رمضان المبارک عظیم ماہ مبارک ہے اسکی فضیلت پر سب سے اول دلیل یہ ہے کہ قرآن پاک کا نزول اس ماہ مبارک میں ہوا ہے ۔
دوسری بڑی دلیل یہ ہے کہ اللہ رب العزت اس ماہ مبارک میں شیطانوں کو بند کر دیتا ہے ۔۔
اور تیسری بڑی دلیل یہ ہے کہ اللہ اس ماہ مبارک میں جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیتا ہے ۔۔
اور چوتھی بڑی دلیل جو کتاب وسنت میں وارد ہوئی ہے وہ یہ کہ اس ماہ مبارک کے آخری عشرے میں ایک عظیم رات ہے جو ہزاروں راتوں سے افضل ہے ۔۔
اس کے علاوہ بھی بے شمار فضائل و مناقب ہیں جن سب جو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ جہاں نیکیوں میں سرعت اور کثرت کا ہے وہاں یہ مہینہ میرے اور آپ کے رویوں کی اصلاح کا بھی ہے کیونکہ رمضان المبارک کا جو بنیادی مقصد قرآن مجید نے بیان کیا وہ لعلکم تتقوں ہے ،تو جب تتقوں کے وسیع معانی و مفاہیم کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس مہینے میں ہم کردار کو اپنے اخلاق کو اپنے اجسام کو اپنی زبانوں کو اپنے کانوں کو اپنے ہاتھوں کو اپنے رویوں تک کو درست راہ کی طرف گامزن کرنا ہے
اگر روزے ہمارے اندر یہ چینج نہ لا سکیں تو پھر اس بات میں کوئی شک نہیں رہ جاتا ہے ہمارا رمضان ویسا نہیں گزرا جیسا اللہ رب العزت کا حکم تھا اور جیسا ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلاف کا تھا ۔۔
میں نے اس بات کو بہت بار بہت مواقع پر نوٹ کیا ہے کہ
رمضان المبارک میں بہت سے ایسے مقامات پر ایسے رویے عوام الناس اور اہل علم وعرفان کی طرف سے اختیار کیے جاتے ہیں جو صوم کے مقاصد کے منافی ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:
1️⃣ حفاظ کرام کا انتخاب :
جیسے ہی رمضان المبارک قریب آتا ہے مساجد کی انتظامیہ کی ذہنی دوڑیں لگ جاتی ہیں
انتظامیہ کو یہ فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ اچھے سے اچھا قرآن پڑھنے والا قاری تلاش کیا جائے
یعنی مساجد کی انتظامیہ کی طرف سے بنیادی شرط یہی ہوتی ہے بس آواز بہت خوبصورت ہو یا وہ کسی نہ کسی بہت مشور قاری کی کاپی کرتا ہو باقی شرائط میں اگرچہ نرمی ہو سکتی ہے
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا تراویح کے لیے ائمہ کا انتخاب بس پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے کرنا درست رویہ ہے ؟
جب کہ شریعت میں امامت کی شرائط مشہور ہیں ان کو پس پشت ڈال کر بس اسی ایک کو معیار بنا لینا درست رویہ نہیں ہے
یہ آج کا مسئلہ نہیـــــــــں ہے بلکہ پرانا ہے شاید اسی لیے امام طحاوی رحمہ اللہ سے یہ قول نقل کیا گیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ
” اگر کوئی کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایک طرف قرآن مجید پڑھتے ہوئے تحسینِ صوت کی ترغیب دی ہے، اور دوسری طرف آوازوں کی بنا پر امام مقرر کرنے کی مذمت کی ہے، تو اس میں تعارض نہیں؟
