محمد العیسی کی شخصیت پانچ نکات میں

1۔ تمام ادیان کا احترام: ریاض میں رابطہ عالم اسلامی کے تحت “القيم المشتركة بين أتباع الأديان” کے عنوان سے ایک عالمی کانفرنس منعقد کی گئی۔ جس میں محمد العیسی نے بطور میزبان گفتگو کرتے ہوئے کہا:

’سب لوگ اس حقیقت کو جان چکے ہیں کہ مختلف ادیان میں افہام و تفہیم، اور ایک دوسرے کے احترام و تکریم کے علاوہ، کوئی چارہ نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے سب کو  قابل عزت و تکریم بنا کر پیدا کیا ہے، اور سب کا برابری کی سطح پر رہنا، یہ ان کا بنیادی حق ہے، اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ دینی بنیاد پر ایک دوسرے سے ٹکراؤ، سب کے لیے باعث ذلت و فضیحت رہا ہے‘۔

https://themwl.org/ar/node/39095

آپ بتائیں، اس قسم کا نظریہ رکھ کر، کدھر گیا اسلام کا دینِ حق ہونا، اور بقیہ ادیان کا باطل یا منسوخ ہونا؟ کہاں گئی، تبلیغِ اسلام، اور اس کے لیے جہاد، محنت و جدوجہد اور اذیتیں تکلیفیں…!!

اسلامی نقطہ نظر سے دینِ حق صرف اسلام ہے،  دینِ محمدی کا منکر، وہ جس بھی دین کا پیروکار ہو ، کافر ہے، اسے پہلے دین کی دعوت، اور پھر حسب استطاعت و طاقت جہاد کرنا واجب ہے۔ جو تمام ادیان کو درست سمجھتا ہے، اہل علم نے اسے مرتد و زندیق قرار دیا ہے۔

انہیں محمد العیسی صاحب نے میڈیا پر ایک بیان میں کہا، کہ یہود و نصاری ہمارے بھائی ہیں، ان کی نصرت  وتائید کرنا ہم پر واجب ہے۔ جبکہ شیخ صالح الفوزان سے جب یہ سوال کیا گیا کہ: یہود و نصاری کو بھائی کہنا درست ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ایسا شخص مرتد ہے۔

https://www.youtube.com/watch?v=vAbtjDMJmz8

بہرصورت تقارب بین الادیان کی یہ کوششیں، مختلف انداز اور ناموں سے ہورہی ہیں، اور اس کی اصل بنیاد ، قرآن کریم یا احادیث نبویہ کی کوئی تعلیمات نہیں ہیں، بلکہ اس کی بنیاد اس عالمی منشور سے لی گئی ہے، جسے اقوامی متحدہ نے ’انسانی حقوق‘ کے نام سے جاری کیا ہے۔ اور اب پوری دنیا میں اس کی تنقیذ پر محنت کی جاری ہے۔ اور اس کے داعی اور پیامبر حرمین، اور اس کے منبروں تک پہنچ چکے ہیں۔

2۔ غیر اسلامی ممالک میں اسلامی تعلیمات سے روکنا، اور اس کے برعکس اسلامی ملکوں میں غیر مسلموں کی آزادی کی بات کرنا،  یہ دوغلہ پن بھی، ان کی سوچ وفکر میں انحراف اور ٹیڑھ پن کی واضح دلیل ہے۔

غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کو  مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں :

“إن القوانين المتعلقة بحظر الحجاب، في الدول غير الإسلامية، شرعية، وعلى المسلمين القبول بها، مؤكدا أنه على المسلمين أن لا يضعوا القرآن فوق قوانين البلدان المستضيفة لهم”.

غیر مسلم ممالک میں حجاب سے متعلق پابندی  بالکل درست ہے، اور مسلمانوں کے لیے اس کو ماننا ضروری ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ غیر مسلم ممالک میں قرآن کریم کو وہاں کے قوانین ود ساتیر پر حاکم نہ بنائیں…!

حوالہ: https://p.dw.com/p/2cist

بلکہ جب یورپ  کے اسی دورے کے بعد میڈیا میں ان کی طرف سے یہ بیان شائع ہوا کہ یورپ میں مقیم خواتین یا حجاب اتار دیں، یا پھر یورپ چھوڑ دیں۔ حوالہ: https://youtu.be/Sz2xnlYf0Vc

جبکہ   یہی محمد عیسی مسلم ممالک میں آکر یہ مطالبہ کرتا ہے کہ:

“ليس من الاعتدال إلزام الأجنبيات بالحجاب”.

