قربانی کی استطاعت نہ رکھنے والے نماز عید کے بعد اپنے ناخن اور بال کاٹیں
✍️ ڈاکٹر عبدالحلیم بسم اللہ
(جامعہ سلفیہ، بنارس)
قربانی ایک اہم ترین عبادت ہے جس کے ذریعے بندہ اللہ سے تقرب حاصل کرتا ہے۔ تاہم بعض اوقات ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کے لیے مالی تنگی یا دیگر مجبوریوں کی وجہ سے قربانی کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
اس حوالے سے بارہا یہ سوال سامنے آتا ہے کہ جو افراد قربانی کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے، کیا وہ بھی ان لوگوں کی طرح اپنے بال اور ناخن نہ کاٹیں جو قربانی کا ارادہ رکھتے ہیں، اور یہ عمل عید کی نماز کے بعد انجام دیں؟ یا یہ حکم صرف انہی کے لیے مخصوص ہے جو قربانی کر رہے ہوں؟
چنانچہ دینِ اسلام نے ایسے افراد کے لیے بھی واضح رہنمائی فرمائی ہے تاکہ وہ بھی اس عظیم موقع پر اجر وثواب حاصل کر سکیں۔ اس سلسلے میں نبی کریم ﷺ کی ایک حدیث مروی ہے:
عن عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما، أَنَّ النبي ﷺ قال: «أُمِرْتُ بِيَوْمِ الْأَضْحَى عِيدًا جَعَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ» قال الرجلُ: أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَجِدْ إِلَّا أُضْحِيَّةً أُنْثَى أَفَأُضَحِّي بِهَا؟ قال: «لَا، وَلَكِنْ تَأْخُذُ مِنْ شَعْرِكَ وَأَظْفَارِكَ وَتَقُصُّ شَارِبَكَ وَتَحْلِقُ عَانَتَكَ، فَتِلْكَ تَمَامُ أُضْحِيَّتِكَ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ»
ترجمہ: عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”مجھے اضحیٰ کے دن کے متعلق حکم دیا گیا ہے کہ اسے بطور عید مناؤں، جسے اللہ عز وجل نے اس امت کے لیے مقرر کیا ہے۔“ ایک آدمی نے کہا: ”آپ بتائیں کہ اگر مجھے مادہ منیحہ (دودھ دینے والا جانور) کے سوا کوئی جانور نہ ملے تو کیا میں اس کی قربانی کر دوں؟“ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ اپنے بال کاٹ لو، ناخن اور مونچھیں تراش لو اور زیر ناف کی صفائی کر لو۔ اللہ کے ہاں تمہاری یہی کامل قربانی ہوگی۔“
🔸 حدیث کی تخریج:
اس حدیث کی تخریج امام ابو داود رحمہ اللہ نے اپنی سنن (2789) میں کی ہے۔ انہوں نے فرمایا:
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي عَيَّاشُ بْنُ عَبَّاسٍ الْقِتْبَانِيُّ، عَنْ عِيسَى بْنِ هِلَالٍ الصَّدَفِيِّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ … الحدیث
ان کے علاوہ دیگر کئی محدثین نے بھی اس حدیث کو اپنی اپنی كتابوں میں روایت کیا ہے، مثلاً:
▪️ امام أحمد – المسند (حدیث: 6575)
▪️ نسائی – المجتبى (حدیث: 4365)
▪️ بزار – المسند (حدیث: 2459)
▪️ طحاوى – شرح مشكل الآثار (حدیث: 5530)
▪️ ابن حبان – الصحيح (حدیث: 5914)
▪️ طبرانى – المعجم الكبير (حدیث: 14740)
▪️ دارقطنى – السنن (حدیث: 4749)
▪️ حاكم نيسابورى – المستدرك (ج 4، ص 223)،
▪️ بيهقى – السنن الكبرى (ج 9، ص 263)
وغیرہم نے مختلف طرق سے یہ حدیث عیسیٰ بن ہلال صدفی کے واسطے سے عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے نقل کی ہے۔
چنانچہ بعض نے اس حدیث کو مطولا روایت کیا ہے، جس کی ابتدا فضائلِ قرآن سے متعلق ہے، اور بعض نے صرف قربانی سے متعلق حصے پر اکتفا کیا ہے۔
🔸 اسنادِ حدیث کا جائزہ:
اس حدیث کی سند میں “عیسیٰ بن ہلال الصدفی” کے سوا باقی تمام راوی ثقہ اور صحیحین کے رواۃ ہیں، سوائے “عیاش بن عباس القِتبانی” کے، جو صرف صحیح مسلم کے راوی ہیں۔
“عیسیٰ بن ہلال الصدفی” مصری راوی اور تابعین میں سے ہیں۔ ان سے روایت کرنے والے رواۃ یہ ہیں: عیاش بن عباس القتبانی، کعب بن علقمہ، أبو السمح درّاج، عبد الملك بن عبد الله التجيبی، يزيد بن أبی حبيب۔
یہ سب کے سب مصری رواۃ ہیں۔
عیسیٰ بن ہلال کی روایات سنن أبی داود، سنن نسائی، جامع ترمذی اور الأدب المفرد وغیرہ میں پائی جاتی ہیں۔