ہم کہتے ہیں کہ مذمت قرآن مجید کو اچھی آواز سے پڑھنے کی نہیں ہے، بلکہ اسی بنا پر امامت سونپ دینے کی ہے۔۔
کیونکہ امامت کی شرائط معروف ہیں، اور ان شرائط کو پس پشت ڈال کر آواز کو معیار بنا لینا سنت نبوی کی مخالفت ہے “۔۔
(شرح مشكل الآثار للطحاوي : ٩/٤، ملخّصًا)
پھر اس کا ایک اور نقصان یہ ہوتا ہے کہ کئی ایسے حفاظ کرام ہیں جن کو قرآن بھی اچھا یاد ہے پڑھتے بھی اچھا ہیں لیکن ان کو تراویح کی جگہ بس اس لیے نہیں ملتی کیونکہ ان کی آواز اور لہجہ خوبصورت نہیں ہے ۔۔
میرے خیال میں یہ رویہ قابل اصلاح ہے اس پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔۔
2️⃣ حفاظ کرام کا لائیو کوریج کرنا :
ابھی جب یہ تحریر لکھ رہا ہوں فاضل دوست خضر حیات حفظہ اللہ کی ایک تحریر نظروں سے گزری ہے ان کا نقظہ نظر بھی پڑھا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں رمضان المبارک ایک ایسا مہینہ ہے اس میں خضوع و خشوع اور روحانیت عمومی طور پر بڑھی جاتی ہے کیونکہ یہ اللہ کا خاص کرم ہے لیکن اس مہینہ کے خضوع و خشوع کو بھی ایسے رویوں کی نظر کر دیا جاتا ہے جن کی بس خاص مواقعوں پر خاص شرائط کے ساتھ اجازت ہے
جیسا کہ تصویر کا عمومی حکم یہی کہ یہ حرام ہے لیکن مشروط اس کی اجازت بھی ہے لیکن اب یہ نہیں ہو سکتا کہ بندہ اس کا کثرت سے مرتکب بھی ہو اور کہے کہ میری نیت یہ نہیں وہ نہیں وغیرہ وغیرہ تو یہ بات قابل دفاع نہیں ہو گی ۔۔
بعینہ معاملہ ویڈیوز کا ہے اب اس کا عمومی حکم بھی وہی ہے جو تصویر کا ہے لیکن علماء ومشائخ کی طرف سے اگر اس کی اجازت ہے وہ مشروط ہے
جیسا کہ دینی نشرو اشاعت کے لیے محدود استعمال کرنا۔۔
ایسے علاقے میں جہاں اسلام کی تعلیمات نہیں پہنچ سکیں وہاں ایسے پیغامات کو ریکارڈ کر کے نشر کرنا ۔۔
یعنی بس دین اور دینی امور کے احکامات کی تفہیم کے لیے اس کی اجازت ہے
اب رمضان المبارک میں ہوتا یہ ہے علماء ومشائخ کی طرف سے وڈیوز کی مشروط اجازت کی بھی قراء کرام اور حفاظ خوب دھجیاں اڑاتے ہیں یعنی اب تقریباً ہر مسجد میں یا تو ان تراویح کی لائیو کوریج ہے یا اکثر میں ریکارڈنگ کر کے بعد میں اپلوڈنگ کی جاتی ہے ۔۔
لیکن سوال اس امر کا ہے کہ اس کی اخر ضرورت کیا ہے ؟
کہ ایک امام صاحب تراویح پڑھاتے ہیں اور ساتھ اس کی ریکارڈنگ ہونا بھی اس قیام کا لازمی حصہ بن چکا ہے آخر کیوں ؟
میرا اختلاف یہ نہیں ہے نہ میں اس پوائنٹ سے بات کروں گا کہ اس سے خضوع و خشوع میں خلل آتا یا نہیں ۔۔
بس سوال یہ ہے کہ علماء ومشائخ کی طرف سے جو مشروط اجازت ہے اس کے مطابق ان تلاوتوں کی لائیو کوریج سے کونسا دینی فریضہ ادا ہو رہا ہے ؟
جو مشروط اجازت ہے تو کیا ان قیام کی لائیو کوریج بھی اسی تناظر میں آتی ہے ؟
لہٰذا مشروط اجازت کو اسی شرائط کے تناظر میں رکھا جائے۔۔
میرے خیال میں اہل علم و فضل کو مل بیٹھ کر اس پر نظر ثانی کرنی چاہیے کیونکہ یہ رویہ قابل اصلاح ہے ۔۔
3️⃣ حفاظ کا صرف رمضان میں قران یاد کرنا :