’غیر ملکی خواتین کو حجاب کا پابند کرنا، قرین انصاف نہیں‘۔

حوالہ: https://www.alriyadh.com/1779654

یہ دو رنگی اور نا انصافی تو کسی عام آدمی کے بھی لائق نہیں، کجا یہ کہ وہ خود کو مسلمانوں کا مذہبی پیشوا اور نمائندہ کہلواتا ہو۔ بلکہ بیانات سے تو لگتا ہےکہ یہ مسلمانوں میں کافروں کا سفیر و وکیل ہے..!!

3۔ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں میں جانا، اس کی تشہیر و ترویج کرنا، ان کی عادات و رسومات میں شریک ہونا۔ جس کے لیے درج ذیل لنکس ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں:

https://youtu.be/bSwdnjVG3YU?t=202

https://youtu.be/5NVPAtguJV0

https://youtu.be/QGTJWdfEYc8

https://youtu.be/u0S8j-vLRZE

4۔تبرج و سفور کی محفلوں میں شرکت، بلکہ خواتین کے ساتھ تصاویر اور مصافحہ کرنا، واضح حرام، یا کم ازکم خلافِ مروت کام ہے۔   (تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر عام ہیں)

جبکہ ’اختلاط‘ کے جواز، اور سب سے پہلے اس کو شرعی لباس پہنانا، یہ تو ایک خطرناک عقیدہ ہے۔

https://www.alriyadh.com/468615

مذکورہ مقالہ میں موصوف نے ڈھٹائی کے ساتھ مرد و زن کے اختلاط کو شریعت سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ( جس کا کئی ایک سعودی علماء نے مدلل جواب بھی دیا ہے، جیسا کہ الطریفی وغیرہ)

جبکہ اہلِ علم نے یہ بات صراحت کے ساتھ لکھی ہے کہ مرد و زن کے اختلاط کو جائز قرار دینے والا کافر  و مرتد ہے۔ اور اگر اسے حرام سمجھتے ہوئے، اس میں سستی کرتا ہے، تو ایسا شخص فاسق ہے، جس کی کسی بات کا کوئی اعتبار نہیں۔ (احکام النظر للعامری:287)

5۔ ان کی کوششوں کا محور اسلام کی تبلیغ و ترویج کی بجائے، اقوامی متحدہ کے  ’عالمی منشور‘ کے زیادہ قریب نظر آتا ہے۔ جس کی مثال، وثیقۃ مکہ مکرمہ کا متن ہے۔ اس میں، اسلام کو اصل بنا کر، باقی سب کے ساتھ تعامل کی بجائے، سب ادیان و مذاہب کو برابر مان کر، انسانیت کی بنیاد پر تعامل کی طرف دعوت دی گئی ہے۔

https://themwl.org/sites/default/files/%D9%88%D8%AB%D9%8A%D9%82%D8%A9%20%D9%85%D9%83%D8%A9.pdf

مذکورہ باتوں میں سے کوئی ایک بات بھی کسی شخص میں پائی جائے، تو اسے امام بنانے کا تصور موجود نہیں، کجا یہ کہ اس میں سب موجود ہوں، اور پھر اسے مسلمانوں کے سب سے بڑی مذہبی اجتماع کی قیادت سونپ دی جائے۔ جبکہ دیگر صغار و کبار اور اہل شخصیات موجود ہوں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے، کہ  عالمی طاقتیں، سعودی حکومت کے زیر اقتدار مذہبی اجتماعات کو بھرپور انداز سے اپنے سیاسی اور فکری ایجنڈوں کے استعمال کے لیے منظم انداز سے  استعمال کرنے کے لیے، بھرپور جد وجہد شروع کرچکی ہیں۔

اس سب کے باوجود:

محمد العیسی کے ایسے بیانات بھی نظر آتے ہیں، کہ ہم اپنے مسلماتِ دین، عقیدہ و شریعت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنے والے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ  آپ کے نزدیک دین ہے کیا؟ تبلیغ دین پر آپ نے سمجھوتہ کیا، اسلام کو سب سے افضل ماننے کی بجائے، سب ادیان کو برابر سمجھنے کی تلقین کی، آپ کے دین میں ولاء و براء، اور جہاد کا کوئی تصور موجود نہیں، حجاب اتارنے کا آپ مشورہ دیتے ہیں، مرد و زن میں اختلاط، آپ کے ہاں کوئی مسئلہ نہیں۔ تو آپ کس دین کی بات کر رہے ہیں، جس پر آپ نے کوئی سمجھوتہ اور کمپرومائز نہیں کرنا؟

