صحابہ کرام کا حسنین کریمین سے پیار
قارئین کرام! تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے بے تحاشا محبت والفت رکھتے تھے، کوئی بھی صحابی ایسا نہیں تھا جو ان سے نفرت وبغض رکھتا ہو۔ خلفاء راشدین اور دیگر صحابہ کا حسنین کریمین سے محبت کے بعض حسین مناظر ملاحظہ ہوں۔
1 خلفاء راشدین کا حسین رضی اللہ عنہ سے پیار
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں:
ﻛَﺎﻥَ اﻟﺼِّﺪِّﻳﻖُ ﻳُﻜْﺮِﻣُﻪُ ﻭَﻳُﻌَﻈِّﻤُﻪُ، ﻭَﻛَﺬَﻟِﻚَ ﻋُﻤَﺮُ ﻭَﻋُﺜْﻤَﺎﻥُ،
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حسین رضی اللہ عنہ کی عزت وتکریم کرتے تھے اور عمر وعثمان رضی اللہ عنہما بھی آپ کی عزت وتکریم کرتے تھے۔
(البداية والنهاية: 161/8)
2 ابوبكر صديق رضی اللہ عنہ کا حسن رضی اللہ عنہ سے پیار
سیدنا عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
صَلَّى أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الْعَصْرَ ، ثُمَّ خَرَجَ يَمْشِي فَرَأَى الْحَسَنَ يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ فَحَمَلَهُ عَلَى عَاتِقِهِ ، وَقَالَ : بِأَبِي شَبِيهٌ بِالنَّبِيِّ لَا شَبِيهٌ بِعَلِيٍّ وَعَلِيٌّ يَضْحَكُ.
ابوبکر رضی اللہ عنہ عصر کی نماز سے فارغ ہو کر مسجد سے باہر نکلے تو دیکھا کہ حسن رضی اللہ عنہ بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ آپ نے ان کو اپنے کندھے پر بٹھا لیا اور فرمایا: میرے باپ تم پر قربان ہوں! تم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شباہت ہے۔ علی کی نہیں۔ یہ سن کر علی رضی اللہ عنہ ہنسنے لگے۔
(صحیح بخاری: 3542)
3 عمر رضی اللہ عنہ کا حسنین رضی اللہ عنہ سے پیار
امام ابن عساکر رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں:
ﺃﻥ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ اﻟﺨﻄﺎﺏ ﻟﻤﺎ ﺩﻭﻥ اﻟﺪﻳﻮاﻥ ﻭﻓﺮﺽ اﻟﻌﻄﺎء اﻟﺤﻖ اﻟﺤﺴﻦ ﻭاﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻔﺮﻳﻀﺔ اﺑﻴﻬﻤﺎ ﻣﻊ ﺃﻫﻞ ﺑﺪﺭ ﻟﻘﺮاﺑﺘﻬﻤﺎ ﻣﻦ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ (ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ) ﻓﻔﺮﺽ ﻟﻜﻞ ﻭاﺣﺪ ﻣﻨﻬﻤﺎ ﺧﻤﺴﺔ ﺁﻻﻑ ﺩﺭﻫﻢ.
جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے دفاتر ترتیب دہے اور عطائیں مقرر کیں تو حسن وحسین رضی اللہ عنہما کو رسول اللہ ﷺ سے قرابت کی وجہ اس کے والد کے ساتھ سے اہل بدر میں سے حصہ مقرر کیا۔
(تاريخ دمشق: 238/13)
ابن کثیر رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں:
ﻭﻗﺪ ﺛﺒﺖ ﺃﻥ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ اﻟﺨﻄﺎﺏ ﻛﺎﻥ ﻳﻜﺮﻣﻬﻤﺎ ﻭﻳﺤﻤﻠﻬﻤﺎ ﻭﻳﻌﻄﻴﻬﻤﺎ ﻛﻤﺎ ﻳﻌﻄﻲ ﺃﺑﺎﻫﻤﺎ.