اب اس امر میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ حافظ قرآن کا ایک بہت اعلی مقام ومرتبہ ہے اور اس کی فضیلت پر کتاب وسنت میں بیسیوں دلائل موجود ہیں ان کی فضیلت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ائمہ ومحدثین اپنے حلقہ حدیث میں بیٹھنے کے لیے بنیادی شرط حفظ کو قرار دیتے تھے اگرچہ وہ مکمل قرآن کی شرط نہیں لگاتے تھے لیکن کم از کم دس پاروں کی صراحت تو ملتی ہے۔۔
اب اس سارے پس منظر میں دیکھا جائے تو حفاظ کرام کا تو قرآن سے ہمیشہ تعلق ایسا ہونا چاہیے کہ کسی لمحہ قرآن بھول ہی نہ پائے لیکن افسوس اس امر کا ہے کہ میں کئی ایسے حفاظ کو جانتا ہوں اور آپ بھی جانتے ہوں گے کہ سارا سال کبھی قرآن دیکھا اور سنجیدگی سے پڑھا نہیں ہے لیکن جیسے ہی رمضان المبارک آتا ہے ان کو گھر کا پریشر ہوتا یا اس بات کا ڈر ہوتا کہ تروایح نہ پڑھائی تو لوگ کیا کہیں گے جیسی باتوں سے بچنے کے لیے قرآن مجید یاد کرنے بیٹھ جاتے ہیں
یہ بات اس حد تک تو قابل تعریف ہو سکتی ہے کہ چلیں کم از کم وہ رمضان المبارک میں یاد کر کے تو سنا دیتے ہیں
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا قرآن کا مقصد بس رمضان المبارک میں یاد کر کے تراویح پڑھانا ہی ہے ؟؟
کئی تو ایسے حفاظ کرام ہیں جو سارا سال نماز تک نہیں پڑھتے لیکن رمضان المبارک میں تراویح پڑھانے کے لیے پیش پیش ہوتے ہیں
کیا قرآن یاد کرنے کا تقاضہ یہ ہے ؟
اس کو مزید آسان کر دیتا ہوں کہ حافظ قرآن کے پاس پورا سال ہوتا ہے وہ پورا سال قرآن پر غور وفکر کر سکتا اور ترجمہ بھی پڑھ سکتا ہے یعنی اس طرح اس کا قرآن سے تعلق بھی رہے گا اور قرآن یاد بھی ہوتا رہے گا
لہذا صرف قرآن کو نماز تراویح کے لیے یاد کرنے کا رویہ قابل قبول نہیں ہے بلکہ قابل اصلاح ہے ۔۔
4️⃣ سامعین کی کثرت :
جیسے ہی رمضان المبارک میں یہ مسئلہ بنیادی طور ڈسکس ہوتا کہ قرآن زیادہ کس کو یاد ہے اسے تراویح کے لیے چُنا جاتا ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ بھی زیر بحث ہوتا کہ حافظ صاحب کا سامع کون بنے گا یعنی ان کا قرآن کون سنے گا تاکہ اگر کسی مقام پر دوران نماز حافظ صاحب بھول جائیں تو سامع ان کو یاد کروا دے ۔ یعنی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حافظ صاحب کے قرآن زیادہ یاد ہونے سے ضروری یہ ہے کہ سامع کو قرآن اُس سے بھی زیادہ یاد ہو کیونکہ اغلاط کی تصحیح وہی کرے گا جسے خود آتا ہو گا ۔۔
ہم بحیثیت قوم شارٹ کٹ کے ماہر ہیں اسی لیے کچھ سالوں سے ہم نے سامعین کا مسئلہ ہی حل کر دیا وہ اسطرح کے وہ مصحف یا موبائل سے دیکھ کر پیچھے کھڑے ہو جائیں ،اس کا بنیادی نقصان یہ ہوا کہ پیچھے کھڑے ہونے والا حافظ اس معاملے میں سستی میں پڑ گیا کہ میرا پارہ یاد ہونا ضروری نہیں موبائل یا مصحف ہی سے تو دیکھنا ہے ۔۔
اس کا دوسرا بنیادی نقصان یہ ہوا کہ ہر ایرے غیرے نتھو نے دوران نماز موبائل یا مصحف پکڑ کر سامع ہونے کا فریضہ انجام دینا شروع کر دیا ہے
