اہل حدیث کی ایک مذہبی و سیاسی جماعت مرکزی جمعیت اہل حدیث کے بزرگ قائد اور امیر پروفیسر ساجد میر صاحب حفظہ اللہ، ایک منفرد شخصیت کے مالک ہیں، اردو کے ساتھ انگریزی میں بھی مکمل مہارت رکھتے ہیں، قرآن کریم سے والہانہ تعلق کی یہ صورت ہے کہ اسی پچاسی سال کی عمر میں بھی ہر سال نماز تراویح میں قرآنِ کریم کی تکمیل کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ عرصہ دراز سے پارلیمنٹ اور سینٹ میں اہل حدیث اور مذہبی حلقوں کے نمائندہ ہیں، مذہبی سیاست میں مولانا فضل الرحمن اور پروفیسر ساجد میر صاحب جیسی شخصیات کا ایک نمایاں مقام ہے، کیونکہ بیک وقت پارلمنٹیرین اور خالص مذہبی ہونا یہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بہت سارے لوگوں کو ان کے سیاسی رجحانات اور ان کی جماعت کی کارکردگی کے حوالے سے ان سے اختلاف بلکہ شدید اختلاف ہے، جس کا اظہار بعض لوگ ادب و آداب کے دائرے میں رہتے ہوئے، جبکہ بعض دوسرے اخلاقیات اور عدل وانصاف سے ماورا ہو کر کرتے ہیں۔ ہر بڑی اور مشہور شخصیت کا یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ ان کے متعلق معتدل لوگوں کی بجائے افراط و تفریط پر مبنی رویے زیادہ ہوتے ہیں، مخالفین انہیں زیرو، جبکہ چاپلوس قسم کا طبقہ ان کے بارے میں انتہائی مبالغہ آمیز مدح و اطراء کے منہج پر گامزن ہوتا ہے۔

حال ہی میں اسی بزرگ قائد کو کسی منچلے نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے ساتھ ملا دیا ہے، کئی ایک عالم وغیر عالم اس پر سیخ پا ہو رہے ہیں، لیکن احباب خاطر جمع رکھیں کہ یہ بارش کا پہلا قطرہ تھا، اب تیار رہیں کہ کچھ عرصے بعد آپ کو اشتہاروں پر کئی ایک شیخ الاسلام نظر آئیں گے، جیسا کہ ایک وقت تھا کہ لفظ’ علامہ’ اکا دکا اہل علم کے لیے ہی بولا جاتا تھا، لیکن پھر چشمِ فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ یہ لقب اوجِ ثریا سے تنزلی کا سفر شروع کرتا ہے اور سیڑھیاں اترتے اترتے ناصر مدنی صاحب جیسے لوگوں کے قدموں کی خاک بن جاتا ہے!
بہرصورت ’شیخ الاسلام’ ایک بڑا عظیم لقب تھا، جو سفیان الثوری جیسے متقدمین اکابرین سے ہوتے ہوئے ابن تیمیہ جیسے مجدد کے نام کا حصہ بن گیا۔ اسی طرح بعد میں ابن حجر، زکریا الانصاری جیسے عباقرہ پر بھی بولا گیا، اسی طرح بعض اہل علم کے لیے بطور لقب تو مشہور نہ ہوا، البتہ وقتی طور پر مدح و ثناء کے سیاق میں ماضی قریب کے کئی معاصرین تک بھی اس کا اطلاق ہوا۔
بعض اہل علم نے اس پر مستقل کتابیں بھی لکھیں، جن میں تمام اہل علم کو جمع کردیا گیا، جنہیں باقاعدہ ’شیخ الاسلام’ کے لقب سے ملقب کیا گیا۔
لیکن جب سے طاہر القادری صاحب اپنے حلقہ ارادت میں ’شیخ الاسلام’ ہوئے ہیں، تب سے حق بنتا تھا کہ تمام مسالک کے اپنے اپنے شیخ الاسلام منظر عام پر آئیں، اب امید ہے، جماعتیں بھی اس طرف توجہ فرمائیں گی۔ ان شاءاللہ۔
القاب کے حوالے سے یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی بھی ’عالم دین اور عاقل’ خود کے لیے شیخ الاسلام تو دور کی بات ’شیخ، مولانا جسے سابقے لاحقے بھی پسند نہیں کرتا، لیکن بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں کہ جنہیں دیگر اہل علم اور کبار شخصیات ان کی خدمات اور شخصیات کو سامنے رکھ کر القابات سے نوازتے ہیں۔ اس باب میں ’صاحبِ لقب’ کے ساتھ ساتھ ’ واضعِ لقب’ کی شخصیت بہت اہم ہوتی ہے۔ یعنی دیکھا یہ جاتا ہے کہ کوئی بندہ اگر عالم، فاضل، علامہ، شیخ الاسلام، امیر المؤمنین، مجاہد و قائدِ ملت ہے تو کن لوگوں کے ہاں ہے؟ وکذا العکس!
بعض دفعہ لقب کسی شخصیت کی تقییم و توصیف نہیں ہوتا، بلکہ قائل کی عقیدت اور محبت بلکہ مبالغہ آرائی اور خوشامد کا اظہار ہوتا ہے، گویا زبانِ حال سے یہ کہا جا رہا ہوتا ہے کہ ہماری پوٹلی میں اس سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے جو ہم آپ کے قدموں میں نچھاور کر سکیں!
ہمارے ایک استاد بڑی دلچسپ بات کیا کرتے تھے کہ القاب کا معاملہ بڑا عجیب ہے۔ اگر آپ کسی بڑے کو اس کے شایانِ شان سابقے لاحقے سے یاد نہ کریں تو یہ تو اس کی توہین ہے، لیکن اگر کسی نا اہل کا تمسخر اڑانا ہو تو اسے بھاری بھر کم القاب دیے کر یہ کام بآسانی سر انجام دیا جا سکتا ہے!