پس ثابت ہوا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ان دونوں کی عزت وتکریم کرتے ان کی ذمہ داریاں اٹھاتے اور ان کو اسی طرح عطا کرتے جس طرح ان کے والد کو عطا کیا کرتے تھے۔
(البداية والنهاية: 226/8)
امام ذہبی رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں:
ﺃﻥَّ ﻋُﻤَﺮَ ﻛَﺴَﺎ ﺃﺑﻨﺎء اﻟﺼﺤﺎﺑﺔ، ﻭَﻟَﻢْ ﻳَﻜُﻦْ ﻓِﻲ ﺫَﻟِﻚَ ﻣَﺎ ﻳَﺼﻠُﺢُ ﻟِﻠْﺤَﺴَﻦِ ﻭَاﻟﺤُﺴَﻴْﻦِ، ﻓَﺒَﻌﺚَ ﺇِﻟَﻰ اﻟﻴَﻤَﻦِ، ﻓَﺄُﺗِﻲ ﺑِﻜِﺴْﻮَﺓٍ ﻟَﻬُﻤَﺎ، ﻓَﻘَﺎﻝَ: اﻵﻥَ ﻃَﺎﺑَﺖْ ﻧَﻔْﺴِﻲ.
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے صحابہ کے بیٹوں کو کپڑے پہنائے لیکن ان میں کوئی ایسا کپڑا نہیں تھا جو حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے شایان شان ہو تو آپ نے یمن کی طرف ایک بندہ بھیج ان کے لیے جوڑے منگوائے پھر فرمایا: اب جاکر میرا دل خوش ہوا۔
(سیر اعلام النبلاء: 351/4)
4 عثمان رضی اللہ عنہ کا حسنین رضی اللہ عنہما سے پیار
ابن کثیر رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں:
ﻛَﺎﻥَ ﻋُﺜْﻤَﺎﻥُ ﺑْﻦُ ﻋَﻔَّﺎﻥَ ﻳُﻜْﺮِﻡُ اﻟْﺤَﺴَﻦَ ﻭَاﻟْﺤُﺴَﻴْﻦَ ﻭَﻳُﺤِﺒُّﻬُﻤَﺎ.
ﻭَﻗَﺪْ ﻛَﺎﻥَ اﻟْﺤَﺴَﻦُ ﺑْﻦُ ﻋَﻠِﻲٍّ ﻳَﻮْﻡَ اﻟﺪَّاﺭِ – ﻭَﻋُﺜْﻤَﺎﻥُ ﺑْﻦُ ﻋَﻔَّﺎﻥَ ﻣﺤﺼﻮﺭ – ﻋﻨﺪﻩ ﻭﻣﻌﻪ اﻟﺴﻴﻒ ﻣﺘﻘﻠﺪاً ﺑﻪ ﻳﺤﺎﺟﻒ ﻋَﻦْ ﻋُﺜْﻤَﺎﻥَ.
عثمان رضی اللہ عنہ حسین وحسین رضی اللہ عنہما کی عزت وتکریم کرتے اور ان سے محبت کرتے تھے۔ جس دن عثمان رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں محصور تھے اس دن حسن رضی اللہ عنہ ان کے پاس تھے اور ان کے پاس تلوار تھی جو ان کے کندھے سے لٹکی ہوئی تھی جس سے وہ عثمان رضی اللہ عنہ کا دفاع کرتے تھے۔
(البداية والنهاية: 41/8)
5 ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا حسنین سے پیار
سعيد بن ابو سعید المقبری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ: ایک مرتبہ حسن بن علی رضی اللہ عنہ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہمیں سلام کیا، پس ہم نے آپ کے سلام کا جواب دیا۔ لیکن ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو آپ کی آمد یا سلام کا علم نہیں ہو سکا۔ ہم نے بتایا کہ اے ابوہریرہ! یہ حسن بن علی آئے ہیں اور انہوں نے ہم پر سلام کیا ہے۔ تو آپ رضی اللہ عنہ ان کے پاس گئے اور کہا:
ﻭَﻋَﻠَﻴْﻚَ اﻟﺴَّﻼَﻡُ ﻳَﺎ ﺳﻴﺪي، ﺛُﻢَّ ﻗَﺎﻝَ: ﺳَﻤِﻌْﺖُ ﺭَﺳُﻮﻝَ اﻟﻠَّﻪِ ﺻَﻠَّﻰ اﻟﻠﻪُ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ ﻳَﻘُﻮﻝُ: ﺇﻧﻪ ﺳﻴﺪ.