اب سو میں دس بیس بندوں نے پیچھے قرآن پکڑا ہوتا یا وہ موبائل فون سے دیکھ رہے ہوتے ہیں اور اپنی ہی طرف سے سامعین کو فریضہ انجام دے رہے ہوتے ہیں۔۔
پہلی بات تو یہ ہے سامع حافظ ہی ہونا چاہیے
دوسری بات یہ ہے کہ اگر سامع حافظ قرآن نہیں مل رہا تو غیر حافظ کا مصحف سے دیکھ کر سننا بھی جائز ہے
لیکن اس اس جواز کا مطلب یہ کب سے ہو گیا ہے کہ آدھی مسجد قرآن مجید پکڑ کر سامع بن جائے ؟
کیا اس سے نماز میں خضوع و خشوع کا وہی معیار قائم رہتا ہے جو ایک یک سوئی سے قاری کے قرآن سننے سے رہتا ہے ؟
جو پیچھے ایسے لوگ لقمہ دینے کے لیے موجود ہوتے ہیں کیا وہ لقمہ تجوید کے قواعد کے مطابق دیتے ہیں ؟
لیکن اب تو دیکھنے میں یہ آیا کہ کئی بزرگ حضرات جو صحیح معنوں میں تجوید کے اصول و ضوابط نہیں جانتے وہ بھی قرآن پکڑ کر سامع بنے ہوتے ہیں،بس اس لیے کہ وہ انتطامیہ کا حصہ ہیں ۔۔
دیکھیں سامع کا مقصد صرف لقمہ دینا نہیں بلکہ صحیح تلفظ سے لقمہ دینا ہے جسے نظر انداز کیا جا رہا ہے
لہذا علماء کرام کو چاہیے کہ اس بارے عوام الناس کو بتائیں کہ جس طرح تراویح پڑھانا ایک مقام ومرتبہ ہے بعینہ سامع کا بھی مقام ومرتبہ ہے اس لیے اس کی عمومی اجازت نہیں ہونی چاہیے اس رویے کی اصلاح ہونا بھی ضروری ہے
5️⃣ رات کو لائٹیں بند کر کے قنوت وتر پڑھانا :
یہ بات واضح ہے کہ قیام الیل ایک بہت اجر کا مستحق عمل ہے بلکہ امام کے ساتھ قیام مکمل کرنے والوں کے بارے میں حدیث میں مکمل رات کے قیام کی نوید موجود ہے جس سے معلوم ہوتا ہے ہمیں قیام الیل کا اہتمام کرنا چاہیے کیونکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طریقہ کار ہے جو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا تھا۔
اس قیام الیل میں وتر بھی شامل ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ بات احادیث میں موجود ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی سنتیں اور وتر سفر میں بھی ترک نہیں کرتے تھے بلکہ امت کے لیے بھی کہا کہ اگر وتر رہ جائے تو جب یاد آئے پڑھیں۔۔
لیکن رمضان المبارک میں منہج سلف صالحین کے پیروکاروں کی مساجد میں یہ سلسلہ کچھ سالوں سے دیکھنے میں آیا ہے کہ تراویح پڑھا دی جاتی ہیں اور پھر اس کے بعد وقفہ کیا جاتا ہے جس میں احباب قرآن پڑھتے ہیں ،نوافل کا اہتمام کرتے ہیں ،کئی مساجد میں اس دوران تواضع کا بھی اہتمام ہوتا ہے پھر رات کے آخری پہر میں وتروں کے لیے ایک امام صاحب تشریف لاتے ہیں
جو قنوت وتر اور قنوت نازلہ کو جمع کرتے ہیں اور پڑھانے سے قبل احباب کو کہا جاتا مسجد کی لائٹیں بند کر دی جائیں اور پھر دوران دعا خوب رویا جاتا ہے
اور اس بات کا مشاہدہ میں خود کئی اہل حدیث مساجد میں کر چکا ہوں
یعنی ہم تو خود کو منہج سلف پر چلنے کا دعویٰ کرتے ہیں
تو پھر سوال ہے کہ یہ سب کیا ہے ؟
کیا کتاب وسنت کی تعلیمات میں ایسا کچھ ملتا ہے ؟
