الحمد للہ سفر عمرہ مکمل ہوا،پاکستان پہنچتے ہی اگلے روز یہاں 5 فروری یوم یکجہتی کــــشمیــر تھا، دن چڑھا تو رنگا رنگ فلسفیوں نے بھی رنگ جمانا شروع کیا کہ مقبوضہ میں پٹرول سبزی آٹا فلاں فلاں اتنے کا اور یہاں اتنے کا ۔۔۔۔۔۔۔ انہیں آزادی دلا کر کیا یہاں جیسے حالات میں لانا ہے ؟ فلاں فلاں اور ڈھمکاں
یہی دیکھ کر سوچا کہ کیوں نہ آپ کو مقبوضہ کے کشمیریوں کی ہی زبانی سنے ان کے وہ حالات بتاؤں کہ جو کئی دھائیوں سے میں پڑھتا تھا یا میڈیا پر سنتا تھا۔
پیر کا دن تھا اور اس دن کے مسنون روزے کی افطاری کی تیاری اور میں اس روز کعبہ کے عین سامنے بیٹھا تھا کہ ساتھ بیٹھا شخص کپڑوں اور حلیے سے پاکستانی محسوس ہوا، اس ہر سلام لیا تو بتہ چلا کہ تعلق سب سے مرکزی علاقے سے ہے۔میں نے مزید اگلا علاقہ پوچھا تو وہ پہلے حیران ہوئے کہ آپ ہمارے شہروں کے چھوٹے علاقوں سے بھی واقف ہیں ؟ میں نے جب سری نگر کے محلوں گلیوں سڑکوں کے نام لیے تو وہ چہک اٹھے اور پھر کھل کر بولنے لگے۔۔۔۔
کہنے لگے، ہماری تو عمرہ کے لیے ہی نہیں سری نگر سے کوئی بھی بیرون ملک براہ راست پرواز نہیں ہے ، ہم بیرون ملک جانا ہو تو پہلے دہلی یا ممبئی جاتے ہیں اور پھر جدہ آتے ہیں۔(صرف حج پر چند علامتی پروازیں چلتی ہیں وہ بھی تھوڑے سے لوگوں کے لیے،باقی حجاج بھی براستہ دہلی ہی آتے جاتے ہیں)
بتانے لگے کہ گزشتہ ساڑھے تین سال سے اب اس قدر خوف و دہشت کی کیفیت ہے کہ ہم آپس میں بھی حالات پر بات نہیں کر سکتے کہ مبادا کہیں آپ نے اگر کوئی ظلم جبر یا آزادی کی بات کی تو اسی وقت چھاپا پڑے گا اور آپ جیل میں ہوں گے۔ جو پکڑا گیا وہ ہمیشہ کے لئے ریڈ لسٹ اور داغ دار، بے شک جو مرضی کرے نہ کرے
کہنے لگے کہ پچھلے 35 سال میں یہ ممکن نہیں ہوا کہ ہم گھر سے نکلیں اور کبھی بغیر تلاشی یا ناکے کی ذلت اٹھائے گھر واپس آ جائیں اور اگر بچے نکلیں تو جب تک واپس نہ آئیں ہم چین سے بیٹھ نہیں سکتے۔
آزادی کیا ہے؟ یہ کوئی ہم سے پوچھے۔
انڈیا نے ہر طرف سے شکنجہ اس قدر سخت کر دیا ہے کہ ہماری قیادت تک کا علم بی نہیں وہ کہاں ہیں؟
میر واعظ عمر فاروق صاحب کا چوتھا سال،پتہ ہی نہیں کدھر چلے گئے؟ ساری حریت قیادت کارکن عورتیں بچے تک جیلوں میں بند ہیں ۔ ہم فریاد کریں تو کس سے کریں ؟ کہاں جائیں؟
مدینہ منورہ میں مسجد نبوی سے مسجد قبا کی طرف نفل ادا کرنے جائے ہوئے نئے ٹریک پر پیدل چلتے دو افراد کو پیچھے سے پاکستانی لباس پہنے دیکھا تو ان سے خصوصی سلام لیا اور پہلا سوال پوچھا، کیا آپ پاکستانی ہیں؟کہنے لگے،ہم کشمیری ہیں،اور ظاہر ہے پاکستانی ہی ہیں تبھی تو شلوار قمیض پہن رکھی ہے۔ پھر بتایا کہ ہم ایک دوسرے ساتھ کے فلاں علاقے سے ہیں، حالات پر بات ہوئی تو کبھی کچھ رکے جھجکے لیکن جب میں نے مقبوضہ کشمیر اور اس کے تازہ ترین حالات و جغرافیہ پر بات کی تو پھر کھل کر بولنےلگےکہ ہم جس جبر میں رہ رہے بیان بھی نہیں کر سکتے، یہاں بھی خوف ہے۔ ہمارے ہر گھر میں شہید قیدی زخمی ضرور ہیں، اب تو جبر کی یہ کیفیت ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس اپنے ذاتی 8 سے 10 لاکھ روپے ذاتی ہوں تو اس کے گھر این آئی اے چھاپہ مار کر اسے پکڑ لیتی ہے کہ یہ ٹیرر فنڈنگ ہے اور بندہ پکا جیل میں اور خاندان تباہ و برباد ۔ ہمارے تو مقدمے بھی کوئی نہیں سنتا نہ کوئی شنوائی ہے، آپ جیسے بھی ہیں پھر بھی آزاد تو ہیں، بس اللہ ہی اچھا کرے اور ہم اس قہر سے نجات پائیں۔