اے میرے سردار آپ پر بھی سلامتی ہو! پھر بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ سردار ہیں۔
(مستدرک حاکم: 4792)
ابوالمھزم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ: ہم ایک خاتون کے جنازے میں تھے۔
ﻓَﺠَﻌَﻞَ ﺃَﺑُﻮ ﻫُﺮَﻳْﺮَﺓَ ﻳَﻨْﻔُﺾُ اﻝﺗﺮاﺏ ﻋَﻦْ ﻗﺪﻣﻴﻪ ﺑِﻄَﺮﻑِ ﺛَﻮْﺑِﻪِ، ﻓَﻘَﺎﻝَ اﻟْﺤُﺴَﻴْﻦُ: ﻳَﺎ ﺃَﺑَﺎ ﻫُﺮَﻳْﺮَﺓَ، ﻭﺃﻧﺖ ﺗﻔﻌﻞ ﻫﺬا؟! ﻓﻘﺎﻝ: ﺩﻋﻨﻲ، ﻓَﻮَاﻟﻠَّﻪِ ﻟَﻮْ ﻳَﻌْﻠَﻢُ اﻟﻨَّﺎﺱُ ﻣِﺜْﻞَ ﻣَﺎ ﺃَﻋْﻠَﻢُ ﻟَﺤَﻤَﻠُﻮﻙَ ﻋَﻠَﻰ ﺭِﻗَﺎﺑِﻬِﻢْ.
ابوہریرہ حسین رضی اللہ عنہ کے قدموں سے گرد جھاڑنے لگے حسین رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابو ہریرہ! آپ یہ سب کر رہے ہیں؟ آپ نے جواب دیا: مجھے چھوڑیں، جو میں جانتا ہوں اگر لوگ وہ جان لیں تو آپ کو اپنے گردنوں پر سوار کرلیں۔
(تاریخ الاسلام للذھبی: 627/2)
مستدرک حاکم میں ہے کہ ایک بار سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے ملے تو ان سے کہا:
ﺭَﺃَﻳْﺖُ ﺭَﺳُﻮﻝَ اﻟﻠَّﻪِ ﺻَﻠَّﻰ اﻟﻠﻪُ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ ﻗَﺒَّﻞَ ﺑﻄﻨﻚ ، ﻓَﺎﻛْﺸِﻒِ اﻟْﻤَﻮْﺿِﻊَ اﻟَّﺬِﻱ ﻗَﺒَّﻞَ ﺭَﺳُﻮﻝُ اﻟﻠَّﻪِ ﺻَﻠَّﻰ اﻟﻠﻪُ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ ﺣَﺘَّﻰ ﺃُﻗَﺒِّﻠَﻪُ، ﻗَﺎﻝَ: ﻭَﻛَﺸَﻒَ ﻟَﻪُ اﻟْﺤَﺴَﻦُ ﻓَﻘَﺒَّﻠَﻪُ.