کیا ہمارے اسلاف ایسا کرتے تھے ؟
کیا اس طرح خضوع و خشوع زیادہ ہو جاتا ہے ؟
کیا لائٹیں بند کر رونا اسی تناظر میں ہے کہ نماز اندھیرے میں پڑھی جا سکتی ہے ؟
یعنی نماز اندھیرے میں پڑھنا اور خاص لائٹیں بند کر کے رونے کا اہتمام کرنا دونوں برابر ہیں ؟
اگر ایسا کچھ شرعا جواز ہے تو رہنمائی کا طالب ہوں
باقی میرے ناقص علم کے مطابق اس رویے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے
بلکہ نا جانے یہ انداز اہل حدیثوں میں کس نے رائج کر دیا ہے
کبار علماء ومشائخ کو اس بارے رہنمائی کرنی چاہیے تاکہ صحیح عمل اُمت کے سامنے آسکے ۔۔
رمضان المبارک میں سحر و افطار دو بنیادی اوقات ہیں اور ان اوقات کی اہمیت وضرورت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک وقت روزے کے آغاز کا ہے اور دوسرا روزے کے افطار کا ہے۔
اس سے بڑھ کر ان کی فضیلت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے سحری کے وقت کو کتاب وسنت میں برکت والا وقت قرار دیا گیا ہے اور افطاری کے وقت بارے یہ بات واضح احادیث میں موجود ہے کہ وہ گروہ حق پر رہے جو جس کی ایک نشانی یہ ہو گی کہ افطار میں جلدی کریں گے یعنی جیسے ہی غروب آفتاب ہو اور اذان دی جائے تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نوید کے مستحق بنا جا سکے ۔۔۔
کبھی وقت تھا کہ ان دو اوقات سنت کے مطابق عمل کا دعویٰ منہج سلف پر چلنے والوں کا ہوا کرتا تھا اور اسے حق وباطل کی تفریق کا عمل بھی قرار دیا جاتا تھا حتی کہ اس موضوع پر مناظرے بھی ہوا کرتے تھے ۔۔
لیکن اب آہستہ آہستہ اہل حدیث حدیثت سے نقل کر ماڈرنزم کی طرف گامزن ہیں اور ان کا سلف صالحین کے منہج سے سرکنا کسی کو شاید نظر اس لیے نہیں آتا کیونکہ لیبل چسپاں ہے کہ ہم کوئی کام کتاب وسنت کے برعکس کرتے ہی نہیں ہیں۔۔

ایک حدیث مساجد میں اب کچھ سالوں سے یہ بات دیکھنے کو ائی ہے کہ اذان فجر کو لمبا کیا جاتا تاکہ اہل محلہ اس دوران کھا پی لیں اگر کوئی لیٹ اٹھا وہ بھی اذان ختم ہونے تک کھا سکے اور ظاہر ہے کہ اذان لمبی ہو گی تو کھایا پیا بھی صحیح جائے گا،اور اب یہ عمل کئی مساجد میں ہوتا ہے اور میں یہ بات کہوں تو شاید بعید نہ ہو کہ دیہات کی مساجد میں یہ عمل کثرت سے اور شہروں کی مساجد میں سرعت سے سرایت کرتا جا رہا ہے
اسی طرح اب معاملہ افطار کا ہے یعنی ہم افطار تو وقت پر کرتے ہیں لیکن افطاری کی وجہ سے نماز مغرب لیٹ کر کے پڑھتے ہیں
اور یہ رمضان المبارک میں عمومی طور پر دیکھا گیا ہے اور یہ حالت صرف گھروں کی نہیں بلکہ مساجد میں یہی معاملہ ہے ۔۔
کبھی ہم اغیار کو یہ کہہ کر طعنہ دیتے تھے کہ جی آپ افطار لیٹ کرتے ہیں آپ سنت کی مخالفت عمدا کرتے ہیں
تو میرا سوال یہ ہے کہ صرف افطاری کی غرض سے نماز مغرب لیٹ پڑھنا کس دن سے جائز ٹھہرا ہے ؟؟