امتِ مسلمہ کا کردار

جہاں تک محمد العیسی کی بات ہے، تو میری معلومات کی حد تک،  سعودیہ کا ایک بھی عالم دین، اس کے حق میں نہیں ہے، اور نہ ہی کسی نے اس کے خطیب مقرر ہونے پر کوئی خوشی کا اظہار کیا ہے۔ اور یہ ہر قسم کے علماء کی بات کر رہا ہوں، بھلا آپ انہیں سلفی کہیں، مدخلی کہیں، تحریکی کہیں، اخوانی کہیں، جو بھی ہوں۔ اگرچہ لبرل پارٹی کا الزام یہی ہے کہ محمد العیسی کے خلاف شروع کردہ تحریک یہ ’اخوانیوں‘ کی شرارت ہے۔ گویا ان کے نزدیک ہر وہ بندہ، جو لادینیت کے خلاف آواز بلند کرے گا، وہ اخوانی ہے، اور سلفیوں میں ایسا کوئی امکان ہی موجود نہیں۔ حالانکہ یہ بات درست نہیں۔

سعودیہ میں موجود علماء کے دو بنیادی مسائل  یاعذر ہیں:

1۔ چونکہ محمد العیسی حکومت کا حصہ ہے، اور اس کی تنصیب و ذمہ داری حکومت وقت کیطرف سے ہوتی ہے، لہذا وہ ’اطاعتِ اولی الامر‘ کا یہ تقاضا سمجھتے ہیں، کہ اس کے خلاف نہ بولا جائے۔

2۔ ان کا دوسرا بڑا اور بنیادی مسئلہ یہ ہے، کہ جو بھی اس قسم کے کسی ’منکر‘ کا انکار کرتا ہے، اسے مصائب اور آزمائشیں جھیلنا پڑتی ہیں۔ لہذا وہ سمجھتے ہیں کہ سلامتی اور امن کی راہ اختیار کی جائے، اور خود کو مشکلات میں ڈالنا عزیمت بھی ہو، تو اللہ تعالی نے ہمیں رخصت دی ہوئی ہے۔

اس کے باوجود سعودیہ میں درجنوں علمائے کرام ہیں، جنہوں نے اس قسم کی پالیسیوں پر تنقید کی، اور آج وہ پسِ دیوارِ زنداں ہیں، یا پھر انہیں مکمل ڈرا دھمکاکر خاموش کروا لیا گیا ہے۔

لیکن حیرانی اس بات پر ہے، کہ سعودیہ سے باہر کے مسلمان اور سلفی کو کیا مسئلہ ہے؟ کیا سعودی حکمران اس کے ولی الامر ہیں کہ وہ ان کے خلاف بولنا درست نہیں سمجھتا؟ یا اسے لگتا ہے کہ میں اگر سعودیہ کے خلاف بولوں گا، تو مجھے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں گی؟

ظاہر ہے،  پاکستان، انڈیا، یا دیگر ممالک میں رہنے والے، کسی بھی سلفی یا غیرت مند مسلمان کے یہ مسائل نہیں ہیں۔ پھر ہر طرح کا شرح صدر ہونے کے باوجود ہر طرف ’ہُو‘ کا عالم،  کیوں ہے؟!

کس فتنے کے ڈر سے آپ خاموش بیٹھے ہیں، کیا حج سے بڑا بھی کوئی مذہبی ادارہ اور اجتماع ہے، جس کی قیادت و سیادت چھن جانے سے آپ ڈرتے ہیں؟

نہ ہم مظاہرات والے لوگ ہیں، نہ ہم مار دھاڑ کی بات کر رہے ہیں، لیکن ایک اچھے طریقے سے مسلمان ملک، وہاں کے علماء، وہاں کے حکمرانوں کو نصیحت اور شکوہ کرنے میں کیا حرج ہے؟

کیا ہمارا سعودیہ سے فقط تعلق صدقہ خیرات لینے کا ہی ہے؟ یا اس امید سے ہم خاموش ہیں کہ کہیں ہمیں ملنے والی مزعومہ اور متوقع دعوتیں ختم نہ ہوجائیں؟