ایک بار میں نے رسول اللہ ﷺ کو آپ کے پیٹ پر بوسہ دیتے ہوئے دیکھا ہے، آپ میرے لیے اس حصے کو ظاہر کریں تاکہ میں بھی وہاں بوسہ دوں۔ جہاں رسول اللہ ﷺ نے اپنے لب مبارک لگائے ہیں۔ چناچہ آپ رضی اللہ عنہ نے وہ حصہ ظاہر کیا اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے وہاں بوسہ دیا۔
(مستدرک حاکم: 4785)
آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
میں نے جب بھی حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو دیکھا تو میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک دن نبی ﷺ باہر تشریف لائے، آپ ﷺ نے مجھے مسجد میں پایا۔ آپ نے میرا ہاتھ تھاما اور مجھ پر سہارا لیا۔ پس میں ﷺ کے ساتھ چل پڑا یہاں تک کہ بنو قینقاع کا بازار آ گیا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : آپ ﷺ نے میرے ساتھ کوئی بات نہیں کی۔ آپ ﷺ نے بازار کا ایک چکر لگایا، (بازار کو) دیکھا پھر لوٹ آئے اور میں بھی آپ ﷺ کے ساتھ لوٹ آیا۔ پھر آپ مسجد میں تشریف فرما ہوئے اور حبوہ باندھ کر بیٹھ گئے پھر فرمایا: ’ذرا منے کو میرے پاس بلانا۔ پس حسین رضی اللہ عنہ دوڑے ہوئے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں گر گئے۔ پھر انہوں نے ﷺ کی داڑھی میں ہاتھ ڈال کر کھیلنا شروع کر دیا۔
ﻓَﺠَﻌَﻞَ ﺭَﺳُﻮﻝُ اﻟﻠَّﻪِ ﺻَﻠَّﻰ اﻟﻠﻪُ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ ﻳَﻔْﺘَﺢُ ﻓَﻢَ اﻟْﺤُﺴَﻴْﻦِ ﻓَﻴَﺪْﺧُﻞُ ﻓَﺎﻩُ ﻓِﻲ ﻓِﻴﻪِ ﻭَﻳَﻘُﻮﻝُ: اﻟﻠَّﻬُﻢَّ ﺇﻧﻲ ﺃﺣﺒﻪ ﻓﺃﺣﺒﻪ.
نبی ﷺ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے منہ کو کھولتے اور اس میں اپنا منہ داخل کر کے فرماتے: اے اللہ! مجھے اس سے محبت ہے، تو بھی اس سے محبت کر۔
(مستدرک حاکم: 4823)
مساور السعدی بیان کرتے ہیں کہ:
ﺭَﺃَﻳْﺖُ ﺃَﺑَﺎ ﻫُﺮَﻳْﺮَﺓَ ﻗَﺎﺋِﻤﺎً ﻋَﻠَﻰ ﻣَﺴﺠﺪِ ﺭَﺳُﻮْﻝِ اﻟﻠﻪِ -ﺻَﻠَّﻰ اﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ- ﻳَﻮْﻡَ ﻣﺎﺕ اﻟﺤَﺴَﻦُ ﻳَﺒْﻜِﻲ، ﻭَﻳُﻨَﺎﺩِﻱ ﺑِﺄَﻋﻠَﻰ ﺻَﻮْﺗِﻪِ: ﻳَﺎ ﺃَﻳُّﻬَﺎ اﻟﻨَّﺎﺱُ! ﻣَﺎﺕَ اﻟﻴﻮﻡ ﺣﺐ ﺭَﺳُﻮْﻝِ اﻟﻠﻪِ -ﺻَﻠَّﻰ اﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ.
جس دن حسن رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا میں نے ابوہریرہ کو رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں کھڑے دیکھا وہ رو رہے تھے اور بلند آواز سے کہہ رہے تھے: لوگو! آج رسول اللہ ﷺ کے محبوب کا انتقال ہو گیا ہے۔
(سير أعلام النبلاء: 346/4)
6 ام سلمی رضی اللہ عنہا کا حسین رضی اللہ عنہ سے پیار
شہر بن حوشب رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا کہ ایک عورت چیختی ہوئی آئی اور کہا: حسین رضی اللہ عنہا کو شہید کر دیا گیا ہے۔ یہ سن کر آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
ﻗﺪ ﻓﻌﻠﻮﻫﺎ ﻣﻸ اﻟﻠﻪ ﺑﻴﻮﺗﻬﻢ ﺃﻭ ﻗﺒﻮﺭﻫﻢ ﻋﻠﻴﻬﻢ ﻧﺎﺭا ﻭﻭﻗﻌﺖ ﻣﻐﺸﻴﺎ ﻋﻠﻴﻬﺎ ﻭﻗﻤﻨﺎ.