مکہ مکرمہ واپسی ہوئی تو کچھ دوستوں نے پھر مدینہ منورہ کی دعوت دی تو ان کی محبت میں جانا ہی پڑا،
حسن اتفاق دیکھیے کہ جس ٹیکسی میں سوار ہوا اس میں میں آخری سواری تھا، اگلی نشست پر بیٹھے نوجوان نے مجھے اردو بولتے سنا تو بیٹھتے ہی تعارف شروع کر دیا، اس کا تعلق بھی مقبوضہ کے ایک مرکزی ترین علاقے سے تھا،اور وہ تحریک آزادی کا اتنا متحرک حصہ نکلا کہ میں حیران رہ گیا، بتایا کہ آزادی کے متوالے لڑاکو ان کے گھر چند ماہ پہلے بھی قیام پذیر رہے ، انہوں نے ایک نام بھی لیا کہ وہ جو حال ہی میں چند ماہ پہلے شہید ہوا وہ میرے گھر بہت دن رہتا رہا ، پھر کسی اور جگہ گیا اور موبائل کے استعمال کی وجہ ٹریس ہوا اور شہید ہو گیا۔
کہنے لگے کہ ہم اپنا کاروبار بھی اب صرف اتنا کر سکتے ہیں کہ جس صرف بمشکل دال روٹی چلے،اگر معمولی سا زیادہ کما لیا تو سمجھو کہ پکی جیل اور موت ہے۔
کہنے لگے کہ ایک کام تو بہت کمال ہوا ہے
میں نے پوچھا ۔۔۔ کیا ؟
بولے کہ انڈیا ہمارے خطے کی ڈیمو گرافی تبدیل کر رہا ہے کہ دفعہ 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد یہاں ہندؤوں کو آباد کیا جائے اور کشمیر کی بھاری مسلم اکثریتی شناخت ختم کی جائے، لیکن آزادی کے متوالوں نے ایسے گھس بیثھئے ہی جگہ جگہ پھڑکا دئیے ہیں،جو آئے تھے بھاگ گئے اور جو آنے کا پروگرام بنائے بیٹھے تھے وہ سب دبک گئے اور سارا پلان فیل ہو گیا۔
انڈیا اب ہمارے بچے مار کر ان کی لاشیں بھی ہمیں نہیں دیتا کہ ان کے جنازوں سے تحریک کو مزید جلا ملتی تھی لیکن کوئی ہماری بات سنتے سنانے والا نہیں، کوئی ہمارے حق میں بولنے والا نہیں ۔ ہم اپنی جنگ خود لڑ رہے ہیں اور لڑتے رہیں گے۔ پھر ساتھ ہی موبائل نکالا اور اپنے 2 سالہ بچے کی ویڈیو دکھائی جو آزادی کے نعرے لگا رہا تھا،پھر بتایا کہ یہ میرا بیٹا ہے اور یہ ہماری اگلی نسل ہے ، یہ بھی لڑے گی اور کبھی نہیں جھکے گی ۔ پھر بتایا کہ
ہم بخوبی جانتے ہیں کہ تحریک آزادی اب ڈرون طیاروں اور سرنگوں سے چل رہی ہے اور انڈیا ایک فوجی یہاں نہیں نکال سکا اور یہی کامیابی ہے کہ ہم جھکے نہیں اور انڈیا جیتا نہیں۔
جب میں نے بتایا کہ ہم بھی آپ کی آزادی کی بات یہاں پاکستان میں بھی سوشل میڈیا پر نہیں کرسکتے کہ اکاؤنٹ ختم کر دئیے جاتے ہیں ۔ تو وہ بہت حیران ہوا کہ یہ ظلم یہاں بھی ہے؟
اس سب کے بیچ سب پاکستان کے حالات پر ابھی مغموم دکھائی دئیے کہ آپ سے ہماری امیدیں وابستہ ہیں اور آپ تو عجیب کیفیت میں چلے گئے ہیں اور یوں دکھی دل سے مسکراتے ملتے ، اللہ سے کامیابی و آزادی کی دعائیں مانگتے رخصت ہوتے جاتے اور میں دل ہی دل میں سوچتا جاتا کہ ہمارا ملک پھر بی کچھ نہ کچھ آزاد تو ہے جتنا ہے پھر بھی وہ حالات تو نہیں جو ان کے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ اور یہاں بھی وہی دعائیں کہ بس ہم دونوں کے حالات اچھے ہوں اور دونوں ایک بھی ہو جائیں اور جھوٹوں منافقوں اور دشمنوں سے ہمیشہ کے لیے آزاد بھی۔
(مقامات وفراد کےنام و دیگرتفصیلات بوجوہ نہیں دی گئیں)

#حق سچ

علی عمران شاہین