رابطہ عالم اسلامی کے حالیہ رئیس محمد عبد الکریم العیسی کے رجحانات

محترم پروفیسر ساجد میر صاحب کو مبینہ طور پر جس شخصیت کی طرف سے ’شیخ الاسلام’ کا لقب دیا گیا ہے۔ اگر ان کے نظریات و رجحانات اور ان کی سرگرمیوں اور مشن پر نظر دوڑائی جائے تو عجیب صورتِ حال سامنے آتی ہے، کیونکہ پروفیسر صاحب اور محمد العیسی کے رجحانات میں شدید اختلاف بلکہ تضاد ہے۔ پروفیسر ساجد میر صاحب مکمل مذہبی بلکہ مذہبِ اسلام کے ایک ذیلی مسلک کی ایک ذیلی تنظیم کے نمائندہ ہیں، جبکہ رابطہ اسلامی کے رئیس تو اس مشن پر گامزن ہیں کہ مسالک تو دور کی بات، ادیان و مذاہب کی تفریق بھی درست نہیں ہے۔

محمد العیسی تقارب بین الادیان کے زبردست حامی اور اسلام کی ان تعلیمات کے خلاف ہیں، جو ان کے ان نظریات کے آڑے آتی ہیں، اور یہ سعودیہ میں ان چند نمایاں دانشوروں میں سے ہیں، جنہوں نے سعودیہ جیسے ’دقیانوس’ ملک میں ’روشن خیالی’ کی تحریک کی قیادت کی ہے، اس پر مناظرے اور مکالمے کیے ہیں، اور جب سے محمد بن سلمان آئے ہیں تو انہوں نے حکومت کی ہلا شیری سے اپنے نظریات کو وسیع پیمانے پر پھیلانا اور نافذ کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودیہ کے کئی ایک کبار و صغار علمائے کرام محمد العیسی اور اس کے حواریوں کے خلاف ہیں۔ محدثِ مدینہ فضیلۃ الشیخ عبد المحسن العباد حفظہ اللہ ومتعہ بالصحۃ والعافیۃ نے کئی ایک تحریروں میں نام لیکر ان کی مذمت کی اور ان کے اسلام مخالف نظریات کا رد کیا ہے۔ (اس پر میری تفصیلی تحریر ہے، جو انٹرنیٹ پر کہیں نہ کہیں سرچ کرنے پر مل جائے گی)