کیا انہوں نے ایسا کیا ہے ! اللہ ان کے گھروں کو یا ان کے قبروں کو آگ سے بھر دے۔ پھر آپ رضی اللہ عنہا بے ہوش ہو گئیں اور ہم وہاں سے اٹھ کر آ گئے۔
(تاریخ دمشق: 238/14)
7 عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا حسین سے پیار
عيزار بن حريث العبدى رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ:
ایک بار سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کعبے کے سائے مین بیٹھے ہوئے تھے کہ سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ کو آتے ہوئے دیکھا۔ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
ﻫﺬا ﺃﺣﺐ ﺃﻫﻞ اﻷﺭﺽ ﺇﻟﻰ ﺃﻫﻞ اﻟﺴﻤﺎء اﻟﻴﻮﻡ.
یہ شخص آج آسمان والوں کے نزدیک زمین والوں میں سے سب سے زیادہ محبوب ہے۔
(تاریخ دمشق: 179/14)
8 معاویہ رضی اللہ عنہ کا حسن رضی اللہ عنہ سے پیار
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمُصُّ لِسَانَهُ أَوْ قَالَ شَفَتَهُ يَعْنِي الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَنْ يُعَذَّبَ لِسَانٌ أَوْ شَفَتَانِ مَصَّهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
میں نے نبی ﷺ کو حسن رضی اللہ عنہ کی زبان یا ہونٹ چوستے ہوئے دیکھا ہے اور اس زبان یا ہونٹ کو عذاب نہیں دیا جائے گا جسے نبی ﷺ نے چوسا ہو۔
(مسند احمد: 16247)
صاحب عقد الفرید نقل کرتے ہیں کہ: ایک بار سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ہم مجلسوں سے سوال کیا:
ﻣﻦ ﺃﻛﺮﻡ اﻟﻨﺎﺱ ﺃﺑﺎ ﻭﺃﻣّﺎ، ﻭﺟﺪا ﻭﺟﺪﺓ، ﻭﻋﻤّﺎ ﻭﻋﻤﺔ، ﻭﺧﺎﻻ ﻭﺧﺎﻟﺔ؟ ﻓﻘﺎﻟﻮا: ﺃﻣﻴﺮ اﻟﻤﺆﻣﻨﻴﻦ ﺃﻋﻠﻢ. ﻓﺄﺧﺬ ﺑﻴﺪ اﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﻭﻗﺎﻝ: ﻫﺬا، ﺃﺑﻮﻩ.ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻃﺎﻟﺐ، ﻭﺃﻣﻪ ﻓﺎﻃﻤﺔ اﺑﻨﺔ ﻣﺤﻤﺪ، ﻭﺟﺪّﻩ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠّﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻭﺟﺪّﺗﻪ ﺧﺪﻳﺠﺔ.
ماں باپ، نانا نانی، چچا پھوپھی، خالہ اور ماموں کے حساب سے سب سے زیادہ مکرم کون ہیں؟ لوگوں نے کہا: اے امیرالمومنین! آپ ہم سے زیادہ جانتے ہیں۔ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ (جو اس وقت مجلس میں موجود تھے) ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا: یہ ہیں۔ جن کے والد علی، ماں فاطمہ، نانا محمد رسول اللہ ﷺ اور نانی خدیجہ رضی اللہ عنہم ہیں۔
(العقد الفريد: 345/5)
عبداللہ بن بریدہ بیان کرتے ہیں کہ:
ﺃَﻥَّ ﺣَﺴَﻦَ ﺑْﻦَ ﻋَﻠِﻲٍّ ﺩَﺧَﻞَ ﻋَﻠَﻰ ﻣُﻌَﺎﻭِﻳَﺔَ ﻓَﻘَﺎﻝَ: ﻷَُﺟِﻴﺰَﻧَّﻚَ ﺑﺠﺎﺋﺰﺓ ﻟَﻢْ ﺃُﺟِﺰْ ﺑِﻬَﺎ ﺃَﺣَﺪًا ﻗَﺒْﻠَﻚَ ﻭَﻻَ ﺃُﺟِﻴﺰُ ﺑِﻬَﺎ ﺃَﺣَﺪًا ﺑَﻌْﺪَﻙَ ﻣِﻦَ اﻟْﻌَﺮَﺏِ، ﻓَﺄَﺟَﺎﺯَﻩُ ﺑِﺄَﺭْﺑَﻌِﻤِﺎﺋَﺔِ ﺃَﻟْﻒٍ، ﻓَﻘَﺒِﻠَﻬَﺎ.