وہ اذان سے پہلے الارم بجا کر روزہ کھولیں اور پھر اذان دیں تو یہ سنت کی مخالفت ہے لیکن ہم اذان وقت ہر دے کر صرف پیٹ بھر کر افطاری کرنے کی غرض سے نماز مغرب لیٹ پڑھیں تو کیا یہ عین سنت کے مطابق ہو گا ؟
کیا یہ سلف صالحین کا منہج یہ تھا ؟
کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ افطاری کی غرض سے نماز مغرب لیٹ پڑھا کرتے تھے ؟
کیا ہمارے اسلاف کا طرز عمل یہی تھا کہ زیادہ سے زیادہ ڈششز افطار میں رکھتے اور آرام وسکون سے بیٹھ کر افطاری کرتے پھر نماز مغرب کو تاخیر سے پڑھتے تھے ؟
کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طریقہ کار یہی تھا کہ اذان فجر کو لمبا کر دیا جائے تاکہ رہہ جانے والے اچھی طرح کھا پی سکیں ؟

کیا اسلاف کے ادوار میں اذان فجر کو اس نیت سے لمبا کیا جاتا تھا کہ لوگ کھا پی لیں ؟
ہم نام تو کتاب وسنت اور منہج سلف کا لیتے ہیں لیکن من مانیاں تو اپنی ہیں
پھر کیا ہمیں اس رویے پر غور وفکر نہیں کرنا چاہیے ؟
کیا جن مساجد میں یہ سب ہوتا وہاں خطباء کرام موجود نہیں ہیں جو سمجھا سکیں کہ یہ رویہ قابل قبول نہیں ہے بلکہ اس پر عمل کو ترک ہونا چاہیے
لہذا میری علماء کرام اور مساجد کی انتظامیہ سے گزارش ہے کہ اس رویے کی اصلاح ہونا چاہیے کیونکہ یہ رویہ قطعا منہج سلف کے مماثلت نہیں رکھتا ۔۔۔
آج اس عمل کی اصلاح نہ ہوئی تو مستقبل قریب میں یہ عمل حجت تسلیم کیا جانے لگے گا ۔۔
7️⃣ فجر کے بعد اجتماعی دعا:
دیکھیں اگر کتاب وسنت کے دلائل و براہین پڑھیں تو یہ بات واضح سمجھ آتی ہے کہ دعا ایک بہت ہی عظیم عمل ہے اور اس کی فضیلت واہمیت کا اندازہ اس بات لگانا مشکل نہیں ہے کہ دعا سے انسان اللہ کے قریب ہوتا ہے اور دعا کرنے والوں کو اللہ پسند کرتا ہے
مزید بات واضح تب ہوتی ہے جب انبیاء کرام علیہم السلام کی زندگیوں کو دیکھتا ہوں وہ بھی دعاؤں سے بھری پڑی ہیں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو ہمارے آخری نبی ہیں جن کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آئے گا ان کی حیات طیبہ ہمارے لیے اسوہ حسنہ ہے اس میں ہمیں تقریباً ہر موقع پر پڑھی جانے والی کسی نہ کسی دعا کا ذکر ملتا ہے اس کو یوں کہوں تو بعید از قیاس نہیں ہو گا کہ دین کا بیشتر حصہ دعاؤں سے بھرا ہوا ہے بلکہ یہ بات بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہے کہ مسلمان جو دن میں پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں وہ نماز بھی ایک دعا ہی تو ہے الحمدللہ ۔۔
ان سب باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا ایک افضل عمل ہے
دوسری بات یہ ہے کہ دعا کا کوئی منکر نہیں ہے
تیسری بات یہ ہے انفرادی طور پر دعا مانگنے کی شرع نے ترغیب بھی دے رکھی ہے اور اللہ کو پسند بھی ہے
چوتھی بات یہ ہے کہ جہاں تک تعلق ہے اجتماعی طور پر دعا کا تو شریعت نے اس مواقع بھی بتا دیے ہیں
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری تئیس سالہ نبوت والی زندگی میں ایک دن ایسا نہیں ملتا جس دن پانچوں نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی طور دعا کی گئی ہو۔۔