🔸 عیسیٰ بن ہلال الصدفي المصری کے بارے میں ائمۂ جرح و تعدیل کے اقوال:
١. حافظ یعقوب الفَسَوِي رحمہ اللہ نے انہیں مصر کے ثقات تابعین میں شمار کیا ہے۔
المعرفة والتاريخ (2/515)
٢. حافظ ابن حبان رحمہ اللہ نے ان کا ذکر اپنی کتاب الثقات میں کی ہے۔
الثقات (5/213)
٣. حافظ ذهبی رحمہ اللہ نے فرمایا: “وُثِّقَ” (یعنی: ان کی توثیق کی گئی ہے)۔
الكاشف (حدیث: 4405)
٤. حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان کے متعلق کہا: “صدوق”
تقريب التهذيب (5337)
۵. شیخ محمد بن آدم الإثيوبي رحمہ اللہ نے ان کے بارے میں کہا:
“أَقَلُّ أَحْوَالِه أَنَّه حَسَنُ الحَدِيث”
یعنی: “ان کا کم از کم درجہ یہ ہے کہ وہ حسن الحدیث ہیں۔”
ذخيرة العقبی في شرح سنن النسائي (33/285)
🔸 حدیث سے متعلق اہل علم کے اقوال:
علامہ محمد ناصر الدین الألبانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی سند کو ضعیف قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے:
“میرے نزدیک یہ سند ضعیف ہے، اس کے تمام رواۃ ثقہ ہیں سوائے عیسیٰ بن ہلال الصدفی کے، جن کی توثیق صرف ابن حبان نے کی ہے، اور وہ مجہول راویوں کی توثیق میں مشہور ہیں۔”
ضعیف سنن أبي داود – الأصل (حدیث: 482)، تعلیق علی المشكاة (1/466)
تاہم، جمہور اہلِ علم نے علامہ البانی رحمہ اللہ کے اس موقف سے اختلاف کیا ہے، اور انہوں نے اس حدیث کو صحیح یا حسن قرار دیا ہے۔ ان کے اقوال درج ذیل ہیں:
▪️حافظ ابن حبان رحمہ اللہ نے اس حدیث کی تصحیح کی ہے بایں طور کہ اسے اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔
صحیح ابن حبان (5914)
▪️امام حاکم رحمہ اللہ: “هذا حديثٌ صحيح الإسناد”
المستدرك على الصحيحين (4/223)
▪️امام ذھبی رحمہ اللہ: “صحيح”
تلخيص المستدرك (4/223)
▪️علامہ أحمد شاكر رحمہ اللہ: “إسناده صحيح”
مسند أحمد – بتحقيقہ (حدیث: 6575)
▪️شیخ عبد القادر الأرناؤوط رحمہ اللہ: “إسناده صحيح”
جامع الأصول في أحاديث الرسول – بتعليقہ (حدیث: 1626)
▪️شیخ شعیب الأرناؤوط وزملاؤه: “إسناده حسن”
مسند أحمد – بتعليقاتهم (حدیث: 6575)
▪️شیخ نبيل بن منصور بن عبد المجيد: “حديث صحيح”
أنيس الساري في تخريج أحاديث فتح الباري (2/977، رقم: 657)
▪️شیخ حسین سلیم اسد الدارانی: “إسناده صحيح”
موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان بتحقیقہ (3/371، رقم: 1043)
▪️شیخ محمد بن رزق الطرهوني: “إسناده حسن”
موسوعۃ فضائل سور وآيات القرآن (2/300، رقم: 148)
▪️شیخ محمد بن آدم الإثيوبي: حديث عبد الله بن عمرو رضي الله تعالى عنهما هَذَا حسنٌ
ذخيرة العقبی في شرح سنن النسائي (33/285)
🔸 اس حدیث کی تضعیف کے دلائل کا جائزہ:
1️⃣ علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو عیسیٰ بن ہلال الصدفى کی وجہ سے ضعیف قرار دیا۔ وہ المشكاة كى تعلیق میں (1/466) فرماتے ہیں:
“وفي إسناده عيسى بن هلال الصدفي، وفيه عندي جهالة، فقد ذكره ابن أبي حاتم في ‘الجرح والتعديل’، ولم يذكر فيه جرحًا، ولا توثيقًا، وإنما وثقه ابن حبان، وهو معروف بتساهله في التوثيق.”
“اس کی سند میں عیسیٰ بن ہلال الصدفي ہے، اور وہ میرے نزدیک مجہول ہیں، کیونکہ ابن أبي حاتم نے انہیں ‘الجرح والتعديل’ میں تو ذکر کیا ہے، مگر نہ ان کی تعدیل کی ہے، نہ جرح۔ البتہ ابن حبان نے ان کی توثیق کی ہے، جو کہ توثیق میں تساہل کے لیے معروف ہیں”۔
المشكاة (1/466)، نیز دیکھیے: ضعيف سنن أبي داود – الأصل (رقم: 482)
اس تضعیف پر شیخ محمد بن علي بن آدم الإثيوبي رحمہ اللہ تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
“عندي فيما قاله نظرٌ؛ لأن عيسى روى عنه جماعة، أربعة، أو خمسة، من مشاهير أهل مصر، كما أسلفناه، فارتفعت عنه جهالة العين، ولم يتكلم فيه أحد بجرح، فتوثيق ابن حبان لمثل هذا لا يعد تساهلاً، ولذا قال عنه الحافظ في “التقريب”: “صدوق”، وأقل أحواله أن يكون حسن الحديث. والله تعالى أعلم.”