حسن بن علی رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس داخل ہوئے تو آپ نے فرمایا: میں ضرور آپ کو ایک ایسا عطیہ دوں گا جو آپ سے پہلے کبھی کسی عرب کو نہ دیا ہے نہ دوں گا۔ پھر آپ نے انہیں چار لاکھ عطا کیے اور انہوں نے قبول کیے۔
(مصنف ابن أبي شيبة: 188/6)
9 جابر رضی اللہ عنہ کا حسین رضی اللہ عنہ سے پیار
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
ﻣَﻦْ ﺳَﺮَّﻩُ ﺃَﻥْ ﻳَﻨْﻈُﺮَ ﺇِﻟَﻰ ﺭَﺟُﻞٍ ﻣِﻦْ ﺃَﻫْﻞِ اﻟْﺠَﻨَّﺔِ، ﻓَﻠْﻴَﻨْﻈُﺮْ ﺇِﻟَﻰ اﻟْﺤُﺴَﻴْﻦِ ﺑْﻦِ ﻋَﻠِﻲٍّ” ﻓَﺈِﻧِّﻲ ﺳَﻤِﻌْﺖُ ﺭَﺳُﻮﻝَ اﻟﻠَّﻪِ ﺻَﻠَّﻰ اﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ ﻳﻘﻮﻟﻪ.
جس کو اس بات سے خوشی ہو کہ ایک جنتی آدمی دیکھے تو وہ حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو دیکھ لے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو انہیں جنتی کہتے سنا ہے۔
(صحيح ابن حبان: 6966)
10 سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا حسین رضی اللہ عنہ سے پیار
ابن ابی نعم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ:
كُنْتُ شَاهِدًا لِابْنِ عُمَرَ ، وَسَأَلَهُ رَجُلٌ عَنْ دَمِ الْبَعُوضِ، فَقَالَ: مِمَّنْ أَنْتَ؟ فَقَالَ: مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ، قَالَ: انْظُرُوا إِلَى هَذَا يَسْأَلُنِي عَنْ دم البعوض وَقَدْ قَتَلُوا ابْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: هُمَا رَيْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْيَا.
میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں موجود تھا کہ ان سے ایک شخص نے احرام کی حالت میں مچھر کے مارنے کے متعلق سوال کیا ( کہ اس کا کفارہ کیا ہے) ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ان سے پوچھا: تم کہاں سے ہو؟ اس نے کہا: عراق سے۔ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اس شخص کو دیکھو! جو مچھر کے خون کے متعلق سوال کر رہا ہے اور انہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے کو قتل کر دیا۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دونوں ( حسن و حسین رضی اللہ عنہما ) دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔
(صحیح بخاری: 5994)
11 سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے جنازے میں صحابہ کی شرکت
ثعلبہ بن ابی مالک رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ:
ﺷَﻬِﺪْﻧَﺎ اﻟْﺤَﺴَﻦَ ﺑْﻦَ ﻋَﻠِﻲٍّ ﻳَﻮْﻡَ ﻣَﺎﺕَ ﻭَﺩَﻓَّﻨَﺎﻩُ ﺑِﺎﻟْﺒَﻘِﻴﻊِ ﻭﻟﻮ ﻃﺮﺣﺖ ﺇِﺑْﺮَﺓٌ ﻣَﺎ ﻭَﻗَﻌَﺖْ ﺇِﻻَّ ﻋَﻠَﻰ ﺭَﺃْﺱِ ﺇِﻧْﺴَﺎﻥٍ.
جس دن حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی ہم ان کے جنازے میں شریک ہوئے اور ہم نے ان کو بقیع الغرقد میں سپرد خاک کیا۔ ان کے جنازے میں اتنے لوگ شریک تھے کہ اگر سوئی بھی پھینکی جاتی تو وہ کسی انسان کے سر پر ہی گرتی۔
(مستدرک حاکم: 188/3)
آپ کے جنازے میں اتنی کثرت کی شرکت آپ سے صحابہ کرام کی محبت کی دلیل ہے۔
محمد سلیمان جمالی سندھ پاکستان