دنیا کے کسی کونے میں، کوئی انسان غلطی کردے، ہم اس کا رد کرنا، اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں، لیکن  بات جب ہمارے اپنے ہم عقیدہ لوگوں پر آتی ہے، تو ہم لب سی کر بیٹھنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ گویا سعودیہ کے ذریعے ہمارے ایمان عقیدے، عقیدتوں پر جو بھی حملہ کردیا جائے، ہم اسے سرزمین حجاز کی ’سوغات‘ سمجھ کر قبول کرلیں گے؟

شیخ ابن باز علیہ الرحمہ ہم سب کے متفقہ بزرگ ہیں، وہ اطراف و اکناف عالم میں جہاں بھی کوئی چیز خلاف شریعت دیکھتے تھے، فورا خط لکھتے تھے۔ کون سی ایسی جماعت، اور حکومت ہے، جس کو ابن باز نے لکھا نہیں ہوگا۔ لیکن آج ان بزرگوں کے پیروکار، خود کو اس قدر حقیرو فقیر بنائے بیٹھے ہیں، کہ گویا ہمیں امت اور اس کے مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں، اور علیکم أنفسکم لایضرکم من ضل إذا اهتديتم  کا منہج اپنائے ہوئے ہیں۔

حالیہ مسئلہ میں محمد العیسی کے ناقدین

ویسے حالیہ مسئلہ میں بعض علمائے کرام کی طرف سے محمد العیسی پر تنقید بھی کی گئی ہے، جن میں چند سلفی شخصیات  کا مختصر ذکر کیا جاتا ہے:

  • د. سعید بن ناصر الغامدی: یہ سعودی عالم دیں ہیں، وہیں جامعہ امام وغیرہ سے پی ایچ ڈی ہولڈر ہیں، اور وہیں کچھ عرصہ پڑھاتے بھی رہے، اور پھر حالات کی سختی سے تنگ آکر، سعودیہ چھوڑ دیا۔

انہوں نے محمد العیسی کی خطبہ عرفہ پر تعیین کے بعد ایک مکمل بیانیہ لکھا، جس میں اس کے افکار و نظریات  ذکر کرکے، فقہی و عقدی نقطہ نظر ذکر کیا۔ اور اس پر پوری دنیا سے مختلف علمائے کرام  ، لجان اور تنظیموں سے دستخط لے کر، اسے نشر کیا۔ جسے  درج ذیل لنک میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے:

بيان شرعي عن حكم إمامة العيسى وخطبته في عرفة

  • د. احمد بن محمد صادق النجار : یہ لیبیا کے رہنے والے ہیں، لیکن انہوں نے پی ایچ ڈی تک تعلیم جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں حاصل کی ہے۔ کئی ایک کتابوں کے مصنف ہیں۔ انہوں نے “حكم الصلاة خلف خطيب عرفة محمد العيسى” کے عنوان سے ایک اصولی شذرہ لکھا ہے، جس کا کچھ حصہ درج ذیل ہے:

أولا: ننكر تعيينه خطيبا لعرفة؛ لما كان يظهره ويدعو إليه من السلام الدائم بين الأديان والاحترام لها .. وهذا لا يستقيم مع أصول الشريعة ولا يتوافق مع الواقع ولا ينسجم مع الفطرة السليمة.فمن أصول الشريعة: الولاء والبراء على دين الإسلام.فمثله لا يجوز تمكينه من أي ولاية ويمنع من الإمامة، ومنعه لأجل المنكر الذي يدعو إليه.

ثانيا: إذا ولي وعجزنا عن صرفه عن هذه الولاية ومنها الخطابة، أو ترتب فساد أعظم من مجرد إمامته.فهنا يصلى خلفه لمن كان في نمرة وما حولها؛ لمصلحة الجماعة ولعدم الفرقة ولشهود الاجتماع العظيم في اليوم العظيم الذي يدنو فيه الرب من عباده ويباهي بهم ملائكته لا سيما وأن مفسدة منكره وإمامته لن تدفع بترك الصلاة خلفه، فلو تركت الصلاة خلفه لتركت المصلحة ولم تدفع المفسدة،بخلاف ما لو فرضنا أن المفسدة تدفع بترك الصلاة خلفه، ففي هذه الحال لا يسعنا إلا عدم تجويز الصلاة خلفه.

حوالہ: مدونة أحمد محمد الصادق النجار

  • حاتم الحوینی:مصر کے مشہور سلفی عالم دین ابو اسحاق الحوینی کے صاحبزادے  ہیں۔ ان کی ایک ٹویٹ کافی وائرل ہوئی، جو کچھ اسطرح ہے:

ندعو الحجاج الكرام (بالصلاة في مخيمهم) والعدول عن الصلاة خلف خطيب عرفة د.محمد العيسى خشية أن تكون الصّلاة خلفه غير صحيحة؛ لتجاوزه حدّ ما قرّره العلماء في حكم الصلاة خلف البر والفاجر!! فقد آتى بمواقف عظيمة تطعن في العقيدة والمنهج وتفتك بالثوابت والأصول.