اور ہماری دوسروں سے جنگ بھی تو یہی تھی کہ دیکھیں جی آپ غلط کرتے ہیں سنت سے ایسا کچھ ثابت نہیں ہے ہاں بس اگر کوئی کہہ دے تو اجتماعی دعا ہو سکتی ہے ورنہ نہیں ۔۔
ہم نے کیا کِیا وہ جو ایک جواز تھا نا کہ کسی کے کہنے پر امام صاحب اجتماعی طور پر دعا کروا سکتے ہیں اس کا حیلے کے طور پر استعمال کیا ہے
وہ اسطرح کے اہل حدیث مساجد میں مقتدیوں نے ڈیوٹز لگا رکھی ہیں کہ فجر وقت آپ نے اور ظہر وقت آپ نے اور عصر وقت فلاں نے اور اسی طرح مغرب وعشاء کے وقت کسی اور نے یہ کہنا کہ امام صاحب بیماروں کے لیے دعا کر دیں
اب اس صورت حال میں امام صاحب انکار بھی نہیں کر سکتے کیونکہ کسی کے کہنے پر کروانے کا جواز موجود ہے۔۔
اور کئی مساجد اہل حدیث میں رمضان المبارک میں فجر کی نماز کے بعد پورا مہینہ تسلسل سے دعا ہوتی ہے اور کئی مساجد میں خطبہ جمعہ کے بعد بھی اس ماہ اہتمام کیا جاتا ہے ۔۔
سوال یہ ہے کہ جب تک غیر مسلک والے عمل کر رہے تھے تو یہ خلاف سنت تھا لیکن ہم کر رہے ہیں تو یہ کس دن سے بعین سنت کے مطابق ہو گیا ہے ؟
کیا اس جواز کو حیلہ کے طور پر استعمال کر کے مستقل طور پر اجتماعی دعا کروانا جائز ہے ؟
کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری پاکیزہ زندگی میں چند ایک دو مواقع کے علاوہ کوئی واقعہ ملتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اجتماعی طور پر دعا کروائی ہو ؟
کیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہر نماز کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہا کرتے تھے کہ جی بیماروں کے لیے دعا کر دیں ؟
کیا ہمارے اسلاف کی تعلیمات سے ایسا کچھ ملتا ہے ؟

اگر جواب نہیں میں ہے تو پھر اس رویہ کی اصلاح ہونا لازمی ہے کیونکہ کتاب وسنت کے پیروکاروں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ان حیلے بہانوں سے کام لے کر ایک جواز کو مستقل طور پر اختیار کر لیں ۔۔
میں یہاں اپنے ناقص علم کے مطابق یہ بات کہنا چاہتا ہوں اگر غلط ہوئی تو علماء ومشائخ رہنمائی کر سکتے ہیں۔۔
وہ یہ ہے کہ میں نے کتاب وسنت کے اس بارے وارد ہونے والی جمیع روایات کا مطالعہ کیا ہے جس کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ شریعت میں انفرادی دعا کو زیادہ پسند کیا گیا ہے اور اس کی فضیلت واہمیت بھی زیادہ ہے اگرچہ اجتماعی طور پر دعا کا جواز موجود ہے ۔۔۔
تو پھر عوام الناس کو یہ بتائیں کہ انفرادی طور پر دعا کی اہمیت وضرورت زیادہ ہے اس سے انسان کا اللہ سے تعلق مضبوط ہوتا ہے ۔۔۔
ناکہ عوام کو اجتماعی دعا پر لگا دیا جائے ۔۔

8️⃣ شاپنگ مالز اور بازاروں میں عوام کا جم غفیر
پیدا کرنے والے رب کی قسم ہے رمضان المبارک انتہائی عظمت والا مہینہ ہے اس کا ایک ایک لمحہ انتہائی قیمتی تحفہ ہے اور جا دن ہو یا راتیں سب ہی افضل ہیں