جس محمد العیسی کو سعودیہ کے علماء نے پذیرائی نہیں دی، وہاں کے معتبر دینی اداروں اور لجان میں اس کی دال نہیں گلی، اس نے خود اب رابطہ عالم اسلامی جیسے پلیٹ فارم کو استعمال کرکے پوری دنیا سے اپنے اعوان وانصار اکھٹے کرنے شروع کر دیے ہیں۔ لیکن آپ حیران ہوں گے کہ ایک سال خطبہ حج کی امامت و خطابت کی سعادت ملنے کے باوجود اس محمد العیسی کو پوری دنیا سے کسی بھی ملک سے معتبر علمائے کرام کی تائید نہیں مل سکی، ہاں یہ ضرور ہے کہ پیسے، میڈیا اور سوشل میڈیا پروموشنز کے ذریعے اس نے اپنا امیج بہتر کرنے کے لیے مختلف ملکوں میں بڑی بڑی کانفرنسز کا انعقاد کیا، مجالس رکھیں، ملاقاتیں کیں، اور غیر نظریاتی شخصیات کو بلا کر اپنے آپ کو منوانے کی کوشش کی ہے۔ میری معلومات کی حد تک محمد العیسی کو پاکستان کی طرف سے جو عقیدت و احترام ملا ہے، اور ہمارے خالص مذہبی علماء اور جماعتوں نے اسے جو عزت و تکریم دی ہے، امید ہے وہ اسے اپنے ملک سعودیہ سمیت پوری دنیا میں کیش کروائیں گے اور اپنے مخالفین کا منہ بند کریں گے کہ تم مجھے ایک منحرف دانشور سمجھتے ہو، جبکہ میرے ساتھ پاکستان جیسے اسلامی ملک اور وہاں کی مذہبی جماعتوں کے قائدین اور سنت کے مطابق داڑھیوں والے ’شیوخ’ میرے ساتھ کھڑے ہیں! اور امید ہے اسی غرض سے محمد العیسی پوری دنیا کے بھولے بھالے اور معصوم علمائے کرام کو بڑے بڑے القاب اور عہدوں سے نوازیں گے، کیونکہ اس میں بہرصورت اسی کا فائدہ ہے!

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم محمد العیسی جیسے دانشوروں اور محمد بن سلمان جیسے حکمرانوں کے لیے استعمال ہونے والے میں سے ہوں گے؟ ہماری دینی اور مذہبی جماعتیں اور ان کے قائدین جو پاکستان میں اسلام کی حمایت اور لبرل ازم کے خلاف نظریاتی جنگ لڑ رہے ہیں، کیا وہ سعودیہ کے لبرل اور منحرف طبقے کے ہاتھوں یرغمال بنا لیے جائیں گے؟

یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ ہمارے پاکستان کے اسکالرز، قائدین اور علمائے کرام کو انٹرنیشنل لیول پر موجود اداروں میں نمائندگی دی جائے، لیکن کیا اس خوشی میں ہمیں امریکہ یا سعودیہ یا کوئی بھی دوسرا تیسرا ملک اپنے ہاں دوروں کی دعوت دے کر، ہمیں ناشتے کی ٹیبلز پر بٹھا کر، یا ہمارے اداروں اور تنظیموں کے ساتھ تعاون کرکے ہمیں اپنے حامیوں میں شمار کر سکتا ہے؟

حال ہی میں اسلام آباد میں ہونے والی کانفرنس کے لیے ہماری مذہبی جماعتوں کی طرف سے جو کمپین کی گئی ہے، جس طرح مدارس کے طلبہ کو اس میں شمولیت کے لیے ذہن سازی کی گئی ہے، اور پھر وہاں سے جس طرح گروپ فوٹوز بنا کر وائرل کیے گئے اور ہمارے لوگ عقیدت و محبت سے یہ سارے کام سر انجام دے رہے تھے، اس سب کو دیکھ کر میری آنکھوں کے سامنے محمد العیسی کا ’وثیقہ مکہ’ اور اس کے عقائد ونظریات اور مستقبل کے عزائم ایک فلم کی طرح چل رہے تھے!

اللہ تعالی ہم سب کو حال اور مستقبل میں کسی بھی قسم کی آزمائش اور بدنامی سے بچائے!

#خیال_خاطر

یہ بھی پڑھیں: خطیب حج محمد العیسی کے افکار و نظریات