حوالہ: https://twitter.com/Hatem_alhowainy/status/1545034630847311874

خطبہ حج کے لیے محمد العیسی ہی کیوں؟

بہت سارے ہمارے بھائیوں کو یہ بھی غلط فہمی ہے کہ شاید محمد العیسی جیسے کردار سلفیت اور سلفی علماء کے نمائندہ ہیں… حالانکہ سعودیہ میں لبرل، آزاد خیال علماء اور سلفی یعنی روایت پسند علماء، کی آپس میں شدید عداوت ہے۔ حالیہ حکومت چونکہ لبرلز کو سپورٹ کر رہی ہے،اس لیے سب سلفی علماء خاموش ہیں. (اور بولنے والے جیلوں میں ہیں).

یہ بالکل اسی قسم کا سیناریو ہے، جس طرح احمد بن حنبل کے زمانے میں اہل بدعت حکمرانوں کے قریب ہوئے، تو انہوں نے اہل سنت کو دبا لیا تھا.ایسی صورت حال میں کوئی عقلمندی نہیں، کہ کوئی سلفی بھی اس قسم کی حرکات کو سپورٹ کرے.کیونکہ اس سے تو ہم خود وہاں موجود سلفی علماء کے بھی خلاف جارہے ہوں گے۔

سعودیہ میں سینمے، تبرج و سفور، تقارب بین الادیان یہ سارے معاملات میں کوئی ایک بھی سلفی عالم دین راضی ہے…؟ در حقیقت یہ محمد العیسی اور اس کی جماعت کی ہی کارستانیاں ہیں۔

محمد العیسی پر اب تک درجنوں سعودی سلفی علمائے کرام رد کرچکے ہیں.. جن میں سب سے بڑی شخصیت فضیلۃ الشیخ عبد المحسن العباد حفظہ اللہ ہیں… جنہوں نے اس پر اس وقت رد لکھا تھا، جب یہ وزیر عدل تھا. اور اس میں انہوں نے یہ کلمہ صراحتا لکھا تھا:

’’وزير ابتليت به مع الأسف وزارة العدل في بلاد الحرمين’’

یعنی یہ وزیر حرمین کی وزارت عدل کے لیے آزمائش ہے۔

مزید بھی اس کی قانون میں دسیسہ کاریوں کی مذمت کی، اختلاط کے جواز میں اس کی تحریر کو لاعلمی و جہالت قرار دیا۔ اور لکھا کہ اس قسم کا مقالہ اس کی شخصیت کو بے وقعت کرنے کے لیے کافی ہے.. وغیرہ.

خیر یہ اس وقت کی بات ہے، جب یہ وزیر العدل اور ہیئۃ کبار العلماء کا حصہ تھا، اب اس کے بعد تو اس کے پاس اور کئی حساس ذمہ داریاں آئیں.. اور اس کی حد یہ ہے کہ منبر حج بھی اس ’مبتلا’ کے سپرد کر دیا گیا.

شیخ عباد حفظہ اللہ نے بڑے نپے تلے، لیکن صریح انداز میں محمد العیسی کے مناصب کی قلعی کھولی ہے، آپ حفظہ اللہ فرماتے ہیں:

’پہلے تو اخبارات و جرائد، بے دین، لبرلز کی تحریریں شائع کیا کرتے تھے، تاکہ ان  بلادِ مقدسہ میں بے دینی کو عام کیا جاسکے، لیکن اب ایک عرصے سے، انہوں نے علما اور اہل دین کی صفوں میں اپنے حامی پیدا کرکے، ان کی تحریروں کی نشر و اشاعت کا اہتمام کیا ہے، اور پھر اس پر خوب شادیانے بھی بجاتے ہیں۔ اسی سلسلے میں انہیں ایک گوہر مقصود  ’ہیئۃ کبار العلما‘ سے بھی مل گیا، حالانکہ ہم سمجھتے ہیں کہ  جو مرد و زن کے اختلاط جیسے صریح حرام کو جواز بخشنے کی بات کرتا ہے، وہ ’ کبار ‘ میں سے نہیں، بلکہ وہ  در حقیقت ’صغیر‘ ہے، جسے مخصوص مقاصد کے لیے ’کبار العلماء‘ کی صف میں شامل کروایا گیا ہے۔

