اسوہ حسنہ بھی ۔ ارشاد باری ہے :

{فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} [الكوثر: 2]

اپنے رب کے لئے نماز پڑھئے اورقربانی کیجئے۔

قربانی کی اسی اہمیت کے پیشِ نظر  مروی ہے:

( مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ، وَلَمْ يُضَحِّ، فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا ) (ابن ماجہ: 3123)

جو شخص قربانی کی طاقت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔

اس حدیث کی نسبت میں کلام ہے، بعض اہل علم نے اسے موقوفا صحیح کہا ہے [تفصیل کے لیے دیکھیں:التبیان فی تخریج احادیث بلوغ المرام:11/111]، ہر دو صورتوں (موقوفا یا مرفوعا) میں یہ کم ازکم قابلِ استیناس ہے، بالخصوص دیگر احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔

عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں دس سال قیام پذیر رہے، اور ہر سال قربانی فرماتے رہے۔ [سنن ترمذی:1507]

البتہ قربانی کی فضیلت سے متعلق بعض احادیث مروی ہیں، جو کہ پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی ، جیسا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا  سے مروی ایک حدیث میں ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یوم النحر  یعنی قربانی والے دن جانور کا خون بہانے سےبہتر کوئی عمل نہیں ہے، قیامت والے دن ذبیحہ کے سینگ، بال، ناخن تک اس کےنامہ اعمال میں شمار کیے جائیں گے، اور خون تو زمین پر گرنےسے قبل اللہ کے ہاں پہنچ جاتا ہے۔ [ترمذى:1439، ابن ماجہ:3126]

یہ حدیث سندا ضعیف ہے، کئی ایک اہل علم نے اس کو ضعیف قرار دیاہے۔ [العلل للدارقطنی:3823، السلسلۃ الضعیفۃ:526] مزید احادیث اور ان پر کلام ملاحظہ کرنے کے لیے حافظ ذہبی کی تلخیص المستدرک، اور تلخیص السنن الکبیر میں کتاب الضحایا ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ خلاصہ یہی ہے کہ قربانی کی خاص فضیلت سے متعلق وارد احادیث عموما  کلام سے خالی نہیں ہیں ،  جیسا کہ قاضی ابن العربی مالکی فرماتے ہیں:

“ليس في فضل الأضحية حديثٌ صحيحٌ، وقد روى الناس فيها عجائب لم تصح.” ( عارضة الأحوذي 6/ 228)

’قربانی کی فضیلت میں کوئی  صحیح حدیث نہیں ہے، کچھ لوگوں نے اس میں عجیب وغریب  غیر صحیح باتیں نقل کی ہوئی ہیں‘۔

علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے اس قول کی تائید کی ہے،لیکن ساتھ اس کی توجیہ بھی کی ہے کہ ابن العربی نے ’صحت‘ کی نفی کی ہے، ’حسن‘ کی نفی نہیں کی۔ (تحفۃ الاحوذی:5/63) اسی قسم کی بات حافظ ابن عبد البر نے بھی فرمائی ہے کہ ’قربانی کی فضیلت میں بعض  حسن درجے کے آثار وارد ہیں‘۔ (التمہید:23/192)

بہرصورت قربانی کی بنیادی فضیلت ومشروعیت قرآن وسنت سے ثابت  ہے، جیساکہ شروع میں گزرا۔

لہذا یہ سنتِ مبارکہ عہدِ نبوی سے لیکر،دورِ صحابہ وتابعین اور آج تک مسلمانوں میں  جاری وساری ہے ۔ كئی ایک اہلِ علم نے اس کی مشروعیت پر اجماع نقل کیا ہے۔

  • بلکہ خیر القرون میں قربانی کرنا اس قدر عام تھا کہ گویا یہ ایک واجب اور فرض کا درجہ رکھتی ہے، لہذا اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے کئی ایک سلف صالحین سے قربانی نہ کرنا بھی منقول ہے، لہذا:
  • ابو سریحہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر دونوں میرے پڑوسی تھے اور دونوں قربانی نہیں کرتے تھے۔[معرفۃ السنن والآثار للبیہقی: 5633، مسند الفاروق: 332/1]

امام نووی فرماتے ہیں: حضرت ابوبکر اور حضرت عمر سے صحیح ثابت ہے کہ وہ اس ڈر سے قربانی نہ کرتے تھے کہ لوگ اسے واجب نہ سمجھ لیں۔[المجموع شرح المہذب: 383/8]

  • حضرت عقبہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے ارادہ کیا کہ قربانی چھوڑدوں، حالانکہ میں تم سب سے زیادہ استطاعت والا ہوں، کہ کہیں لوگ قربانی کو واجب نہ سمجھنے لگیں۔[مصنف عبدالرزاق: 8148]
  • حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قربانی واجب نہیں۔ تم میں سے جو کوئی قربانی کرنا چاہے کر لے اور جو چاہے نہ کرے۔”[مصنف عبدالرزاق: 8137]

اور اس قسم کے مزید بھی کچھ آثار سلف صالحین سے مروی ہیں،امام ابن عبد البر  اس طرح کے بعض آثار ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

“مَحْمَلُهُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لِئَلَّا يُعْتَقَدَ فِيهَالِلْمُوَاظَبَةِ عَلَيْهَا أَنَّهَا وَاجِبَةٌ فَرْضًا وَكَانُوا أَئِمَّةً يَقْتَدِي بِهِمْ مَنْ بَعْدَهُمْ مِمَّنْ يَنْظُرُ فِي دينه إليهم لأنهم الواسطة بين النبي وَبَيْنَ أُمَّتِهِ فَسَاغَ لَهُمْ مِنَ الِاجْتِهَادِ فِي ذَلِكَ مَا لَا يَسُوغُ الْيَوْمَ لِغَيْرِهِمْ وَالْأَصْلُ فِي هَذَا الْبَابِ أَنَّ الضَّحِيَّةَ سُنَّةٌ مُؤَكَّدَةٌ لأن رسول الله فَعَلَهَا وَوَاظَبَ عَلَيْهَا أَوْ نَدَبَ أُمَّتَهُ إِلَيْهَا وَحَسْبُكَ أَنَّ مِنْ فُقَهَاءِ الْمُسْلِمِينَ مَنْ يَرَاهَا فرضا…” (التمهيد (24/ 195)

ان آثار کا اہلِ علم کے ہاں مطلوب ومقصود یہی ہے تاکہ  ان صحابہ کرام کی قربانی پر ہمیشگی کی وجہ سے کوئی اسے فرض اور واجب نہ سمجھ لے، کیونکہ لوگ انہیں بطور امام و مقتدی سمجھتے تھے، کیونکہ وہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور امت کے درمیان واسطہ ہیں،  لہذا ان کے لیے اس عذر کے باعث ترکِ قربانی  والے اجتہاد کی گنجائش تھی،جبکہ د ر حقیقت یہ سنتِ موکدہ ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہ صرف کیا، بلکہ اس پر ہمیشگی فرمائی، اور امت کو ترغیب دلائی، اور اسی اہمیت کے پیشِ نظر بعض ائمہ کرام اسے فرض خیال کیا کرتے تھے…!

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

نوٹ:قربانی  کی حکمت وفوائد سے متعلق مزید تفصیلات کے لیے فتوی نمبر  [10] ملاحظہ کیجیے۔

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الرؤف بن  عبد الحنان حفظہ اللہ