“میرے نزدیک شیخ البانی رحمہ اللہ کا یہ مؤقف قابل نظر و تأمل ہے، کیونکہ عیسیٰ بن ہلال سے چار یا پانچ افراد نے روایت کی ہے، جو اہلِ مصر کے مشہور ائمہ میں شمار ہوتے ہیں، جیسا کہ ہم اس سے قبل ذکر کر چکے ہیں۔
اس بنا پر ان سے جہالتِ عین ساقط ہو جاتی ہے، اور چونکہ ان پر کسی بھی ناقد محدث نے جرح نہیں کی، لہٰذا ابن حبان کی ان کے حق میں کی گئی توثیق کو محض تساہل پر محمول کرنا درست نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے “التقريب” میں ان کے بارے میں “صدوق” کہا اور کم از کم درجہ میں بھی ان کی حدیث کو حسن شمار کیا جائے گا۔” والله تعالى أعلم”۔
ذخيرة العقبى في شرح سنن النسائي (33/285)
شاید علامہ البانی رحمہ اللہ حافط یعقوب الفسوی رحمہ اللہ کی توثیق پر مطلع نہ ہوسکے جس کی وجہ سے انہوں نے عيسى بن هلال الصدفى کی تجہیل فرمائی اور صرف ابن حبان کی توثیق پر مطمئن نہیں ہوئے، واللہ أعلم۔
2️⃣ حدیث میں “منیحة أنثى” کے بجائے بعض روایات میں “منیحة ابني”، “منیحة أبي” یا “شاة أبي وأهلي، ومنيحتهم” کے الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں۔ جس کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے اضطراب پر محمول کیا ہے۔ اور اس کو عیسیٰ بن ہلال صدفی کے عدمِ ضبط میں شمار کیا ہے۔
ضعيف سنن أبي داود – الأصل (رقم: 482)
اس کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ اکثر روایتوں میں “منِيحَة أنثى” کے الفاظ وارد ہوئے ہیں، اور اضطراب کا حکم اس وقت لگایا جاتا ہے جب متعارض الفاظ وروایات کے ما بین توفیق اور ترجیح ممکن نہ ہو، جبکہ یہاں یہ دونوں ممکن ہیں۔
اس طور پر کہ اکثر روایتوں میں “منِيحَة أنثى” کے الفاظ ہیں، تو چاہیں اس لفظ کو بقیہ دیگر الفاظ پر راجح کر دیں کیونکہ بعض روایات میں دودھ دینے والی بکری ہونے کی صراحت موجود ہے۔
یا ان الفاظ کے ما بین توفیق دے لیں کہ یہ بکری گھر والوں میں سے کسی رشتے دار (باپ یا بیٹے) نے بطور اعارہ دی تھی۔
اور چونکہ قدیم مخطوطات میں حروف پر نقطے نہیں ہوتے تھے، اس لیے “أبي” کو “ابني” یا بر عکس “ابني” کو “أبي” پڑھا جا سکتا ہے۔
اس طرح یہ اضطراب زائل ہو جاتا ہے۔
🔸 خلاصہ:
مذکورہ حدیث کے متعلق جرح وتعدیل، علومِ حدیث کے اصول وضوابط، اور اہلِ علم کے اقوال پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ حدیث “حسن” درجہ کی ہے، اور اس کی سند میں موجود راوی “عیسیٰ بن ہلال الصدفی المصری” بھی “حسن الحدیث” ہے۔
اس موقف کی تائید درج ذیل امور سے ہوتی ہے:
▪️پانچ ثقہ رواۃ نے ان سے روایت کی ہے۔
▪️امام ابن حبان رحمہ اللہ نے انہیں اپنی کتاب الثقات میں ذکر کرتے ہوئے ان کی توثیق فرمائی ہے۔
▪️ان سے قبل امام یعقوب الفسوی رحمہ اللہ نے بھی انہیں اہلِ مصر کے ثقہ تابعین میں شمار کیا ہے۔
▪️حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے انہیں “صدوق” قرار دیا ہے
▪️مزید برآں، امام ابن حبان، امام حاکم، اور دیگر کئی محدثین نے اس حدیث کو صحیح یا حسن قرار دیا ہے، اور اس میں شذوذ یا نکارت نہیں پائی جاتی۔
لہٰذا، یہ حدیث مقبول اور قابل عمل ہے۔ اس بنا پر، جو افراد قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے، وہ بھی ان لوگوں کی طرح اپنے ناخن اور بال عید کی نماز کے بعد کاٹیں، تاکہ سنت پر عمل ہو اور عند اللہ اجر کے مستحق بنیں۔