اس رمضان المبارک کو پا لینا انتہائی خوشی نصیبی کی بات ہے شاید اسی لیے اسلاف میں سے کسی سلف سے یہ قول منقول ہے کہ اگر فوت شدگان سے کوئی تمنا پوچھی جائے تو وہ رمضان کے لمحات کو پانے کی تمنا کریں گے ۔۔
مزید اگر اسلاف کی زندگیوں کا مطالعہ کرتا ہوں تو یہ بات ملتی ہے کہ اسلاف اپنا حلقہ حدیث روک دیا کرتے تھے اور قرآن کی تلاوت ،ذکر واذکر میں خود کو مشغول کر لیتے تھے۔
یعنی آپ اندازہ لگا لیں یہ ماہ مبارک کس قدر اہمیت وضرورت والا ہے
لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارا رمضان بھی بس تھوڑے بہت فرق کے ساتھ عام مہنیوں کی طرح گزر جاتا ہے ،جب کہ میں کہا کرتا ہوں یہ مہینہ ہمارے لیے ٹریننگ سیشن ہے اس ماہ مبارک کے بعد ہمارا پورا لائف سٹائل سنت کے مطابق بن جانا چاہیے اور گناہوں سے نیکیوں کی طرف ہجرت ہو جانی چاہیے ۔۔۔
لیکن اس سب باتوں کا دور دور سے ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے
کیونکہ ہم رمضان گزارتے ہیں اچھی سحری کر کے اور اچھی افطاری کر کے اور دسترخوانوں پر طرح طرح کی ڈششز سجا کر۔۔۔
اور پھر اکثر اس مواقع پر دعا کے عمل کو بھی پس پشت ڈال دیا جاتا ہے
جبکہ رہی سہی کسر ہم آدھا رمضان المبارک شاپنگز میں گزار دیتے ہیں یعنی پہلا عشرہ گزرنے کی دیر ہے آپ مشاہدہ کر کے دیکھ لیں کہ ہر شہر کے بڑے بڑے بازاروں میں قدم رکھنے کی جگہ نہیں ملے گی اور اختلاط مرد وعورت عروج پر ہو گا ۔۔۔
دیکھنے کو یہ ایک غریب ملک ہے اور لوگوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے ،لیکن افطار ڈنر کے لیے ہوٹلوں میں جگہ نہیں ملتی اور اگر بازار چلیں جائیں تو یوں معلوم ہوتا کل خلقت یہاں ہی امڈ آئی ہے
اسطرح ہمارا رمضان المبارک گزرتا ہے جو آخری عشرہ ہے جس میں اللہ نے عظمت والی رات رکھی ہے اس کو بھی من جملہ مسلمان خواتین اور مرد حضرات نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں بس کس لیے کہ عید کی شاپنگ اچھی ہو جائے تاکہ خاندان میں عزت واحترام باقی رہ سکے ۔۔

میں پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ کیا رمضان المبارک ان مقاصد کے لیے آتا ہے ؟
کیا رمضان اس طرح گزارنا چاہیے ؟

کیا ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رمضان اس طرح گزرتا تھا ؟

کیا رمضان المبارک میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طریقہ کار یہی ہوتا تھا ؟
یہ رسم تو اہل علم اور منہج سلف میں بھی سرایت کرتی جا رہی ہے تو کیا منہج سلف صالحین یہ تھا جو ہم کر رہے ہیں ؟؟

میرے خیال میں اس رویے کی اس اصلاح ہونا اشد ضروری ہے کیونکہ کہیں رمضان المبارک کے شب وروز فصول کاموں میں نہ گزر جائیں
لہذا رمضان المبارک کو قیمتی بنائیں زندگی پتا نہیں اگلے رمضان المبارک تک ہے بھی یا نہیں۔۔۔
بلکہ اسلاف تو رمضان المبارک گزر جانے کے بعد دعائیں کیا کرتے تھے کہ اللہ ہماری طرف سے یہ رمضان قبول فرما آمین۔۔

 

✍️کامران الہیٰ ظہیر