شیخ مزید لکھتے ہیں کہ: اس وزیر کو، پھر اس کے دو تین سال بعد ’ہیئۃ الأمر‘ کے رئیس اور دیگر کئی ایک لوگوں کو اہم مناصب تک پہنچانا، یہ لبرل ٹولے کی پلاننگ تھی۔  جس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’جب مناصب نا اہلوں کے سپرد کیے جانے لگیں، تو قیامت کا انتظار کریں‘۔

حوالہ:http://iswy.co/e4qe3

سعودیہ میں الحمدللہ، اب بھی خیر باقی ہے، لیکن تیزی سے اس کے خاتمے کے لیے اقدام کیا جارہے ہیں، اس وقت جو صورتِ حال ہے،  لبرلز  نے مذہبی طاقتوں پر مکمل کنٹرول کرلیا ہوا ہے۔ جہاں جہاں سے بھی تنقید اور بغاوت کا امکان ہوسکتا تھا، وہ شخصیات اور اداروں کا مکمل بندوبست کرلیا گیا ہے۔  ہیئۃ الامر کے پاس ایک وقت میں بہت صلاحیتیں تھیں، ان میں  کچھ بھی اب باقی نہیں ہے۔ گویا سعودیہ کی حد تک لبرلز کا مکمل کنٹرول ہوچکا ہے۔ اس لیے اب انہوں نے باہر کا رخ کیا ہے، کہ باہر کے لوگ بھی وہی پرانے لوگوں سے ہی عقیدتیں نہ لگائیں بیٹھے رہیں کہ ابن عثیمین، ابن باز کیا کہتے ہیں؟ بلکہ اب  نئے اسکالرز سامنے آئیں گے۔ حال ہی میں سارے کبار و صغار علماء کو پیچھے کرکے، محمد العیسی کو خطبہ حج کے لیے منتخب کرنا بھی اس پلان کا حصہ ہے کہ  پوری دنیا میں  بطور پیشوا سلفی علماء نہیں، بلکہ روشن خیال اسکالرز دکھائے جائیں۔

ایک صاحب کو میں نے دیکھا ہے، جو کہ سلفیت کے نہیں، بلکہ سعودی سیاست کے غالی حمایتی ہیں، لکھ رہے تھے، محمد العیسی پر طعن کرنے والے، در حقیقت رافضی، اخوانی، اور خارجی جہنمی کتے ہیں….!! اس مسکین کو یہ نہیں پتہ، کہ محمد العیسی پر سعودی علماء تب سے رد کر رہے ہیں، جب اسے سعودیہ سے باہر کوئی جانتا بھی نہیں تھا. واللہ المستعان۔

حرفِ اخیر

سعودیہ کا نام لیتے ہی، ہمارے ذہن میں محمد بن الوہاب ، محمد بن ابراہیم، ابن باز، ابن عثیمین رحمہم اللہ کا نام ذہن میں آتا ہے۔ لیکن غور کرنے کی ضرورت ہے کہ بالخصوص بن سلمان کے آنے کے بعد یہ سعودیہ اسی سلفی منہج پر ہے؟ اگر کوئی اس غلط فہمی پر قائم ہے، تو اسے بن سلمان کے افکار ونظریات سن پڑھ لینا چاہیے۔

جس میں وہ بہت صراحت کے ساتھ  کہہ چکے ہیں کہ  ہم دین کو شدت پسندی سے ہٹ کر، لے کے چلیں گے، جس طرح  پہلے  یہود و عیسائی،اور مسلمان سب اکٹھے رہتے تھے۔اور دین کی یہ’ مجددانہ تفسیر‘ انہیں سکھانے والے ابن باز، ابن عثیمین یا صالح الفوزان، یا عبد المحسن العباد نہیں ، بلکہ محمد العیسی، محمد الغیث جیسے روشن خیال لوگ ہیں۔ جن کی ایک دن بھی سعودیہ کے معتبر علماء کے ساتھ نہیں بنی۔

اور کچھ نہیں، تو کم ازکم اتنا ضرور ہونا چاہیے کہ سعودیہ میں ہونے والی منکرات  پر تنقید کو  ’سعودی سلفیت‘ پر تنقید کی بجائے، وہاں کی ’لبرالیت و روشن خیالی‘ پر  تنقید سمجھا جائے۔

آمین، وآخر دعوانا أن الحمد للہ، رب العالمین